پھر آگئے امتحان والے دن

کورونا وبا اور آن لائن پڑھائی کے بعد پہلی مرتبہ امتحانات کا دور آیا ہے، اس مرتبہ بچوں میں اعتماد کم ہوگا اور دباؤ زیادہ

0

شما شرما

امتحان کے دن آرہے ہیں اور فکر شروع ہوگئی ہے۔ بہت سے بچوں کی تو خواہش ہے کہ کسی نہ کسی طرح امتحان ٹل جائیں۔ کئی مرتبہ تو ایسا ہوتا ہے کہ پورے سال محنت کی ہوتی ہے لیکن جیسے ہی سوالنامہ سامنے آتا ہے، سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ یا بہت کچھ آتے ہوئے بھی، اس وقت ٹھیک سے یاد نہیں آتا۔ ایسی مشکلات کا سامنا ہر نسل کے لوگوں نے کیا ہے۔ سوالنامہ سامنے آنے سے پہلے خوب ڈر لگتا تھا۔ دل کی دھڑکنیں بڑھ جاتی تھیں۔ پیپر سے پہلے رات بھر طرح طرح کی خیالات اور فکر میں نیند نہیں آتی تھی۔ ڈر لگا رہتا تھا کہ کہیں کچھ پڑھنے سے رہ نہ گیا ہو۔ تب بڑے سمجھاتے تھے کہ تمہیں سب آتا ہے، گھبراؤ مت۔ سوالنامہ جب ملے گا تو سارا ڈر خودبخود ختم ہوجائے گا۔ پورے اعتماد سے امتحان دینا۔ پہلے توجہ سے پورے سوالنامہ کو پڑھنا۔ جو آتا ہے، اسے سب سے پہلے کرنا۔
ان دنوں بھی بچوں کو اس طرح کی پریشانیاں اور فکر بہت ہوتی ہیں۔ کچھ سال پہلے وزیراعظم نریندر مودی نے بچوں کے لیے ایک کتاب بھی لکھی تھی-ایگزام وائرس۔ اس سال بھی وہ امتحان سے پہلے بچوں کو مخاطب کرنے والے ہیں۔
امتحانات کے ڈر سے بہت سے بچے گھر تک سے فرار ہوجاتے ہیں یا بیمار پڑجاتے ہیں۔ اسی لیے ان دنوں سی بی ایس ای اور تمام ریاستی حکومتیں امتحان کے دنوں میں بچوں کے لیے ہیلپ لائن نمبر جاری کرتی ہیں۔ تمام ایف ایم چینلس میں ماہرنفسیات اور کاؤنسلر بچوں کی مدد کے لیے موجود رہتے ہیں۔ امتحان کے وقت ہونے والی فکر، وقت پر کچھ نہ یاد آنا، سوالنامہ دیکھتے ہی سب کچھ بھول جانے کو انگریزی میں ’ٹسٹ اینگزائٹی‘ کہتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ 16سے 20فیصد تک بچے طرح طرح کی اینگزائٹی کے شکار ہوتے ہیں۔ امریکہ میں 10سے لے کر 40فیصد تک بچے ٹسٹ اینگزائٹی سے متاثر پائے گئے ہیں۔ امتحانات میں اچھا کرسکیں، اس کے لیے تھوڑی بہت فکر یا تناؤ تو ٹھیک ہے، لیکن اس کا ضرورت سے زیادہ بڑھ جانا ٹھیک نہیں ہے۔ بچوں کو طرح طرح کے ڈر ستاتے ہیں کہ کہیں فیل نہ ہوجائیں۔ نمبر اچھے نہیں آئے تو والدین، دوستوں اور پڑوسیوں کا سامنا کیسے کریں گے؟ ویسے بھی ان دنوں والدین چاہتے ہیں کہ ان کے بچے کے ہر سبجیکٹ میں 100 میں سے 100نمبر آئیں۔ وہ کلاس میں نہیں، پورے بورڈ ایگزام میں ٹاپ کریں۔ اس طرح کی امید بچوں کے تناؤ میں اضافہ کرتی ہے۔ نہ صرف تناؤ، بلکہ اُلٹی، پیٹ درد، ضرورت سے زیادہ پسینہ آنے لگتا ہے۔ اس سے بچوں کی صحت پر بھی برا اثر پڑتا ہے۔
2014میں این سی آر بی کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ بورڈ کے امتحانات کی فکر کے سبب خودکشی کرنے والے بچوں کی تعداد تمل ناڈو میں سب سے زیادہ ہے۔ وہاں بورڈ کے امتحانات سے پہلے 100بچوں پر ایک اسٹڈی کی گئی تھی۔ ان میں 50لڑکے اور 50لڑکیاں تھیں۔ اس اسٹڈی میں علم ہوا کہ 8فیصد بچے ایسے تھے، جن میں امتحان کی فکر یا ٹسٹ اینگزائٹی ضرورت سے زیادہ تھی۔ اسے سیوئیر ٹسٹ اینگزائٹی کہتے ہیں۔ 38فیصد میں کچھ کم اور 4فیصد میں معمولی تھی۔ لڑکیوں کے مقابلہ لڑکوں میں ٹسٹ اینگزائٹی زیادہ تھی۔ اس کے علاوہ جوائنٹ فیملی کے مقابلہ نیوکلیئر فیملی میں رہنے والے بچے اس سے زیادہ متاثر تھے۔ اس کا سبب بتایا گیا کہ والدین اگر بچوں پر توجہ نہ بھی دے پائیں تو دادادادی کا سہارا مل جاتا ہے اور انہیں امتحان کے دنوں میں کم تناؤ اور فکر ہوتی ہے۔ جوائنٹ فیملی میں رہنے والے بچوں میں سیویئر ٹسٹ اینگزائٹی پائی ہی نہیں گئی۔ امتحان کے دنوں میں تقریباً سبھی بچوں میں فکر کی علامات نظر آئیں۔ دسویں، بارہویں کے بچوں میں نویں، گیارہویں کے بچوں کے مقابلہ زیادہ ٹسٹ اینگزائٹی پائی گئی۔
تو بچے کیا کریں؟ ماہرین کا کہنا ہے کہ امتحان کے دنوں میں بھی بچے پوری نیند لیں۔ تغذیہ سے بھرپور غذا (Nutritious food) کے ساتھ ساتھ خوب پانی پئیں۔ ہلکی ورزش بھی کریں، جس سے تروتازہ رہ سکیں۔ سیمپل پیپر اسی طرح سے حل کریں، جیسے کہ امتحان کے وقت کریں گے، اس سے امتحان میں آنے والے پیپر کا ڈر ختم ہوجاتا ہے۔ بار بار ٹسٹ دیں۔ اس سے لکھنے کی عادت تو بنتی ہی ہے، وقت پر پیپر پورا کرنے کی مشق بھی ہوتی ہے۔ پڑھنے کا ٹائم ٹیبل بھی بنائیں۔ جو نہ آتا ہو، اسے سمجھنے میں ٹیچروں اور اپنے گھر کے بڑے لوگوں کی مدد لیں۔ فوکس کرنا سیکھیں۔ ایسے چھوٹے موٹے تفریحی پروگرام وقت وقت پر دیکھیں، جو تناؤ کم کرتے ہیں اور ہنساتے ہیں۔ اگر ضرورت ہو، تو کاؤنسلر یا ماہرنفسیات کی مدد لیں۔ اس کے علاوہ امتحان مرکز میں کئی مرتبہ بچے ایڈمٹ کارڈ لانا بھول جاتے ہیں۔ امتحان کے دنوں میں لکھنے پڑھنے کے سامان کی ایک جگہ ہی رکھیں، تاکہ تلاش کرنے میں وقت ضائع نہ ہو۔
اچھا یہ بھی رہتا ہے کہ امتحان شروع ہونے سے پندرہ منٹ پہلے امتحان مرکز میں پہنچ جائیں، کیوں کہ کئی مرتبہ ایسے حادثات ہوجاتے ہیں جن کا پہلے سے علم نہیں ہوتا۔ جیسے کہ ٹریفک جام میں پھنسنا، سائیکل کا پنکچر ہونا، جس دوست کے ساتھ جانا تھا، اس کا نہ آنا یا دیر سے آنا۔ گھر میں کسی کا اچانک بیمار پڑجانا۔ اگر امتحان مرکز پر جلدی جانے کے بارے میں سوچیں گے تو ان سبھی مشکلات سے آسانی سے نمٹ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ پہلے پہنچ کر دوستوں سے ہنسی مذاق کرکے بھی تناؤ کم ہوتا ہے۔ حالاں کہ کچھ معاملات میں دیکھا گیا ہے کہ دوست کی تیاری کے بارے میں جان کر اپنی تیاری پر شک ہونے لگتا ہے، اس لیے تناؤ و امتحان کے ڈر میں اضافہ ہوتا ہے۔ امتحان کے دنوں میں والدین کو بچوں کا خصوصی خیال رکھنا چاہیے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ بچے کی پریشانی سے بے خبر رہیں اور بچہ اگلی کسی بڑی پریشانی میں پڑجائے۔ جیسے ان کا گھر سے فرار ہونا یا خودکشی جیسے مہلک قدم اٹھانا۔ کورونا جیسی وبا اور آن لائن پڑھائی کے بعد پہلی مرتبہ امتحانات کا وقت آیا ہے، اس مرتبہ واقعی بچوں میں اعتماد کم ہوگا اور دباؤ زیادہ۔ یہ سوالنامہ سے لے کر کاپی چیک کرنے اور نتیجہ تک نرمی برتنے کا وقت ہے۔
پرانے دنوں کو یاد کرتی ہوں تو امتحان کے دنوں میں اتنی نیند آتی تھی کہ کتاب سامنے ہے اور جھپکی آرہی ہے۔ مگر جس دن امتحان ختم ہوجاتے تھے، نیند کا کہیں پتا نہیں ہوتا تھا۔ شاید آج کے بچوں کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہوگا۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
(بشکریہ: ہندوستان)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS