اومیکرون: ہلاکت خیزی سے بچنا ضروری

0

کورونا وائرس کے نئے ویرینٹ اومیکرون کے روزانہ کی بنیادپر بڑھ رہے معاملات نے ماہرین میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔پہلے یہ کہا جارہا تھاکہ یہ پرانے ڈیلٹا ویرینٹ سے کم خطرناک ہے لیکن برطانیہ میں کیے گئے تازہ مطالعہ کی رو سے بات سامنے آئی ہے کہ اومیکرون، ڈیلٹا ویرینٹ سے کہیں زیادہ موذی ہے اور اس کا انفیکشن بھی انتہائی تیزی سے پھیلتا ہے۔اس کے پھیلائوکی صورت میں دنیا بھر کے حالات بے قابو ہوجانے کا خطرہ ہے۔ ابھی تک کورونا وائرس کی وجہ سے بالواسطہ یا بلاواسطہ تقریباً1.5کروڑ افرا د لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ اومیکرون پر اگر قابو نہیں پایاگیا تو اموات کی نئی لہریں اٹھیں گی اور تعداد کا شمار بھی مشکل ہوجائے گا۔اگرچہ اومیکرون پر ابھی تک بڑے پیمانے کی تحقیقات نہیں ہوئی ہیں مگر ابتدائی تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ اس کے سپائیک پروٹین، جس کے ذریعے وائرس انسانی خلیات میں داخل ہوتا ہے، 32 مختلف شکلوں میں موجود ہیں۔اور اس کے پھیلائو کا خطرہ ڈیلٹا ویرینٹ کی نسبت 100 سے لے کر 500 فیصد تک زیادہ ہے۔ ماہرین صحت اور سائنس دانوں کو یہ ڈر بھی ہے کہ ویکسین سے حاصل ہونے والی قوت مدافعت اومیکرون ویرینٹ کو نہیں روک پائے گی۔ برطانیہ کے امپیریل کالج لندن کی جانب سے کی گئی تحقیقات کے مطابق ویکسین کی دونوں خوراکیں لینے والوں پر اومیکرون ویرینٹ کا خطرہ 20سے40فیصد تک رہتا ہے۔ جب کہ وہ افراد جو ویکسین کی دونوں خوراک کے بعد بوسٹر خوراک بھی لے چکے ہیں، ان کے اندر اومیکرون کے خلاف قوت مدافعت نسبتاً کچھ زیادہ رہتی ہے۔
ہندوستان میں اومیکرون کے پھیلائوکا خطرہ اس لیے بھی زیادہ ہے کہ یہاں بوسٹر ڈوز تو دور کی بات ہے، اب تک پوری آبادی کو ویکسین کی دونوںخوراکیں بھی نہیں مل پائی ہیں۔ جنوبی افریقہ اور دیگر متاثرہ ممالک سے پروازوں پر پابندی کے باوجود ہندوستان میں اومیکرو ن کے170معاملات سامنے آچکے ہیں۔ اس کے پھیلنے کی رفتار اگر یہی رہی تو خطرہ ہے کہ ہندوستان بہت جلد تیسری لہر کی لپیٹ میں آسکتا ہے۔ اب تک کے تجزیے، مطالعے اور سروے سے یہ بات سامنے آچکی ہے کہ کورونا کی دوسری لہر سے قبل بھی یہی صورتحال تھی کہ کورونا معاملات کی یومیہ تعداد تین ہندسوں میں تھی لیکن جیسے جیسے ریاستوں میں انتخابی سرگرمیاں بڑھتی گئیں اور سیاسی جماعتوں نے ریلی، جلسے جلوس کیے ویسے ویسے تعداد بھی بڑھتی گئی اورایک دن ایسا بھی آیا کہ پورا ہندوستان دوسری لہر کا شکار ہوگیا۔ موجودہ حالات بھی کچھ ایسے ہی ہیں۔ اگلے ایک دو مہینوں میں پانچ ریاستوں کے انتخابات ہونے ہیں اور سیاسی جماعتوں نے اس کیلئے ابھی سے جلسے جلوس شروع کردیے ہیں۔اومیکرون کی بڑھتی رفتار کی وجہ سے یہ جلسے جلوس اور بھیڑ بھاڑ ’ سپر اسپریڈر‘یعنی انفیکشن کے تباہ کن پھیلائو کا سبب بنیں گے اور کورونا کے خلاف جاری رہنے والی جنگ کو اس سے سنگین خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔
لیکن اس کے باوجود حکومت کی توجہ اس جانب اتنی نہیں ہے جتنی ہونی چاہیے۔ اب تک ملک کی صرف35فیصد آبادی کو ہی کورونا ویکسین کی دونوں خوراکیں ملی ہیں، 65فیصد آبادی کی اکثریت دونوں ہی خوراکوں سے محروم ہے خاص کر وہ ریاستیں جہاں انتخابات ہونے ہیں وہاں ویکسین کی رفتار اتنی نہیں ہے کہ اسے اطمینان بخش بھی کہاجاسکے۔ دوسری لہر کے بعد سے تو کورونا جانچ کی رفتار بھی انتہائی سست ہوگئی ہے، 135کروڑ کی آبادی والے اس ملک میںیومیہ فقط 10لاکھ ہی ٹسٹ ہورہے ہیں اور یہ پتہ ہی نہیں چل پارہاہے کہ ہماری کتنی آبادی اس سے متاثر ہے۔جب تک متاثرین کو غیر متاثرین سے الگ نہیں کیاجاتااور بھیڑ بھاڑ پر قابو پانے کی کوشش نہیں کی جاتی اس وقت تک انفیکشن کے پھیلائو کو روکنا ممکن نہیں ہوپائے گا۔ ماہرین کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے حکومت کو نہ صرف ویکسین دیے جانے کی رفتار میں اضافہ کرناچاہیے بلکہ بوسٹر ڈوز کیلئے بھی یکساں پالیسی وضع کرنے کی ضرورت ہے۔اب تک کئی ایک وائرولوجسٹ نے بھی یہی رائے دی ہے کہ جن لوگوں نے ویکسین کی دونوں خوراکیں لے لی ہیں ان کیلئے بوسٹر ڈوز کا انتظام کرتے ہوئے باقی آبادی میں جنگی پیمانہ پر ویکسی نیشن کیا جائے۔
کئی ایک مقامات سے یہ خبریں آئی ہیں کہ ڈاکٹروں نے اپنے طورپر بوسٹر ڈوز بھی دینا شروع کردیا ہے حالانکہ ضرورت تو اس بات کی تھی کہ حکومت اس معاملے میں باقاعدہ یکساںپالیسی وضع کرتی اور اسی کے مطابق لوگوں کو بوسٹرڈوزدیا جاتا ہے۔ لیکن اب تک بوسٹر ڈوز کے بارے میں کوئی سرکاری فیصلہ نہیں کیاگیا ہے جس کی وجہ سے بھی تشویش میں اضافہ ہورہاہے۔ اس کے ساتھ ہی بچوں کو بھی اس موذی وباسے محفوظ رکھنے کیلئے جلدا ز جلد ویکسین کا انتظام کیاجا نا ضروری ہے۔اومیکرون کی ہلاکت خیزی یہ تقاضا کررہی ہے کہ حکومت لوگوں کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑنابند کرے اور وائرس کے ارتقا کو روکنے کیلئے بھیڑ بھاڑ، جلسے جلوس اور سیاسی ریلیوں پر بھی پابندی لگائے۔ پہلے کی طرح اگر وبا کے پھیلنے کا انتظار کیا گیا تو کچھ عجب نہیں کہ تیسری لہر ہندوستان میں کشتوں کے پشتے لگادے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS