تعلیمی نظام: چنوتی آسان نہیں

0

خاورحسن

علم حاصل کرنا اور علم کی ترسیل کا وسیلہ بننا کبھی بھی زیادہ آسان نہیں رہا مگر ترقی انہوں نے کی جنہوں نے علم کی اہمیت سمجھی۔ وہی ممالک ترقی یافتہ، خوش حال، اقتصادی اور دفاعی طور پر مستحکم بنے جن کی حکومتوں نے بہتر تعلیمی نظام بنانے پر توجہ دی۔ ماں کی گود سے قبر تک علم حاصل کرنے کی تلقین مسلمانوں نے سمجھی تھی تبھی 8 ویں سے 15 ویں صدی تک علم کے مختلف میدانوں میں وہ چھائے رہے۔ ایسا نہیں ہے کہ حصول علم کے لیے انہیں سازگار حالات ملے تھے، پریشانیاں دشواریاں نہیں تھیں۔ پریشانیاں بھی تھیں، دشواریاں بھی تھیں مگر وہ حصول علم کی چاہت کے مقابلے کم طاقتور تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ پہاڑ سے نکلا ہوا پانی جیسے پتھروں کو بہاتے ہوئے، راستہ بناتے ہوئے آگے بڑھتا رہتا ہے، وہ بھی مسئلوں کو دھکیلتے ہوئے علم کے میدان میں آگے بڑھتے گئے۔ اس دور کے حالات کا موازنہ اگر آج کے دور سے کیا جائے تو حصول علم میں بڑی پریشانیاں نظر نہیں آئیں گی۔ اس دور میں بھی ترقی یافتہ ملکوں کے تعلیمی نظام کا موازنہ اگر پسماندہ ملکوں کے تعلیمی نظام سے کیا جائے، ایک پرامن ملک کے تعلیمی نظام کا موازنہ اگر مسئلوں سے گھرے ملک کے تعلیمی نظام سے کیا جائے یا ایک خوش حال ملک کے ہی شہروں کے تعلیمی نظام کا موازنہ اس کے گاوؤں کے تعلیمی نظام سے کیا جائے اور پھر طلبا و طالبات کی کامیابیوں کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات ناقابل فہم نہیں رہ جاتی کہ علم کے حصول کی چاہت اگر شدید ہو تو راستے بنتے چلے جاتے ہیں، حالات ناکام بنانے کی وجہ نہیں بنتے۔ اقوام متحدہ ترقیاتی پروگرام کی رپورٹ کے مطابق، 2014 میں فلسطین کے 96.3 فیصد لوگ خواندہ تھے۔ فلسطینیوں کی یہ شاندار کامیابی اس کے باوجود ہے کہ ترقی یافتہ ملکوں کے اتنی رقم فلسطین میں طلبا و طالبات پر خرچ نہیں کی جاتی، اس کے پاس خرچ کرنے کے لیے اتنی رقم ہے ہی نہیں۔
امریکہ میں تعلیم پر ایک ٹریلین ڈالر سے زیادہ خرچ کیا جاتا ہے۔ 2016-17 میں امریکہ کا قومی تعلیمی بجٹ 1.3 ٹریلین یعنی 13 کھرب ڈالر تھا۔ اس رقم میں وفاقی حکومت کا تعاون 200 ارب ڈالر کا ہی تھا۔ بقیہ ساری رقم ریاستی اور مقامی حکومتوں نے یکجا کی۔ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ امریکہ میں مرکز کے لیے تعلیمی بجٹ زیادہ مشکل پیدا نہیں کرتا، ریاستی اور مقامی حکومتیں تعلیم پر زیادہ خرچ کرتی ہیں۔ وہ جانتی ہیں کہ تعلیم پر خرچ دراصل مستقبل کو سنوارنے، بہتر بنانے کے لیے سرمایہ کاری ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ اگر سبھی سہولتوں کے باوجود امریکہ میں طلبا و طالبات کو تعلیمی قرض لینے کی ضرورت پڑتی ہے تو یہ دیا جاتا ہے۔ 2018 تک امریکہ میں تعلیمی قرض 1.5 ٹریلین ڈالر یعنی 15 کھرب ڈالر سے زیادہ ہو چکا تھا۔ امریکہ تعلیم پر اتنا زیادہ نہیں خرچ کرتا تو وہ سپر پاور نہیں بن پاتا۔
دنیا کے 15 ہی ملکوں کی جی ڈی پی امریکہ کے تعلیمی بجٹ سے زیادہ ہے مگر تعلیمی میدان میں ہندوستان کی ترقی نے یہ ثابت کیا ہے کہ تعلیم پر خرچ کرنے کے لیے رقم اگر زیادہ نہ ہو مگر حکومت کی منشا تعلیمی نظام کو بہتر سے بہتر بنانے کی ہو، طلبا و طالبات میں اگر آگے بڑھنے کی جستجو ہو تو مثبت نتائج ہی سامنے آتے ہیں۔ چین کے بعد ہندوستان میں دوسرا بڑا تعلیمی نظام ہے۔ پہلے کے مقابلے سہولتیں بڑھی ہیں۔ جیسے جیسے ملک اقتصادی طور پر مستحکم ہوگا، تعلیم پر خرچ بھی بڑھے گا اور سہولتیں بھی بڑھ جائیں گی لیکن ابھی بھی اتنی سہولتیں اس ملک میں ہیں کہ حصول علم کی شدید چاہت رکھنے والے طلبا و طالبات دنیا کے کسی بھی ملک کے طلبا و طالبات سے پیچھے نہیں رہ سکتے۔ اپنی ناکامیوں کی تلاش برعکس حالات میں کرنے والے طلبا اگر اپنی خامیوں کو دور کرنا چاہیں، اگر ہر حال میں کامیابی کے حصول کی جستجو رکھیں تو وہ اے پی جے عبدالکلام کی زندگی سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ ’میزائل مین‘ کلام کو کورونا کے دور کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا مگر ان کی زندگی میں مفلسی تھی۔ کورونا کو ختم کے لیے ممکن ہے، ایک ویکسین ہی کافی ہو مگر مفلسی کے علاج کے لیے کوئی ویکسین آج تک نہیں بنائی جا سکی ہے اور شاید آئندہ بھی نہ بن پائے، کیونکہ اسے ختم کرنے کی دوا تعلیم اس زمین پر شروع سے ہی موجود ہے۔ تعلیم کو اگر کوئی مذہبی کتاب کے پڑھنے تک محدود کر دیتا ہے اور مالک حقیقی کو سمجھنے کے لیے اس کی کائنات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا تو بات الگ ہے۔ بل گیٹس کا کہنا ہے، ’اگر آپ غریب پیدا ہوئے ہیں تو یہ آپ کا قصور نہیں ہے مگر آپ اگر غریب مرتے ہیں تو یہ آپ کا قصور ہے۔‘اس قول کو سمجھنے کے لیے بھی علم چاہیے۔ وطن عزیز ہندوستان میں یوں ہی نہیں کہا جاتا کہ اگر گرو اور گووند دونوں کھڑے ہوں تو پہلے گرو سے آشیرواد لینا چاہیے۔
یہ سبھی باتیں اپنی جگہ ہیں لیکن سچ یہ بھی ہے کہ کورونا کے آنے سے حالات اچانک تبدیل ہوئے، چنانچہ پہلے جیسا تعلیمی نظام بنانے کے لیے بڑی محنت کرنی پڑے گی۔ یہ محنت حکومتوں کو کرنی پڑے گی، اسکول انتظامیہ، ٹیچروں، والدین اور خود طلبا و طالبات کو بھی کرنی پڑے گی۔ طلبا و طالبات کو حصول علم کی شدید چاہت کے اظہار سے یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ ان کا ایک سال ضائع نہیں ہوا۔ اس ایک سال میں انہیں پڑھنے، کتابوں سے دوستی کرنے، اساتذہ کی افادیت، اساتذہ کی اہمیت سمجھنے کا زیادہ موقع ملا۔ اسکول آنے جانے میں ان کا جو وقت جاتا تھا، اس اضافی وقت کو سونے میں انہوں نے نہیں گنوایا، اس کا استعمال انہوں نے پچھلی اور اگلی جماعتوں کی کتابوں کے پڑھنے کے لیے کیا۔ سب مل کر تعلیمی نظام کو پہلے جیسا بنانے کی جدوجہد کریں گے تبھی یہ پہلے جیسا بنے گا۔ یہ بات ذہن نشیں رکھنی ہوگی کہ ویکسین آجانے سے کورونا وائرس پر کنٹرول بڑی حد تک آسان ہوا ہے مگر اس سے پیدا اثرات سے نمٹنے میں وقت لگے گا۔ علم کی ترسیل میں آنے والی نئی چنوتیوں کے اشارے دنیا بھر کے ماہرین تعلیم دینے لگے ہیں۔ ’ گلوبل پارٹنرشپ فور ایجوکیشن‘ کی چیف ایگزی کیوٹیو، اِلائس البرائٹ اور یونیسکو کی اسسٹنٹ ڈائرکٹر جنرل برائے تعلیم ، اِسٹے فینیا گیانینی نے 12 فروری، 2021 کو ’الجزیرہ‘کے لیے لکھے مضمون میں اسی طرف اشارے دیے ہیں۔ ان کا یہ کہنا درست ہے کہ یہ وقت ترجیحی بنیاد پر تعلیمی نظام کی بحالی کا وقت ہے، کیونکہ کورونا کی وجہ سے پیدا حالات کے اثرات دنیا بھر میں ایک ارب، 60 کروڑ طلبا وطالبات پر پڑے ہیں۔
کورونا کے دور میں فاصلاتی تعلیم نے علم کی ترسیل میں اہم کردار ادا کیا مگر اس سے فائدہ انہیں طلبا و طالبات کو ہوا جن کے والدین ٹیلی ویژن، لیپ ٹاپ یا کم سے کم اینڈرائیڈ موبائل خریدنے کی پوزیشن میں تھے۔ لاک ڈاؤن کی مدت میں یہ احساس ہوا کہ جدید فاصلاتی تعلیم غریبوں کے بچوں کے لیے نہیں۔ اگر اس طرح کے حالات پیدا ہو جائیں تو آس پڑوس کے پڑھے لکھے لوگوں کی مدد سے ہی طلبا و طالبات حصول علم کا سلسلہ جاری رکھ سکتے ہیں۔ اگر کسی سماج میں کوئی فرد پڑھا لکھا نہ ہو، اگر ہو اور اس کا علم اسی تک محدود ہو تو پھر چاہتیں رکھنے کے باوجود غریبوں کے بچے پڑھ نہیں سکتے۔ اِلائس البرائٹ اور اِسٹے فینیا گیانینی نے لکھا ہے کہ فاصلاتی تعلیم سے دنیا کے 50 کروڑ بچے مستفید نہیں ہو سکے۔ ذیلی صحارائی افریقہ کے علاقے میں ہر 5 میں سے 4 بچوں کی رسائی انٹرنیٹ تک نہیں تھی۔ ان حالات کی وجہ سے یونیسکو نے یہ اندازہ لگایا ہے کہ دو کروڑ، 40 لاکھ بچے دوبارہ کلاس میں داخل نہیں ہو پائیں گے۔ اِلائس البرائٹ اور اِسٹے فینیا گیانینی نے لکھا ہے کہ کم اور متوسط آمدنی والے ملکوں کے تعلیمی نظام پر فوراً خرچ نہ کیا گیا تو 2030 تک 82 کروڑ، 50 لاکھ طلبا و طالبات کامیابی کے ساتھ جاب مارکیٹ میں داخل نہیں ہو پائیں گے۔ حالات کو دیکھتے ہوئے یہی لگتا ہے کہ آنے والے وقت میں جہالت کی تاریکی مزید گہری ہو جائے گی اور اس وقت ان لوگوں کی اہمیت بڑھ جائے گی جن کے پاس علم کی روشنی ہوگی۔ یہی لوگ دنیا کی دِشا اور دَشا بدلیں گے اور ظاہرسی بات ہے کہ ایسا کرتے ہوئے وہ اپنے اور اپنے لوگوں کے وقتی اور دیر پا مفاد کو نظر انداز نہیں کریں گے۔ مستقبل کی دنیا کا اگر اندازہ کرنا ہے تو یہ سمجھنا ہوگا کہ کس خطے کے کون لوگ کھانے پینے کی طرح ہی علم کو ضروری مانتے ہیں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS