روزگار کی سطح پر بہار الیکشن کے اثرات

0

محمد حنیف خان

سیاست کا کوئی ایک چہرہ نہیں ہے ،اس کے ہزار روپ ہیں،کب کس روپ میں وہ سامنے آئے کوئی کچھ نہیں جانتا۔ بہار الیکشن کے نتائج آ چکے ہیں،وہاں نئی سرکار بھی بن چکی ہے۔وہی لوگ دوبارہ اقتدار میں آئے ہیں جن کے ہاتھ میں اس سے قبل زمام اقتدار تھی مگر اب وہ رنگ ڈھنگ نہیں ہوگا جو کبھی ہوا کرتا تھا۔بہارمیں حکومت خواہ نہ بدلی ہو مگر حکومت جو سیاست سے حاصل کی جاتی ہے، اس کا چہرہ ضرور بدل گیا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق بہار الیکشن میں 54فیصد ووٹروں نے ’’ملازمت‘‘ کے مسئلے پر ووٹنگ کی ہے۔تیجسوی یادو نے 10لاکھ نوکریوں کا وعدہ کیا تو نتیش کمار نے اس کا مذاق اڑایا مگر بی جے پی 19لاکھ کے وعدے کے ساتھ جب میدان میں آئی تو ان کی زبان بند ہوگئی لیکن چونکہ بی جے پی اور جے ڈی یو اتحاد میں تھے، اس لیے اس کا فائدہ ان کو ملا اور وہ دوبارہ وزارت اعلیٰ کی کرسی پر فائز ہو گئے۔
ایسا نہیں ہے کہ ملازمت /روزگار کبھی انتخاب کا موضوع نہیں رہا ہے،ہمیشہ حزب اختلاف نے اس مسئلے کو اٹھایا ہے لیکن کبھی بھی الیکشن کا ارتکاز اس مسئلے پر نہیں ہوا۔ مگر اس بار بہار کا الیکشن اگر کسی مسئلے پر مرتکز ہوا ہے تو وہ ملازمت/ روزگار کا مسئلہ تھا۔اسی لیے 54فیصد ووٹنگ بھی اسی مسئلے کو لے کر ہوئی جو خوش آئند ہے۔
بہار انتخاب کے نتائج اور وہاں حکومت سازی کو ہفتہ بھی نہیں گزرا کہ الیکشن میں روزگار/ملازمت کے مسئلے کے نتائج دکھائی دینے لگے۔یہ بہار الیکشن کا مثبت نتیجہ ہی ہے کہ راجستھان کے وزیراعلیٰ اشوک گہلوت اور اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے ٹوئٹر ہینڈل سے ملازمت کے لیے ہونے والے امتحانات کے نتائج اور تقرری نامہ سونپے جانے کی خبریں ٹوئٹ ہونے لگی ہیں۔اہم بات یہ ہے کہ وزیراعلیٰ آدتیہ ناتھ نے محکمہ آبپاشی میں جن 1438 جونیئر انجینئروں کو تقرری نامہ دیے جانے کی خبر ٹوئٹ کی ہے اس کا اشتہار سماج وادی پارٹی کی حکومت کے دوران 2013 میں شائع ہوا تھا۔جبکہ اشوک گہلوت نے لائبریرین کے جن عہدوں کے نتائج کا اعلان کیا ہے، اس کا اشتہار2018میں جاری ہوا تھا۔اشتہار اور امتحان کے نتائج و تقرری نامہ کے مابین کتنا زمانی فاصلہ ہے، یہ الگ موضوع ہے لیکن جس طرح سے ان دونوں وزرائے اعلیٰ نے ملازمت سے متعلق خبر کو اہمیت دی ہے، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سیاست دانوں کے مزاج اور ان کی سوچ پر کس طرح بہار کا الیکشن اثر انداز ہوا ہے کہ اب وہ اس کی خبر خود اپنے ٹوئٹر ہینڈل سے دینے لگے ہیں۔حالانکہ اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ پانچ برس میں 70لاکھ بے روزگاروں کو نوکری دینے کا وعدہ بھولے بیٹھے ہیں۔ان کو ہر ماہ سوالاکھ لوگوں کو ملازمت دینا تھامگر ان کا ہاتھ بالکل خالی ہے۔
سیاست کا چہرہ اور اس کی شکل میں تبدیلی اب وقت کی ضرورت ہے، محض جملوں سے اب کام چلنے والا نہیں ہے کیونکہ اب تک جو لوگ بھی اقتدار میں آئے ہیں انہوں نے کبھی اس بات کو اہمیت نہیں دی کہ نوجوانوں کو ملازمت ملے،جب بھی کوئی اقتدار میں آیا تو اس کے لیے دو مسئلے سب سے اہم رہے ہیں اول جو ظاہر و ازبر رہا ہے وہ کمائی اور بینک بیلنس، اسی وجہ سے زمینی سطح پر کچھ کام بھی دکھائی دے گیا ہے۔دوسرا جو ڈھکا چھپا رہاہے وہ اپنی پالیسیوں کا نفاذ جن کا تعلق ذہنی و فکری رہا ہے۔لیکن اب اپنی جیبیں بھرنے اور عوام کی طرف جملے اچھالنے سے کام چلنے والا نہیں اس کے لیے ٹھوس کام کرنا ہوگا جس میں سر فہرست نوجوانوں کے ہاتھوں کو کام دینا ہوگا۔بہار میں اقتدار میں آنے والے این ڈی اے نے 19لاکھ افراد کو پہلے ملازمت کا وعدہ کیا لیکن ابھی سے یہ بات شروع ہوگئی ہے کہ ہم نے ملازمت نہیں روزگار کی بات کی تھی۔یہ تو سب کو معلوم ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی’’پکوڑا تلنے‘‘ کو بھی روزگار قرار دے چکے ہیں۔اب اگر این ڈی اے کا مقصد اسی روزگار سے ہے تو اس کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ آخری الیکشن نہیں ہے، اس لیے بہار کے نوجوانوں کے ہاتھوں کو کام اور ان کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کی ذمہ داری اب این ڈی اے حکومت کی ہے۔ اگر اس نے اس معاملے میں ’’پندرہ لاکھ ،یا پکوڑا تلنے ‘‘ والی غلطی کی تو اس کا خمیازہ بنگال اور اترپردیش میں اس کو بھگتنا پڑ ے گا۔
راجستھان میں کانگریس سرکار کے سربراہ اشوک گہلوت اوراتر پردیش میں بی جے پی سرکار کے سربراہ یوگی آدتیہ ناتھ روزگار کے مسئلے کی اہمیت کو سمجھ رہے ہیں، اسی لیے وہ اپنے ٹوئٹر ہینڈل کا استعمال کرکے اپنے عزائم کا اظہار کر رہے ہیں کہ ان کے لیے نوجوان اہم ہیں۔ان دونوں وزرائے اعلیٰ کو معلوم ہونا چاہیے کہ ریاستی کمیشن کے تحت ہونے والے امتحانات اور ان کے نتائج میں جو تاخیر ہوتی ہے، اس سے سب سے زیادہ نوجوانوں کا نقصان ہوتا ہے کیونکہ دو چار برس گزر جاتے ہیں تب کہیں جا کر نتائج کا اعلان ہوتا ہے اور چار چھ برس کے بعد ان کو نوکری ملتی ہے۔اگر یہ کمیشن اور اس کے ذمہ داران اپنا کام وقت پر کریں اور ان سے اس معاملے پر باز پرس ہو تو یہ تاخیر نہ ہو مگر چونکہ کسی بھی سیاسی پارٹی کے ایجنڈے میں ملازمت کو اولیت نہیں حاصل ہے، اس لیے کبھی اس جانب توجہ نہیں دی جاتی ہے۔امیدوار خود بھی یہ مان کر چلتے ہیں کہ جس عہدے کے لیے انہوں نے امتحان دیا ہے، اس کا نتیجہ دو چار برس کے بعد ہی آئے گا۔آخر نوجوانوں کے خوابوں کے ساتھ ایسا کھلواڑ کیوں کیا جاتا ہے؟
2011میں ہوئی مردم شماری کے مطابق ہندوستان میں تقریباً 35فیصد آبادی نوجوان کی ہے ،یہی صورت حال تقریباً آئندہ دو عشروں یعنی بیس برس تک برقرار رہے گی۔چونکہ اب تعلیم اور تکنیک کے دائرے میں اضافہ کی وجہ سے یہ 35فیصد آبادی روزگار کے لائق بھی ہے۔اب اگر ان کو روزگار نہیں ملے گاتو پھر ایک ہی نہیں کم از کم تین نسلیں بغیر کسی کام کے گزر جائیں گی، ایسے میں ملک کیسے ترقی کرسکے گا اس پر سوچنے کی ضرورت ہے۔
نیشنل سیمپل سروے آفس حکومت کا ایک ایسا ادارہ ہے جس کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک میں ’’ان ایمپلائمنٹ‘‘ بے روزگاری کا جائزہ لے کر اپنی رپورٹ سونپے۔اتنا اہم ادارہ ہونے کے باوجود یہ ادارہ ہر برس اپنی رپورٹ نہیں پیش کرتا ہے بلکہ یہ پانچ برس میں اپنی رپورٹ دیتا ہے۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ اس کی تین رپورٹ ہی مکمل طور پر سرکار کو ملی ہیں جن میں 2004-2005,2009-2010,2011-2012یہ سبھی رپورٹ کانگریس کی منموہن سرکار میں آئی تھیں۔این ڈی اے دوسری بار اقتدار میں ہے مگر ابھی تک اس ادارے نے ایک بھی رپورٹ سرکار کو نہیں دی ہے جبکہ بی جے پی نے ہر برس دو لاکھ نوکریوں کا وعدہ کیا تھا۔جب آج تک نیشنل سیمپل سروے آفس نے اس کو رپورٹ نہیں دی تو وہ نوجوانوں کو روزگار یا ملازمت کیسے دے گی، اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
مرکز و ریاست کی حکومتوں کو نوجوانوں کو روزگار اور ملازمت دینے کے لیے دو راستے اختیار کرنے ہوں گے۔ اول سالانہ یہ سروے کرایا جائے کہ کتنے افراد ہیں جو بے روزگار ہیں، دوم جتنے بھی سرکاری عہدے ہیں مرکز و ریاست کی سطح پران کو پُر کیا جائے لیکن صرف اشتہار شائع کرانے یا اشتہار بازی سے کام نہیں چلے گا بلکہ اس کے لیے ذمہ دار اداروں/افراد کی جواب دہی طے کی جائے ورنہ امتحان کے پانچ برس بعد نتیجہ آئے گا اور پھر وہ کورٹ میں پہنچ کر منسوخ ہو جائے گا اور نوجوان اپنی جوتیاں گھستا رہ جائے گا۔اس میں اگر نقصان ہے تو ذاتی سطح پر اس نوجوان/کنبے کا اور پھر ملکی سطح پر اس عظیم ملک کا نقصان ہے جس کا خواب ہے کہ وہ ترقی یافتہ بن کر پوری دنیا کی رہنمائی کرے گا۔ سیاست دانوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ بھوکے پیٹ کوئی سپر پاور نہیں بن جاتا، اس کے لیے ضرورت ہے پیٹ بھرکھانے کی جو ہر ہاتھ کو بغیر کام کے ناممکن ہے۔
[email protected] 
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS