بڑھتی بھوک اور کم ہوتے کھیت

0

پنکج چترویدی

بھلے ہی تین زرعی قوانین واپس ہونے کے بعد کسان گھر لوٹ گیا ہو لیکن سنجیدگی سے غور کریں تو ہندوستان کی معاشی پالیسی کی بنیادی کھیتی-کسانی ہی خطرے میں ہے اور بحران اتنا شدید ہے کہ ملک کی بڑھتی آبادی کے لیے کہیں پیٹ بھرنا ایک نیا مسئلہ نہ بن جائے۔ آزادی کے بعد ملک اناج کے معاملے میں خود کفیل نہ ہونے کے مسئلے سے ایک بار دوچار ہو چکا ہے۔ آج جس طرح کھیتی کی زمین تیزی سے دیگر کاموں کے لیے استعمال کی جا رہی ہے، کسان کا دل کھیتی سے بیزار ہو رہا ہے، ہندوستان پر یہ خطرہ بڑھتا جا رہا ہے کہ کہیں فوڈ سیکورٹی پر خطرہ پیدا نہ ہو جائے۔ یہی نہیں، کھیتوں کے محدود ہونے کا اثر ہندوستان کے سماجی اور معاشی تانے بانے پر بھی پڑ رہا ہے۔ ہندوستان کی دیہی ترقی کی وزارت کے لینڈ ریسورسز ڈپارٹمنٹ اور اسرو کے نیشنل ریموٹ سینسنگ سینٹر کے ذریعے جاری ’ویسٹ لینڈ ایٹلس-2019‘ میں مندرج بنجر زمین کو کھیتی لائق بنانے کی سرکاری فخریہ کہانیوں کے درمیان یہ افسوسناک حقیقت بھی پوشیدہ ہے کہ ہمارے ملک میں کھیتی کے لیے زمین سال بہ سال کم ہو رہی ہے جبکہ آبادی بڑھنے سے خوراک کی مانگ میں اضافہ ہو رہا ہے اور اس سمت میں ملک کا دنیا کے دیگر ممالک پر انحصار بڑھتا جا رہا ہے۔ جاننا ضروری ہے کہ ہندوستان کے پاس دنیا کی کل زمین کا 2.4 فیصد ہے جبکہ عالمی آبادی کے 18 فیصد ہمارے باشندے ہیں۔ ہندوستان میں کھیتی کی زمین فی شخص اوسطاً 0.12 ہیکٹیئر رہ گئی ہے جبکہ دنیا میں یہ اعداد و شمار 0.28 ہیکٹیئر ہیں۔
حکومت بھی تسلیم کرتی ہے کہ پنجاب جیسی زرعی ریاست میں دیکھتے ہی دیکھتے 14 ہزار ہیکٹیئر یعنی کل زمین کے0.33 فیصد پر کھیتی بند ہو گئی۔ مغربی بنگال میں 62 ہزار ہیکٹیئر کھیت ویران ہو گئے تو کیرالہ میں 42 ہزار ہیکٹیئر سے کسانوں کا دل بیزار ہو گیا۔ ملک کی سب سے بڑے کھیتوں والی ریاست اترپردیش کے یہ اعداد و شمار ایٹم بم سے زیادہ خطرناک ہیں کہ ریاست میں ترقی کے نام پر ہر سال 48 ہزار ہیکٹیئر کھیتی کی زمین اجاڑی جا رہی ہے۔ مکان، کارخانوں، سڑکوں کے لیے جن زمینوںپر قبضہ کیا جا رہا ہے، وہ زیادہ تر اناج پیدا کرنے والی رہی ہیں۔ اس بات کو بھی نظرانداز کیا جا رہا ہے کہ کم ہوتے کھیت ایک مرتبہ تو معاوضہ ملنے سے فی شخص آمدنی کے اعداد و شمار بڑھا دیتے ہیں لیکن اس کے بعد بے روزگاروں کی بھیڑ میں بھی اضافہ کرتے ہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ منریگا میں کام بڑھنے سے کھیتوں میں کام کرنے والے مزدور نہیں مل رہے ہیں اور مزدور نہ ملنے سے پریشان کسان کھیت کو ترک کر رہے ہیں۔
نیشنل سیمپل سروے کے مطابق، ملک میں 14 کروڑ ہیکٹیئر کھیت ہیں۔ محکمے کی ’ہاؤس ہولڈ آنرشپ اینڈ آٹومیٹک ہولڈنگس اِن انڈیا‘ سے متعلق رپورٹ کا تجزیہ بہت خوفزدہ کرنے والا ہے۔ 1992 میں دیہی کنبوں کے پاس 11.7 کروڑ ہیکٹیئر اراضی تھی جو 2013 تک آتے آتے محض 9.2 کروڑ ہیکٹیئر رہ گئی۔ اگر یہی رفتار رہی تو 3 سال بعد یعنی 2023 تک کھیتی کی زمین 8 کروڑ ہیکٹیئر ہی رہ جائے گی۔
آخر کھیت کی زمین کون کھاجاتا ہے؟ اس کی بنیادی وجہ تو کھیتی کا غیرمنافع بخش کام ہونا، پیداوار کی معقول قیمت نہ ملنا، محنت کا تحفظ وغیرہ تو ہیں ہی، ترقی نے سب سے زیادہ کھیتوں کی ہریالی کا استحصال کیا ہے۔ پورے ملک میں اس وقت بن رہے یا مجوزہ 6 انڈسٹریل کاریڈور کے لیے 20.14 کروڑ ہیکٹیئر زمین کی بلی چڑھے گی۔ ظاہر ہے، اس میں کھیت بھی ہوں گے۔ ہمارے وقت نے خریف کی فصل والے کھیتوں کو شاہراہوں کی نذر ہوتے ہوئے ہر روز دیکھا ہے۔ سرکاری رپورٹ میں بھلے ہی بہت سے اعداد و شمار درج ہوں کہ کتنی ساری بنجر یا بیکار زمین کو کام کے لائق تبدیل کر دیا گیا ہے لیکن یہ تلخ حقیقت ہے کہ ان زمینوں کے کھیتوں میں اور کھیتوں کے کنکریٹ میں بدلنے کے اعداد و شمار مایوس کن ہیں۔ ذرا سوچئے، جو ملک 2031 تک 150 کروڑ کی آبادی پار کر جائے گا وہاں کی فوڈ سیکورٹی بغیر کھیتی کا اضافہ کیے کیسے ممکن ہوگی۔
کسانوں کے تئیں تشویش ظاہر کرنے کے لیے حکومت کی کوششیں زیادہ تر اس کی تشویشات میں اضافہ ہی کر رہی ہیں۔ بیج کو ہی لیں، گزشتہ پانچ سال کی صورت حال سامنے ہے کہ بی ٹی جیسے غیرملکی بیج مہنگے ہونے کے باوجود کسان کو خسارہ ہی دے رہے ہیں۔ ایسے بیجوں کی زیادہ پیداوار اور کیڑے نہ لگنے کے دعوے جھوٹے ثابت ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود سرکاری افسر غیرملکی جینیٹک بیجوں کے استعمال کے لیے کسانوں پر دباؤ بنا رہے ہیں۔ ہمارے یہاں انسانی وسائل بہت زیادہ ہیں، ایسے میں ہمیں مشینوں کی ضرورت نہیں ہے، اس حقیقت کو جانتے ہوئے بھی حکومت زرعی علاقوںمیں جدیدیت کے نام پر لوگوں کے روزگار کے مواقع کم کر رہی ہے۔ کیمیائی کھاد اور کیڑے مار ادویات کے اندھادھند استعمال کے برے نتائج کسان اور اس کے کھیت جھیل رہے ہیں۔ اس کے باوجود حکومت چاہتی ہے کہ کسان روایتی کھیتی کے طریقے کو چھوڑ کر نئی تکنیک اپنائیں۔ اس سے کھیتی کی لاگت میں اضافہ ہو رہا ہے اور اس کے مقابلے میں منافع کم ہو رہا ہے۔
سنجیدگی سے غور کریں تو اس سازش کے پیچھے بعض مالیاتی ادارے ہیں جو کہ دیہی ہندوستان میں اپنا بازار تلاش کر رہے ہیں۔ کھیتی کی بڑھتی لاگت کو پورا کرنے کے لیے قرض کا بازار کھول دیا گیا ہے اور حکومت اس کی تشہیر کسانوں کے لیے فلاحی قدم کے طور پر کر رہی ہے۔ حقیقت میں کسان قرض سے بے حال ہے۔ نیشنل سیمپل سروے کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ آندھراپردیش کے 82 فیصد کسان قرض میں دبے ہوئے ہیں۔ پنجاب اور مہاراشٹر جیسی زرعی ریاستوں میں یہ اعداد و شمار اوسطاً 65 فیصد ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ان ریاستوں میں ہی کسانوں کی خودکشی کے سب سے زیادہ واقعات سامنے آئے ہیں۔ یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ قرض کسان کی تشویش کا حل نہیں ہیں۔ کسانوں کو عزت چاہیے اور یہ درجہ چاہیے کہ ملک کی چوطرفہ ترقی میں وہ اہم حصہ ہیں۔
کسان ہندوستان کا وقار ہے اور ملک کے سماجی اور معاشی تانے بانے کا اہم جوڑ بھی۔ اس کے باوجود اس کا استحصال کس قدر ہے، اس کی مثال یہ ہے کہ ملک کے کسان کو گیہوں کی قیمت ساڑھے 6 روپے کلو مل رہی ہے جبکہ آسٹریلیا سے منگوائے جا رہے گیہوں کی قیمت 10 روپے سے زیادہ ادا کی جا رہی ہے۔ بازار میں برانڈیڈ آٹے کی قیمت 20 روپے کلو ہے۔ کسان کو اس کی پیداوار کی صحیح قیمت ملے، اسے ذخیرہ اندوزی، مارکیٹنگ کی معقول سہولت ملے، کھیتی کا خرچ کم ہو اور اس کاروبار میں سرمایہ داروں کے داخلے پر پابندی جیسے اقدام ملک کا پیٹ بھرنے والے کسانوں کا پیٹ بھرسکتے ہیں۔ چین میں کھیتی کی ترقی کی سالانہ شرح 7 سے 9 فیصد ہے جبکہ ہندوستان میں یہ گزشتہ 20 برسوں میں 2 فیصد کو پار نہیں کرپائی ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS