انسانی کرتوت کا نتیجہ ہے فضائی کثافت

0

محمد حنیف خان

انسانی ترقی نے انسانی زندگی کے ساتھ دیگر جانداروں کے لیے بھی مصیبتیں پیدا کردی ہیں۔کون چاہتا ہے کہ دنیا ترقی نہ کرے مگر ترقی معکوس کے لیے ایک ترقی یافتہ سماج میں جگہ نہیں ہونی چاہیے مگر افسوس کی بات ہے کہ انسان اسی ترقی معکوس کا شکار ہو کر جہاں سے چلا تھا، اس سے بھی پیچھے چلا گیا۔آج انسان ترقی کے نام پر خودبیماریاں پیدا کر رہا ہے جس سے انسانی زندگی تو دشواریوں کا شکار ہے ہی، دوسری زندگیاں بھی تلف ہو رہی ہیں جن کا درد یہ انسان نہیں محسوس کر رہا ہے۔
قرآن پاک نے انسانی زندگی کے تحفظ اور ضیاع کے تعلق سے ایک بنیادی اصول بتایا ہے۔اگر اس اصول پر عمل کر لیا جاتا تو بہت سے مسائل خود بخود حل ہوجاتے، اس میں کسی نظام اور اس پر محنت کی ضرورت ہی نہیں پڑتی مگر آج اصول و ضوابط اور سزا و قانون کے باوجود مسائل حل ہونے کے بجائے بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔قرآن کریم کا ایک زریں اصول ہے ’’جس شخص نے کسی کو قتل کیا سمجھو اس نے پوری انسانیت کو قتل کردیا اور جس شخص نے کسی کی جان بچالی تو گو یا اس نے پوری انسانیت کی جان بچا لی‘‘،اس اصول کو محدود رکھ کر سوچنے کے بجائے اس کو اگر وسیع تناظر میں دیکھا جائے اور قتل کو محض دشمنی میں چاقو اور گولی سے قتل تک محدود نہ کر کے جانوں کے اتلاف پر محیط کیا جا ئے تو ہمارے عمومی مسائل حل ہوسکتے ہیں۔مثلاً آج ہر طرح کی آلودگی ایک اہم مسئلہ ہے۔اس آلودگی سے انسانوںکے ساتھ ہی جانور بھی مر رہے ہیں مگر اس جانب توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔آلودگی کئی طرح کی ہوتی ہے جن میں آبی آلودگی، ماحولیاتی آلودگی،روشنی کی آلودگی،صوتی آلودگی اور فضائی کثافت جسے فضائی آلودگی بھی کہہ سکتے ہیں، شامل ہیں۔ ان میں آخری الذکر سب سے اہم اور خطرناک ہے کیوں کہ اس کی زد میں انسان کی سانس رہتی ہے جس پر انسانی زندگی کا دارو مدار ہے۔اس کی سب سے اہم وجہ صنعتوں اور گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں ہے۔جس کی وجہ سے سانس کی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔روز بروز صنعتوں اور گاڑیوں میں اضافہ نے فضائی کثافت کو مزید گہرا کردیا ہے۔فضائی کثافت پھیپھڑے اور آنکھ کی بیماریوں کا اہم سبب ہے۔
موسم گرما میں فضائی کثافت پر کبھی توجہ نہیں دی جاتی، اس وقت موسم کی سختی اور سورج کی کرنوں میں تپش پر ہی ساری توجہ مرکوز رکھی جا تی ہے مگر جوں ہی موسم سرما شروع ہوتا ہے،کہرے کی چادر دبیز ہوتی ہے اور فضائی کثافت کی وجہ سے دکھائی دینا کم ہوجاتا ہے تو اس پر بات شروع ہوتی ہے، مگر کیا اس سے مسائل حل ہو جاتے ہیں یا ہو سکتے ہیں؟ یہ اہم سوال ہے۔حال ہی میں ’’ایئر کوالٹی اینڈ پالیوشن سٹی رینکنگ ‘‘جاری ہوئی ہے۔دنیا کے دس خراب ہوا/فضائی کثافت والے شہروں میں ہندوستان کے دو شہر شامل ہیں جن میں دہلی تو پوری دنیا میں سرفہرست ہے جبکہ ممبئی آٹھویں مقام پر ہے۔ ہندوستان میں فضائی کثافت کا معاملہ صرف شہروں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اس میں دیہی علاقے بھی شامل ہیں۔شہروں میں صنعتوں /کارخانوں اور گاڑیوں کی وجہ سے فضائی کثافت ہوتی ہے، وہیں دیہی علاقوں میں اینٹ بھٹوں اور دیگر ایسی ہی صنعتوں کے ساتھ فصلوں کی باقیات کو جلانے کی وجہ سے فضائی کثافت اپنی دبیز چادر تان لیتی ہے۔
سینسس اینڈ اکنامک انفارمیشن سینٹر کے مطابق 2019 میں 303143.000گاڑیاں رجسٹرڈ ہوئیں جو 1951سے سالانہ سب سے زیادہ گاڑیاں سڑک پر آئیں جبکہ 1951میں سب سے کم گاڑیاں رجسٹرڈ ہوئی تھیں جن کی تعداد 306.000تھی۔2017میں 253311.000گاڑیاں جبکہ 2016 میں 230031.000رجسٹرڈ ہوئیں جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سال در سال گاڑیوں کی تعداد میں اضافہ ہی ہورہاہے۔
ٹرانسپورٹ ریسرچ ونگ منسٹری آف سرفیس ٹرانسپورٹ نے اس سے متعلق سال در سال تفصیلات شائع کی ہیں جن میں دو پہیہ گاڑیوںسے لے کر چار پہیہ اور بھاری گاڑیوں کی الگ الگ ریاستوں کے مطابق تفصیلات دی گئی ہیں جس کے جائزے سے اندازہ ہوتا ہے کہ گاڑیوں میں جلنے والے ایندھن (ڈیژل/ پٹرول) کی وجہ سے سب سے زیادہ ماحولیاتی آلودگی پیدا ہوتی ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق محض دہلی میں 2004میں 13.37لاکھ چارپہیہ،27.8لاکھ دو پہیہ، 80ہزار سے زائد آٹو رکشہ،18.4ہزار ٹیکسی،26.9ہزار بس، 1.55 لاکھ بھاری گاڑیاںتھیں۔دہلی میں ممبئی،کولکاتا اور چنئی سے بھی زیادہ گاڑیاں ہیں جو سڑکوں پر دوڑتی ہیں۔دیہاتوں میں گاڑیوں کی تو کمی ہے لیکن وہاں ان کی فٹنس کا معاملہ بہت گہرا ہوجاتا ہے۔پرانی گاڑیوں، پرانی ٹیکنالوجی، خراب سڑکوںاور ٹریفک سسٹم نہ ہونے کی وجہ سے فضائی کثافت میں اضافہ ہوتا ہے۔ 
فضائی کثافت کے حوالے سے اگر اصول و ضوابط کی بات کی جائے تو جون 1972میں اسٹاک ہوم میں ماحولیات سے متعلق اقوام متحدہ کی ہوئی کانفرنس میں کچھ اہم فیصلے ہوئے تھے جن کے مطابق دنیا کو  ترقی کے ساتھ ساتھ فضائی کثافت سے بھی محفوظ کرنا تھا، اس کانفرنس میں ہندوستان بھی شامل ہوا تھا۔دفعہ 253کے تحت ماحولیات قانون 1981 بنایا گیا تھا۔ اس کے علاوہ ’’نیشنل کلین ایئر پروگرام‘‘ (این سی اے پی) بھی ہے۔ ملک گیر سطح پر شروع اس پروگرام کا مقصد بڑھتی فضائی کثافت پر قابو پانا ہے۔یہ ایک ایسا پروگرام ہے جسے حقیقی طور پر ایک جامع پروگرام کہا جا سکتا ہے کیونکہ اس پروگرام کو شروع تو وزارت ماحولیات نے کیا ہے لیکن اس میں وزارت ٹرانسپورٹ و قومی شاہراہ، وزارت پٹرولیم،وزرات صنعت و حرفت،وزرات زراعت اور وزارت صحت کے ساتھ ہی نیتی آیوگ، مرکزی ماحولیات کنٹرول بورڈ اور سول سوسائٹیز وغیرہ سب شامل ہیں۔یہ سب ایک ساتھ مل کر پانچ برس کے لیے خاکہ تیار کرتے ہیں۔ ان سب کا ارتکاز اس بات پر ہوتا ہے کہ Non atteainment Citiesمیں فضائی کثافت پر قابو پایا جائے۔Non atteainment Citiesان شہروں کو کہا جاتا ہے جہاں پانچ برس تک مسلسل PM10یا نائٹروجن ڈائی آکسائڈ کے لیے ملک گیر سطح پر فضا کے طے شدہ معیار کو پورا کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔
اس طرح اگر دیکھا جائے تواصول و ضوابط اور خاکہ سازی کے لیے اداروں کی کمی نہیں ہے،اس کے باوجود روز بروز فضائی کثافت میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے جس کی سب سے بڑی وجہ انفرادی کوششوں اور انفرادی فرائض سے پہلو تہی ہے۔اگر ہر شخص یہ طے کرلے کہ وہ فضائی کثافت کا سبب نہیں بنے گاتو یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے لیکن اول انفرادی ذمہ داریوں کی کمی اور دوسرے وہ ادارے جو ماحولیات پر نظر رکھتے ہیں یا جن کی ذمہ داری ہے کہ وہ ماحولیات کو محفوظ رکھیں وہ خود اس کو تباہ کرنے پر مصر ہیں۔اگر ایسا نہ ہوتا تودرختوں کی ناجائز کٹائی نہیں ہوتی،اصول و ضوابط کو بالائے طاق رکھنے والی صنعتیں تباہی و بربادی کا سبب نہیں ہوتیں،اسی طرح سے دیہی علاقوں میں زہر اگلتے اینٹ بھٹے اس مقدار میں نہیں ہوتے۔
ذمہ دار اداروں کے ساتھ ہی ہر شخص کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اگر وہ کسی کی جان بچاتا ہے تو پوری انسانیت کے ساتھ احسان کرتا ہے لیکن اگر وہ کسی بھی طور پر فضا کو تباہ و برباد کرکے جانوں کے اتلاف کا سبب بنتا ہے تو خواہ کتنا بھی نیک اور اچھا انسان ہو، اس کو انسانیت کا دشمن ہی گردانا جائے گا۔اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر شخص اپنی جگہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھے تبھی ہندوستان کو فضائی کثافت سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے ورنہ آج دو شہر فضائی کثافت کے معاملے میں سامنے آئے ہیں، کل پورا ہندوستان ہی ایسا ہوگا جہاں سانس لینا مشکل ہوگا، اس لیے آنے والی نسلوں کے لیے ہمیں اپنی ذمہ داریوںکو بہر صورت ادا کرنا ہوگا۔
[email protected]
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS