سیکولرزم، سوشلزم کے محافظ شری سچر

0

کے سی تیاگی

جسٹس راجندر سچر کی سوانح عمری تاریخی دستاویز ہے جو سیاسی، عدالتی، شہری آزادی سے متعلق واقعات پر مبنی ہے۔ مسٹر سچر کی پیدائش1923میں متحدہ ہندوستان کے لاہور شہر میں ہوئی۔ ان کے والد مسٹر بھیم سین سچر گاندھی کے قریبی اور کانگریس پارٹی کے سینئر لیڈران میں شمار رہے ہیں اور آزاد ہندوستان میں متحدہ پنجاب کے پہلے وزیراعلیٰ کی ذمہ داری بھی انہوں نے نبھائی ہے۔ آزاد شخصیت کے مالک ہونے کے ناطے اسٹوڈنٹ لائف سے ہی وہ اپنے والد کی کنیت(سرنیم) ’سچر‘ اپنے نام کے ساتھ لکھنے سے پرہیز کرتے ہیں، تاکہ والد کی شہرت سے منسلک کرکے انہیں فائدہ اٹھانے والا نہ قبول کیا جائے۔ اسکول سے یونیورسٹی پہنچ کر سوچ و فہم کا دائرہ بھی توسیع پاتا ہے۔ معروف، لبرل، دانشور اور ادیب لاہور کی ثقافتی وراثت کو مسلسل طور پر خوشحال بنائے رکھتے ہیں، جن میں رومیش تھاپر، مظہر پیرن بروچہ، رومیش چندر اور راج ونش کھنہ وغیرہ شامل ہیں۔ لاہور کالج سے 1943میں گریجویٹ کا امتحان پاس کر کے ایک ذہین/تیز سوشلسٹ کارکن کی حیثیت سے کام کرنا شروع کرتے ہیں اور اس وقت کے تمام ترقی پسند قوم پرستوں کی تنظیم ’کانگریس سماجوادی پارٹی‘ میں شامل ہوجاتے ہیں۔ اگرچہ معروف و نامور لیڈر ہونے کے بیٹے ہونے کے ناطے کانگریس پارٹی میں عہدہ، وقار حاصل کرنا آسان تھا، لیکن آئیڈیل ازم کے اعلیٰ مقاصد کے لیے سوشلسٹ تحریک میں شامل ہونا ایک عمدہ مثال ہے۔1946میں قانونی ڈگری حاصل کرکے وکالت کرنے کے بجائے ٹریڈ یونین میں کام کرنے کو بہتر موقع منتخب کیا۔ گلزاری لال نندا بامبے ریاست میں لیبرمنسٹر تھے اور اپنے تعلقات کے ذریعے وہ باقاعدگی سے کارخانوں کا دورہ کرکے مزدوروں کے مسائل کا مطالعہ کرتے رہے۔ دریں اثنا فرقہ وارانہ کشیدگی کی وجہ سے مزدور تحریک بھی تقسیم ہوجاتی ہے اور مایوس ہوکر دہلی میں پڑاؤ بن جاتا ہے۔ دہلی کلاتھ ملز(ڈی سی ایم) باڑا ہندوراؤ میں ایک بڑا صنعتی ادارہ ہے۔ اس میں ٹریڈ یونین کے سکریٹری کی حیثیت سے تنظیم کے کام کا اچھا تجربہ ہوتا ہے۔ صوبہ لاہور میں بھی سماج وادی پارٹی کے کارکنوں کی ایک لمبی فہرست تیار ہوجاتی ہے، جس میں منشی احمد دینا، تلک راج چڈھا، پریم بھسین اور سریندر موہن وغیرہ لیڈر شامل ہیں۔ ہند-پاک تقسیم کے افسوس ناک واقعہ کی وجہ سے پورا منظر نامہ تبدیل ہوجاتاہے۔ لاہور اور امرتسر اس تقسیم کی نفرت کے مرکز بنتے ہیں اور دونوں اطراف کی اقلیتوں کو بلاوجہ تشدد کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ بچے، بوڑھے اور خواتین اس نفرت سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ انسانیت تقریباً دفن ہوچکی ہے۔ شیطانیت اور نسل کشی اپنے پورے شباب پر ہے اور سیکولر چرچائیں تقریباً صفر ہیں اور اسی کے آثاربد کا نتیجہ ہے 30جنوری1948کو گاندھی کا قتل۔صبح اپنے سالے مشہور صحافی کلدیپ نیر کے پاس لودھی گارڈن سے برلا ہاؤس کی جانب رخ کرتے ہوئے حیران ہیں کہ برلا ہاؤس کے مرکزی دروازے کے اوپر پنڈت نہرو عوام کے بڑے گروپ کو مخاطب کررہے ہیں۔ ان کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے ہیں۔ وہ باپو کو بھی یاد کررہے ہیں اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی قائم رکھنے کے لیے بھی لوگوں سے اپیل کررہے ہیں۔ سماج وادی پارٹی کے سرکردہ لیڈر جے پی، لوہیا، اشوک مہتا، ارونا آصف علی وغیرہ پناہ گزیں کیمپوں کا متواتر دورہ کرتے ہیں۔ امدادی سامان تقسیم کرتے ہیں اور آپسی بھائی چارہ قائم رکھنے کی اپیل کرتے ہیں۔ تقسیم بھی ہوگئی، آپسی بھائی چارہ بھی ختم ہوگیا، باپو بھی چھن گئے۔ لگتا ہے جیسے سبھی سوشلسٹ دیوالیہ اور یتیم ہوگئے۔
کانگریس پارٹی سے نظریاتی اختلافات میں شدت آنے کے سبب سبھی اہم لیڈر پارٹی چھوڑ کرسماج وادی پارٹی کے تعمیراتی کام کا آغاز کرتے ہیں، جس کا پہلا مقصد سیکولرزم اور سوشلزم ہے۔ دریں اثنا والد مسٹر بھیم سین سچر پنجاب کے وزیراعلیٰ منتخب کرلیے جاتے ہیں اور ایک دن علی الصباح چائے پر سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ سیاست کے بجائے انشورنس کمپنی کا کام سنبھالنا چاہیے۔ اگرچہ سیاست کرنے کی شدید خواہش ہے تو مجھے وزیراعلیٰ کے عہدے سے نجات حاصل کرنی ہوگی، لیکن سوشلسٹ تحریک سے الگ ہونا ذہنی طور پر مسٹر سچر کو قبول نہیں ہے۔ ادھر والد بھیم سین سچر وزیراعلیٰ کے عہدہ کا حلف لیتے ہیں، وہیں دوسری جانب ڈاکٹر لوہیا نیپال کی بادشاہت کی مخالفت میں نیپالی کانگریس لیڈروں کی حمایت میں نیپالی سفارت خانے کے باہر احتجاج کر رہے ہیں۔ مسٹر سچر بھی اس کا حصہ بن جاتے ہیں۔ کناٹ پلیس پولیس لاک اپ میں رات گزرتی ہے۔اگلے دن سبھی کو تہاڑ جیل میں منتقل کیا جاتا ہے اور سوشلسٹوں کا آزاد ہندوستان میں پہلے جیل دورہ کے پروگرام کا آغاز ہوتا ہے۔ ایک دلچسپ واقعہ کے تحت وزیراعظم نہرو کی طرف سے لوہیا کو بھیجا گیا آم کا ٹوکرا سب کو حیران کردیتا ہے۔ذاتی رشتوں کی حدبندی کو سیاسی نظریاتی اختلافات سے دور رکھا جاتا ہے۔ وزیراعظم پنڈت نہرو کا ہماری رہائش گاہ پر چائے پینے کا پروگرام ہے۔ وزیراعلیٰ کی حیثیت سے کابینہ کے سبھی ممبر مدعو ہیں۔ ایک سماجوادی کی حیثیت سے سچر غیر اطمینان بخش حالت میں ہیں، چوں کہ پورے ملک کے سماجووادی کانگریسی وزیراعلیٰ اور وزرا سے سماجی دوری بنائے رکھے ہوئے ہیں، لہٰذا سچر بھی والد کے ذریعہ منعقد ٹی پارٹی سے دوری بنالیتے ہیں۔ 1954میں معروف صحافی کلدیپ نیر کی بہن راج نیر سے شادی کا عمل پورا ہوجاتا ہے۔
پارٹی کا کام کرتے ہوئے ہائی کورٹ میں وکالت کا کام بھی شروع کردیا جاتا ہے۔ شملہ ہائی کورٹ اس وقت اس کا مرکز ہوتا ہے۔ ججوں کے انتخاب کے عمل میں بیرونی دخل پہلے سے چلن میں ہے۔ اس کی لمبی چوڑی تاریخ کی تفصیل بھی مسٹر سچر بتاتے ہیں، جس میں ان کے خود کے بھی تجربات شامل ہیں۔ بھیم سین سچر کے وزیراعلیٰ کے عہدے سے سبکدوش ہونے کے بعد ہی پرتاپ سنگھ کیروں پنجاب کے وزیراعلیٰ بنتے ہیں۔ بھیم سین سچر کے وقت سے ہی وہ مخالف خیمہ میں شمار کیے جاتے ہیں۔ اسی دوران ضلع جج کے کچھ خالی عہدوں کے لیے تقرریاں ہونی ہیں اور مسٹر سچر کا نام بھی سلیکشن لسٹ میں شامل ہے، جس کو مسٹر کیروں اپنے سیاسی اثر و رسوخ سے روک دیتے ہیں۔پنجاب کی تقسیم کے بعد پنجاب بار ایسوسی ایشن کے صدر کے عہدہ کی ذمہ داری سنبھالنے کا اعزاز حاصل ہوتا ہے۔ پارلیمانی سیاست کے کسی بڑے عہدہ کے لیے شاید سچر نہیں بنے تھے، لہٰذا کئی مواقع آئے لیکن یہ مواقع انہیں کوئی مقام مہیا نہیں کرا پائے۔ اس لیے زیادہ وقت قانونی داؤپیچ کے اردگرد ہی سمٹا رہا۔ 1970 میں دہلی ہائی کورٹ میں جج بننے سے لے کر ریٹائرمنٹ تک عدالت کے اندر جانبداری اور مداخلت کی سیکڑوں داستانوں سے سامنا کرنا پڑا۔ 1975میں ایمرجنسی کے اعلان کے بعد ہی کسی طرح ٹرانسفر کرکے جے پور روانہ کیا گیا اس کا بھی تفصیلی ذکر ہے۔
ریٹائرمنٹ کے بعد انسانی حقوق کی تنظیموں سے جوڑ کر کئی طرح سے اس ادارے کو زندہ رکھنے میں سرگرم تعاون دیا، لیکن حال اور مستقبل کی تاریخ نے اس کو امر کردیا جب انہیں اقلیتوں کی معاشی، معاشرتی اور تعلیمی حالت کا مطالعہ کرکے ایک رپورٹ تیار کرنے کی تاریخی ذمہ داری ملی جسے بعد میں سچر کمیشن کے طور پر جانا جاتا ہے۔ سرکاری اور غیر سرکاری تنظیموں میں ان کی حصہ داری تعلیم، صحت، بچوں کی شرح اموات، قرض وغیرہ کا تفصیل سے تجزیہ ہوتا ہے۔
برسوں کی انتھک کوششوں کے بعد403 صفحات پر مشتمل رپورٹ تیار ہوئی۔ کئی تنظیموں کی جانب سے اس پر تنقید بھی ہوئی کہ کس طرح یہ مسلم نوازی کی کوشش ہے۔افسوس ہے کہ ان کی سفارشات کو نافذ کرنے کی ہمت کسی بھی حکومت کے ذریعہ نہیں کی گئی۔ حکومت 2008میں ان کے اس اختراعی کام کے لیے انہیں پدم ایوارڈ دینا چاہتی تھی، جسے انہوں نے شائستگی سے مسترد کردیا۔
(مصنف جے ڈی(یو)کے چیف جنرل سکریٹری اور سابق ممبر پارلیمنٹ ہیں۔)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS