ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

0

کلیم الحفیظ

تعلیم کا عمل صرف بچے،اسکول،کتاب اور استاذ پر ہی منحصر نہیں ہوتا،ان کے علاوہ بھی بہت سے عوامل (فیکٹرس) ہیں جو بچے کی تعلیم،اس کی تربیت،اس کے مستقبل کی تعمیرپر اثر انداز ہوتے ہیں،اس لیے کہ انسان ایک سماجی جاندار ہے۔ اس کی پرورش سماج مل کر کرتاہے۔ اس کی شخصیت کی تعمیر میں سماج کے بہت سے ادارے اثرانداز ہوتے ہیں۔ اس میں سب سے پہلا اس کا گھر اور خاندان ہے۔ گھر کا ماحول، اہل خانہ کے اخلاق وعادات، ا ن کے معمولات، ان کی سوچ اور فکر سب بچے پر گہرے نقوش ثبت کرتے ہیں اور بچہ سب سے زیادہ گھر سے سیکھتا ہے۔ بچے کی ماں اس کا پہلا مدرسہ ہوتی ہے۔بچے کی تربیت اور تعلیم کا عمل دوران حمل سے ہی شروع ہوجاتا ہے۔اس کے دماغ اور اس کی صلاحیتوں پر ماں کی غذا سے لے کر جملہ حرکات و سکنات کے اثرات پڑتے ہیں۔
یہودیوں پر ایک تحقیق کے مطابق یہودی مائیں حمل کے آغاز سے ہی باقاعدہ طور پر ریاضی کے سوالات حل کرنا شروع کر دیتی ہیں۔ حمل کے دوران وہ خوش رہتی ہیں۔ ان کی خوراک کا پورا خیال رکھا جاتا ہے۔یہ پیٹ میں موجود بچے کو ٹرینڈ کرنے کے لیے کیا جاتاہے تاکہ وہ بعد میں ہوشیار اور جینیئس ہوسکے۔یہودی حاملہ خوراک میں ہمیشہ، بادام، کھجوریں، دودھ اور مچھلی شوق سے لیتی ہیں۔ سلاد میں بادام اور دیگر گری والے میوے مکس کر کے کھاتی ہیں۔ ان کا یقین اور تحقیق ہے کہ مچھلی دماغ کی نشوونما کے لیے بہت مفید ہے۔حمل کے دوران انہیں پرسکون اور ریلیکس ماحول فراہم کیا جاتا ہے، انہیں کوئی ذہنی پریشانی، ڈپریشن نہیں ہوتا بلکہ ہر وقت ان کی سوچ مثبت تعمیری اور بچے کی قابلیت کے لیے مصروف رہتی ہے۔ہمارے ملک میں بھی آر ایس ایس کی بعض ذیلی تنظیمیں حاملہ خواتین کی کائونسلنگ اور رہنمائی کے لیے ورکشاپ کرتی ہیں۔
اس کے بر عکس مسلم معاشرے میں نہ حاملہ کی خوراک پر توجہ دی جاتی ہے اور نہ اس کے لیے پرسکون ماحول فراہم کیا جاتا ہے۔اکثر گھروں میں شوہر کی بے رخی اور عدم موجودگی، ساس اور نندوں کے طعنوں کے درمیان بچے کی پیدائش ہوتی ہے۔پیداہونے کے بعد واہیات قسم کی درجنوںرسمیں انجام دی جاتی ہیں مگر یہ کوئی نہیں سوچتا کہ اب اس بچے کو کس طرح کارآمد انسان بنانا ہے۔ اگر کوئی توجہ دلاتابھی ہے توتدبیر پر آمادہ ہونے کے بجائے تقدیر کے سپرد کردیا جاتا ہے اور پھر وہ تقدیر کے بھروسے ہی آگے کی منزلیں طے کرتاہے، جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔جب کہ اہل خانہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ شکم مادر میں ہی بچے اور اس کی ماں کا خیال رکھیں۔ ایک بچہ کا دنیا میں آنا کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔ یہ وہی بچہ ہے جس کے لیے خالق نے کائنات سجائی، انبیا، رسل مبعوث فرمائے، اگر آپ چاہیں تو اس بچے کو صاحب کمال بنا سکتے ہیں جس سے انسانیت کو فائدہ پہنچے اور آپ کی بے توجہی اس کو سماج کے لیے نقصان دہ بھی بناسکتی ہے۔ اس لیے نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’ہر بچہ اسلام کی فطرت پر پیدا ہوتا ہے، والدین اسے یہودی یا نصرانی بنادیتے ہیں۔ ‘‘ اور بقول علامہ اقبالؒ:
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
دوسرا سب سے بڑا فیکٹر جو بچے کی تعلیم وتربیت اور شخصیت سازی میں موثر رول ادا کرتاہے، وہ سماج اور معاشرہ ہے۔ بچہ جب کچھ بڑا ہوتاہے تو وہ گھر سے باہر قدم نکالتاہے اور باہر کی دنیا دیکھتا ہے۔ محلے کے ماحول کا اثر اس پر پڑتاہے اور وہ اس کو قبول بھی کرتاہے۔ ہم مسلم محلوں کی گندگیوں سے خوب واقف ہیں۔ بچے، بوڑھے، جوان بیڑی سگریٹ پینے میں مصروف ہیں، بات بات پر گالیاں دے رہے ہیں، بچہ یہ سب کچھ دیکھتااور سنتا ہے اور پھر نقل کرتاہے۔ کوشش کرنی چاہیے کہ بچے کو کم سے کم باہر بھیجا جائے۔ آپ اس کے کھیل کھلونے کا نظم گھر کے اندر ہی کردیں۔ اس کے ساتھ کھیلنے کا وقت نکالیں، اگر باہر جائے تو اپنے ساتھ لے کر جائیں، وہاں جو اچھی چیزیں ہیں ان کی طرف اس کا ذہن مبذول (DIVERT) کرائیں اور برائیوں سے نفرت دلائیں تو امید کی جاسکتی ہے کہ وہ محلے کے برے اثرات کم قبول کرے۔ بچے کے دوستوں کے انتخاب میں بھی بچے کی مدد کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ انسان اپنے دوستوں سے ہی پہچانا جاتا ہے۔
تیسرابڑا فیکٹر اس کا ا سکول ہے۔ اسکول کے انتخاب میں غور وفکرسے کام لیا جائے۔ اسکول کا انتخاب کرتے وقت آپ کے سا منے مقصد تعلیم واضح رہنا چاہیے، آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ آپ اپنے بچے کو کیو ں پڑھانا چاہتے ہیں؟ کیا بنانا چاہتے ہیں؟ آپ کے سامنے یہ بات رہنی چاہیے کہ بچے کو ایک مسلمان کی حیثیت سے کس تعلیم کی ضرورت ہے اور ملک کا ایک اچھاشہری بننے کے لیے کن علوم کی ضرورت ہے۔ بغیر سوچے سمجھے کسی بھی اسکول میں داخل کردینے سے اور پھر سال دوسال میں اسکول تبدیل کرتے رہنے سے تعلیم اور تربیت دونوں متاثر ہوتی ہیں۔
بچوں کی تعلیم پر اثرانداز ہونے والے عوامل میں والدین کی معاشی حالت بھی شامل ہے۔ہر بچہ عقل اور ذہانت لے کر دنیا میں آتا ہے لیکن ہر بچے کے والدین کے معاشی حالات مختلف ہوتے ہیں۔یہ مختلف معاشی حالات بچے کی تعلیم پر بہت گہرا اثر ڈالتے ہیں۔سرمایہ کی کمی، فیس کی ادائیگی میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔ایک غریب باپ اپنے ذہین بچے کو کوچنگ کی سہولت فراہم نہیں کرپاتا۔اس طرح ملت کا بڑا ٹیلنٹ صرف خاک چھانتا رہ جاتا ہے۔اس صورت حال میں والدین کو تعلیمی بجٹ بنا نے کی ضرورت ہے کیوں کہ بعض اوقات بجٹ بنائے بغیر خرچ کرتے رہنے سے بھی مسائل پیدا ہوجاتے ہیں۔کتنے ہی غریب اور کم آمدنی والے والدین کے بچے بھی اعلیٰ مناصب تک پہنچ جاتے ہیں۔یہ تبھی ممکن ہوتا ہے جب والدین عزم و ہمت اور منصوبہ بندی کے ساتھ تعلیم کا سلسلہ جاری رکھیں۔قوم کے سرمایہ داروںاورسماجی کارکنوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ غریب اور ہونہار بچوں کی سرپرستی اور رہنمائی کریں۔بچوں کی تعلیم پر حکومت کی تعلیمی پالیسیاں بھی اثرا نداز ہوتی ہیں۔ ایک وقت تھا کہ استاد بچے کو غلطی کرنے پر سزا دے سکتا تھا، اب سزادینے پر پابندی ہے۔ ایک وقت تھا کہ بچے کو فیل ہونے کا ڈرستاتاتھا، اب آٹھویں درجہ تک فیل ہونے کا کوئی خطرہ نہیں۔ ظاہر ہے نہ استاد کا ڈر نہ فیل ہونے کا ڈر تو پھربچہ کیوں پڑھے، اس کا نتیجہ ہے کہ سرکاری تعلیم گاہوں میں زیر تعلیم طلبا آٹھویں جماعت پاس کرنے کے باوجود صحیح طریقہ سے اپنا نام بھی نہیں لکھ سکتے۔اس لیے میری گزارش ہر اس شخص سے ہے جو ملک و ملت کی ترقی اور عروج کا خواہش مند ہے کہ وہ بچے کی تعلیم پر اثرانداز ہونے والے تمام عوامل پر نظر رکھے تاکہ ہر بچہ ملت کے مقدر کا ستارہ بن سکے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS