معیشت کی تباہی میں روزگار پر شب خون

0

محمد حنیف خان

ہندوستانی پارلیمنٹ کو ’’جمہوریت کامندر‘‘ کا درجہ حاصل ہے۔جہاں ہر ایک کے حقوق کا تحفظ کیا جاتا ہے، یہاں ایسے بل منظور کیے جاتے ہیں اور قوانین وضع کیے جاتے ہیں جن سے یکسانیت کو فروغ حاصل ہو،کسی کو اس بات کا احساس نہ ہو کہ وہ تنہا ہے۔پارلیمنٹ کو جمہوریت کا مندر اسی لیے کہا جاتا ہے کیونکہ یہاں کسی طرح کا کوئی امتیاز اور بھید بھاؤ روا نہیں رکھا جاتا لیکن شاید یہ گئے زمانے کی بات ہو گئی۔اب اس مندر سے ہی ایسے فیصلے ہونے لگے ہیں جس نے طاقتور کو مزید طاقتور اور کمزور کو مزید کمزور بنا دیا ہے۔جو پارٹی اقتدار میں ہوتی ہے وہ عوامی رائے کے برخلاف اپنے ایجنڈوں کے مطابق فیصلے کرنے میں اپنی پوری طاقت کا استعمال کرتی ہے،پارلیمنٹ میں اعدادی طاقت کا مظاہرہ کرکے عوامی مفاد کے بجائے اپنے طے شدہ ایجنڈوں کے مطابق فیصلے وہ اپنا حق سمجھتی ہے۔حکمراں پارٹی کے یہ فیصلے داخلی اور خارجی ہر معاملے میں یکساں نظر آتے ہیں،کشمیر سے لے کر آسام اور ناگالینڈ تک اس کے اس طرح کے فیصلوں میں اس کی جانبداری پہلی نظر میں دکھائی دے جا تی ہے۔
کچھ پالیساں مالیاتی اور کچھ غیر مالیاتی ہوتی ہیں، دونوں کے اپنے اپنے اثرات ہوتے ہیں البتہ مالیاتی پالیسیاں پورے ملک کے عوام پر محیط ہوتی ہیں،اس لیے جب غیرمالیاتی پالیسیوں سے متعلق فیصلے ہوتے ہیں تو صرف وہی طبقے سڑک پر نظر آتے ہیں یا اپنا احتجاج درج کراتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں جو اس سے متاثر ہورہے ہوتے ہیں،غیر متاثر طبقے یا تو بغلیں بجا رہے ہوتے ہیں یا اس سے لا تعلق ہوتے ہیں لیکن مالیاتی پالیسیوں میں ایسا نہیں ہوتا ہے، اس میں متاثرین کی تعداد زیادہ ہوتی ہے اس لیے احتجاج بھی بہت پر شور ہوتا ہے۔اس وقت یہ شور تیز ہے۔
عالمی وبا کورونا وائرس نے پوری دنیا کی معیشت کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔انٹر نیشنل لیبر آرگنائزیشن(آئی ایل او)اور ایشین ڈیولپمنٹ بینک کی ایک مشترکہ رپورٹ کے مطابق کووڈ 19کی وجہ سے ہندوستان میں 41لاکھ نوجوان بے روزگار ہوچکے ہیں۔یہ وہ تخمینی اعداد و شمار ہیں جو حقیقت سے بہت دور ہیں،جب سرکار کے پاس وسائل ہیں اس کے باوجود لاک ڈاؤن میں مرنے والے مزدوروں کی تعداد کا اس کو پتہ نہیں،کتنے مزدوروں نے ہجرت کی اس کے اعداد و شمار اس کے پاس نہیں ہیں تو پھر غیر سرکاری ایجنسیاں جو اعداد و شمار دیں گی وہ کتنے درست ہوںگے اس پر کسی طرح کی گفتگو لایعنی ہوگی۔حقیقت یہ ہے کہ کووڈ19اور لاک ڈاؤن نے ایک بھی کنبہ ایسا نہیں چھوڑا ہے جو بیروزگاری سے بچا ہو۔ایسے میں سرکار کا کام یہ تھا کہ وہ روزگار کے مواقع پیدا کرتی اور روزگار گنوانے والے ہاتھوں کو روزگار دیتی لیکن اس کے برعکس ہورہا ہے۔حکومت روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے بجائے روزگار ختم کرنے کے مواقع کا انتظام کرر ہی ہے جبکہ حکمراں پارٹی روزگار دینے کے وعدے کے ساتھ ہی اقتدار میں آئی تھی۔
کورونا وائرس نے نہ صرف پرائیوٹ حلقوں سے روزگار/ملازمت کو ختم کیا ہے بلکہ اس نے سرکاری حلقوں سے وابستہ ملازمین کی ملازمتوں پر اپنا سیاہ سایہ ڈال دیا ہے۔جتنی ملازمتیں گئی ہیں، ان میں اکثریت کا تعلق پرائیویٹ شعبے سے ہے، سرکار نے بھی بعض شعبوں میں چھٹنی کی ہے۔لیکن جمہوریت کے مندر سے جو حالیہ فیصلہ ہوا ہے، اس نے ان سب کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔اصلاحات کے نام پر ایسے بل منظور کیے گئے ہیں جو مالکان کو بے لگام کردیں گے۔ملازمین کو مالکان کی شرطوں پر کام کرنا ہوگا اور اگر ان کے حکم سے رو گردانی کی یا اپنے حقوق کی بات کہی تو ان کو فوراً نکال کر وہ باہر کردیں گے۔پہلے ایسے معاملات میں ملازمین کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا کر اپنے حقوق حاصل کر لیتے تھے مگر اب وہ یہ بھی نہیں کر سکیں گے کیونکہ حکومت نے پارلیمنٹ سے ایسا بل پاس کردیا ہے جس کی رو سے 300 ملازمین والی کمپنیوں کے مالکان حکومت سے بغیر اجازت لیے کسی کو بھی باہر کا راستہ دکھا سکیں گے۔پارلیمنٹ نے بارانی اجلاس میں مزدوروں سے متعلق تین بلوں کو منظوری دے دی ہے۔ Code on Occupational Safety,Health and working Conditions  اورIndustrial Relations Code and Social Cecurity Code  پاس کر دیے گئے ہیں جو صدر جمہوریہ کے دستخط کے بعد قانون کی شکل اختیار کرلیں گے۔مرکزی وزیر محنت کے مطابق یہ بل اس لیے منظور کیے گئے ہیں تاکہ کاروباری حالات کے مطابق فضا کو سازگار کیا جاسکے۔ان کا کہنا ہے کہ جب مالکان کو ملازمت سے نکالنے کی آسانی ہوگی تو روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ان کی یہ دلیل کتنی مناسب ہے سمجھنا کوئی مشکل نہیں ہے۔
ایسے دور میں جب عوام کو روزگار کی ضرورت تھی تاکہ گزشتہ چھ ماہ سے بے روزگاری کی مار جھیل رہے عوام کو کچھ راحت مل سکے،حکومت کسی کو ملازمت سے نہ نکالنے کے بل کو منظور کرنے کے بجائے ایسے بل منظور کر رہی ہے جن کی رو سے مالکان جب چاہیں ان کو باہر کا راستہ دکھا دیں،اس کے بعد حکومت دعویٰ یہ کرتی ہے کہ وہ مفاد عامہ میں کام کرتی ہے۔اصلاحات کے نام پر منظور بل سے اندازہ ہوتا ہے کہ سرکار اس طرح کے فیصلے سرمایہ کاروں کے دباؤ میں کر رہی ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ اول الذکر سے متعلق بل پیش کرکے سرمایہ کاروں کو مجبور کرتی کہ وہ ملازمین کو باہر کا راستہ نہیں دکھا سکتے ہیں۔آخر سرکار مٹھی بھر سرمایہ کاروںپر اتنا زیادہ کیوں مہربان ہے؟اس کو غالب عوام کی فکر کیوں نہیں ہے؟ اس بارے میں زیادہ غور کی ضرورت اس لیے نہیں ہے کیونکہ ابھی کسانوں سے متعلق جو بل پاس ہوا، اس میں بھی اس نے کسانوں کے بجائے سرمایہ کاروں کو ہی فوقیت دی ہے اسی لیے کسان سڑک پر ہیں، اس کی ترجیحات میں کسان، مزدور اور ملازمین کے بجائے سرمایہ کار ہیں۔
اس سے قبل وزارت آیوش نے 31؍جولائی 2020 کو ایک خط جاری کرکے آیوروید،ہومیوپیتھی اور یونانی سے وابستہ کل536 ملازمین کی ملازمت کو 31؍اکتوبر 2020 کو ختم کرنے کا اعلان کردیا۔ملازمین وزار ت صحت و کنبہ بہبود اور وزارت آیوش کے ’NPCDCS میں آیوش کی شمولیت‘ نامی مشترکہ پروجیکٹ سے وابستہ ہیں۔اس پروجیکٹ کی شروعات 2015-16 میں ملک کے چھ ضلعوں میں غیرمتعدی امراض (NCDs)یعنی ذیابیطس،ہائی بلڈپریشر،ہائپر لپیڈیمیا(کولیسٹرال کی بیماری)،لقوہ و فالج، رہیومیٹک ہارٹ ڈزیز(دل کے والو کی بیماری)، سرطان، دمہ، COPD اورجوڑوں کی بیماریو ں کو ایلوپیتھ ادویات کے ساتھ آیوش طریقہ علاج( آیوروید،ہومیوپیتھی، یونانی اور یوگا)کا استعمال کرکے اسے کنٹرول کرنے اور مزید پھیلنے سے روکنے کے مقاصد سے ہوئی تھی۔اس پروجیکٹ کو مرکزی تحقیقی کونسل برائے آیورویدک سائنسز (CCRAS) کے ذریعہ گیا(بہار)،بھیل واڑہ (راجستھان)،سریندر نگر(گجرات)،مرکزی تحقیقی کونسل برائے ہومیوپیتھی(CCRH) کے ذریعہ کرشنا (آندھرپردیش)،دارجلنگ(مغربی بنگال) اور مرکزی تحقیقی کونسل برائے طب یونانی(CCRUM) کے ذریعہ لکھیم پورکھیری (اترپردیش) میں چلایا جارہا ہے۔جہاں ملازمین کی تعداد بالترتیب 126، 162، 77، 54، 36، 81 نفوس پر مشتمل ہے،جن میں آیوروید،ہومیوپیتھی اور یونانی سے متعلق معالجین،یوگا انسٹرکٹر،فارمیسی معاون،ملٹی ٹاسک اسٹاف،ڈیٹا انٹری آپریٹر شامل ہیں۔مذکورہ پروجیکٹ کے تحت متعلقہ ضلع کے گاؤں اور قصبوںکے ہر کنبہ صحت مرکز(CHC) اور ضلع اسپتالوں میں ایک ’ لائف اسٹائل ڈزیز کلینک(آیوش ) ‘کے نام سے قائم کی گئی ہے جس سے وابستہ ملازمین اپنا فریضہ ادا کر رہے ہیں مگر ان کو اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔
ایک طرف سرکار قانون بنا کر پرائیویٹ شعبے کے مالکان کے ہاتھ میں ملازمین کی قسمت دے رہی ہے اور ان کو اس بات کا اجازت نامہ سونپ رہی ہے کہ جب چاہیں ان کو باہر کا راستہ دکھادیں اور دوسری طرف وہ خود اپنے ملازمین کی ملازمتیں ختم کر کے ان کی زندگی کو اندھیرے کی طرف دھکیل رہی ہے۔ملازمتوں پر اس کا یہ شب خون نہ صرف حکومت کے لیے بھاری ثابت ہوگا بلکہ اس سے جہاں عوام دشواریوں کا شکار ہوں گے، وہیں ملک کی معیشت بھی تباہی کی طرف جا ئے گی۔اس لیے حکومت کو روزگار ختم کرنے کے مواقع پیدا کرنے کے بجائے روزگار پیدا کرنے کے لیے کام کرنا چاہیے جو ملک اور اس کے عوام کی ضرورت بھی ہے اور معیشت کے لیے ضروری بھی ہے۔
[email protected]
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS