اسلاموفوبیا کا تدارک عمل و کردار سے!

0

صبیح احمد

امریکی کانگریس (پارلیمنٹ) کے ایوان نمائندگان میں حالیہ ہفتہ اسلاموفوبیا کے خلاف ایک بل منظور ہوا ہے جسے وہائٹ ہائوس کی بھی حمایت حاصل ہے، لیکن صدر امریکہ کی باضابطہ منظوری سے قبل اس بل کو ایک اور مرحلہ سے گزرنا پڑے گا۔ یعنی امریکی کانگریس کے ایوان بالا سینیٹ میں بھی اس بل کی منظوری ضروری ہے۔ اس کے بعد صدر بائیڈن اس پر دستخط کریں گے اور پھر یہ قانونی شکل اختیار کر لے گا۔ آخر امریکہ میں اس طرح کے قانون کی ضرورت کیوں آن پڑی؟
امریکی ایوان نمائندگان کی مسلمان ڈیموکریٹ رکن الہان عمر اکثر و بیشتر دائیں بازو کے سیاست دانوں یہاں تک کہ سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ تک کی بھی تنقید کا نشانہ بنتی رہی ہیں مگر حال ہی میں انہیں ایوان نمائندگان کے فلور پر ہی ایسے الفاظ میں تنقید کا نشانہ بنایا گیا کہ ایوان کو وہ الفاظ حذف کرنے پڑے۔ 14 دسمبر کو جس وقت الہان عمر کے اسلامو فوبیا کے خلاف پیش کردہ ایک بل پر بحث ہو رہی تھی تو رپبلکن پارٹی کے رکن کانگریس اسکاٹ پیری نے یہ دعویٰ کیا کہ الہان عمر کا تعلق ایک دہشت گرد تنظیم سے ہے۔ اس بل کا نام ’بین الاقوامی اسلاموفوبیا کا مقابلہ‘ ہے جس کا مقصد ہے کہ امریکی محکمہ خارجہ کے تحت ایک خصوصی نمائندہ کا تعین کیا جائے جو دنیا بھر میں اسلاموفوبیا کے واقعات کو رپورٹ کر کے امریکی محکمہ خارجہ کے علم میں لائے۔ اس نمائندہ کی تعیناتی صدر کے ذریعہ ہو گی اور واضح رہے کہ ایسا ہی ایک نمائندہ پہلے ہی امریکی محکمہ خارجہ میں موجود ہے جس کا کام عالمی سطح پر یہود مخالف واقعات کو رپورٹ کرنا ہے۔ ویسے تو یہ بل گزشتہ کئی مہینوں سے ایوان نمائندگان کی امور خارجہ کمیٹی میں موجود تھا مگر گزشتہ چند دنوں کے واقعات نے اس بل میں نئی روح پھونک دی ہے جس کے بعد اسے منظور کر لیا گیا ہے۔ نومبر کے اختتام میں رپبلکن نمائندہ لورین بوبرٹ کا ایک ویڈیو سامنے آیا تھا جس میں انہوں نے الہان عمر کو ’جہاد اسکواڈ‘ کا حصہ کہتے ہوئے مبینہ طور پر دہشت گرد قرار دیا تھا۔ اس کے کچھ دن بعد رپبلکن نمائندہ مارجوری ٹیلر گرین نے الہان عمر کو ’جہادی‘ قرار دیا۔ سوال یہ ہے کہ پوری کائنات میں امن کے علمبردار مذہب کے ماننے والوں کے حوالے سے خوف و دہشت یا نفرت کا یہ ماحول کیسے بنا؟
اسلامو فوبیا عمومی طور پر مذہب اسلام یا مسلمانوں کے خلاف خوف، نفرت یا تعصب کا جذبہ ہے، خاص طور پر جب انہیں جغرافیائی و سیاسی طاقت یا دہشت گردی کے وسیلے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ بہرحال بطور اصطلاح اسلاموفوبیا کا دائرہ کار اور ٹھوس تعریف اب بھی بحث کا موضوع ہے۔ کچھ دانشور اسے نسل پرستی یا نسل کشی کی ایک شکل تصور کرتے ہیں، کچھ اسلاموفوبیا اور نسل پرستی کو ایک دوسرے کے بہت قریب مانتے ہیں یا ایک دوسرے کا متبادل قرار دیتے ہیں جبکہ دانشوروں کا ایک دیگر طبقہ ہے جن کو ان دونوں میں کسی قسم کے رشتے پر اعتراض ہے۔ ان کا جواز یہ ہے کہ مذہب کوئی نسل نہیں ہے۔ زیادہ تر لوگ 9/11 حملے، داعش کے عروج اور امریکہ و یوروپ میں شدت پسندانہ حملوں کو اسلاموفوبیا کے لیے ذمہ دار مانتے ہیں جبکہ ایک دیگر طبقہ ایسا بھی ہے جو اسے عالمی سطح پر اسلامی شناخت کے ظہور پر ردعمل قرار دیتا ہے۔ عام فہم زبان میں ’اسلاموفوبیا‘ کا مطلب مذہب اسلام یا مسلمانوں کے خلاف ان کے عقائد کی بنیاد پر نفرت، تعصب یا خوفزدہ کرنے کا رویہ برتنا ہے۔
یہ مسئلہ صرف امریکہ تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ پوری دنیا خاص طورپر مغربی ملکوں میں مسلمانوں کے حوالے سے ایک بیانیہ قائم ہوا ہے کہ مسلمان اور خوف و دہشت کوئی الگ چیز نہیں ہے۔ پچھلے کچھ سالوں کے سیاسی واقعات نے اس میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔ لندن کے مئیر کے گزشتہ الیکشن میں مسلمان (لیبر پارٹی کے) امیدوار کے خلاف جس طرح سے برطانوی وزیر اعظم تک نے ’اسلامو فوبیا‘ کا استعمال کیا ہے، اس کی شاید ہی کوئی اور مثال ملے۔ انتخابی مہم کے دوران وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے ایوان میں صادق خان کا شدت پسند عناصر سے تعلق جوڑتے ہوئے کہا تھا کہ ’لیبر پارٹی کے امیدوار شدت پسندوں کے ساتھ ایک ہی پلیٹ فارم پر بیٹھ چکے ہیں اور مجھے ان کے بارے میں بہت خدشات ہیں۔‘ یہ الفاظ کسی انتہائی دائیں بازو یا انتہا پسند تحریک کے رہنما کے نہیں، ملک کے وزیر اعظم کے تھے۔ اور ان ہی کی پارٹی کے امیدوار زیک گولڈ اسمتھ نے اسلامو فوبیا کو ہی اپنی انتخابی تحریک کا محور بنایا۔ بار بار مسلمان امیدوار کا تعلق اسلامی شدت پسندوں سے جوڑ کر ووٹروں کو ڈرایا اور ہندو اور سکھ ووٹروں کو خاص طور پر ڈراتے رہے کہ مسلمان کا مئیر ہونا ان کے لیے اچھا نہیں ہوگا۔
لندن میں فِنسبری پارک مسجد کے قریب حملے میں ملوث حملہ آور نے برملا مسلمانوں سے نفرت کا اظہار کیا اور گاڑی لوگوں پر چڑھا دی۔ اس سے پہلے ویسٹ منسٹر، مانچسٹر ارینا اور لندن برج کے قریب ہونے والے حملوں کے بعد لوگوں نے کھلے عام مسلمانوں کو قصوروار ٹھہرانا شروع کر دیا۔ پولیس نے بھی اس بات کی تصدیق کی تھی کہ مانچسٹر حملے کے بعد مسلمانوں کے خلاف منافرت پر مبنی حملوں میں 5 گناہ اضافہ دیکھنے میں آیا۔2011 میں برطانیہ میں حکمراں جماعت کنزرویٹو پارٹی کی چیئرپرسن اور کابینہ کی پہلی مسلمان خاتون وزیر بیرونس سعیدہ وارثی نے یہ کہہ کر تہلکہ مچا دیا تھا کہ ’برطانیہ میں مسلمانوں کے خلاف تعصب سماج میں کافی حد تک قابل قبول بن چکا ہے اور یہ رویہ ’ڈنر ٹیبل ٹسٹ پاس کر چکا ہے۔‘ 2014 میں سعیدہ وارثی کابینہ سے مستعفی ہوگئی تھیں اور اس کے بعد انہوں نے ’مسلم بریٹن،دا اینیمی وِد اِن؟‘ ( برطانوی مسلمان، اندر کے دشمن؟) کے عنوان سے ایک کتاب شائع کی جس میں اپنا تجربہ ظاہر کیا اور برطانوی اور مسلمان ہونے پر تبصرہ کیا ہے۔ ابھی کچھ مہینے قبل کینیڈا میں پاکستان نژاد مسلمان خاندان کے 4 افراد کے قتل نے ’اسلاموفوبیا‘ پر بہت بڑی بحث چھیڑ دی تھی اور بیشتر لوگوں کا دعویٰ تھا کہ 11 ستمبر کے حملوں کو اگرچہ 2 دہائیاں بیت چکی ہیں لیکن صحیح معنوں میں مغربی معاشروں میں اسلاموفوبیا ’اب عروج پر ہے۔‘ اس واقعہ نے پاکستان سمیت دنیا کے دیگر ممالک میں بسنے والے مسلمانوں میں یہ احساس تازہ کر دیا تھا کہ مغربی ممالک میں اسلاموفوبیا میں اضافہ ہو چکا ہے۔
بلاشبہ دنیا میں اسلاموفوبیا ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کوئی بھی مذہب دہشت گردی کی اجازت نہیں دیتا لیکن بد قسمتی سے مذہب اسلام کے بارے میں بہت منفی پروپیگنڈہ کیا گیا اور اب بھی کیا جاتا رہا ہے۔ خاص طور پر نائن الیون کے بعد اسلاموفوبیا کی لہر میں کافی شدت آئی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ دہشت گردی کو اسلام سے جوڑ دیا گیا اور ’ریڈیکل اسلام‘ کی باضابطہ اصطلاح وضع کی گئی۔ اور دھیرے دھیرے عالمی سطح پر لوگوں کے ذہن میں اسلام کے خلاف نفرت کے جذبات کو ہوا دی گئی جس کے نتیجے میں اسلاموفوبیا پیدا ہوا۔ ہمارے معاشرہ میں بھی کچھ عناصر نفرت پھیلانے کے لیے مذہب کا استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتے جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا گیا۔ اسلام مخالف پروپیگنڈے کے تدارک کے لیے ہمیں اپنے عمل و کردار کے ذریعہ پوری دنیا کیلئے رحمۃ للعالمینؐ کے پیغام کو عام کرنا ہوگا۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS