لیبیا کے ایک عظیم مجاہدآزادی عمر مختار

0

جب پوری دنیا میں ترکی کی خلافت عثمانیہ کی گرفت کمزورہونے لگی اور یوروپ کی کچھ طاقتوں نے افریقہ اور ایشیا کے ان ممالک کارخ کرنا شروع کردیا، جہاں ترکی کی حمایت یافتہ یا حکمراں حکومت لڑرہے تھے۔ اس میں ایک اہم ملک لیبیا بھی تھا۔ افریقہ میں سامراجی حکمرانوں کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک ایسی ہی شخصیت عمر مختار البصری جس کو صحرا کا شیر The Lion of Desert کہاگیا۔مجاہد آزادی کے طور پر عمر مختار 20 سال تک جدوجہد کرتے رہے، ایک معمولی انسان نے اٹلی سامراج کے چھکے چھڑادیے اور محض واجبی تعلیم حاصل کرکے ایک مدرسہ سے مجاہدین آزادی کی ذہن سازی کی۔1862میں پیدا ہونے والے عمر مختارامنفیفہ قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے۔ان کے خاندان کا شمار علاقے کے بہادر، متواضع اور متقی خاندان میں ہوتاتھا۔ان کا خاندان اعلیٰ اقدارپر مبنی زندگی بسرکرتا تھا اور قرآن وسنت پر عمل کرنا تھا۔ان کے والد کا کم عمری میں انتقال ہوگیاتھا۔مگر اپنے ہم عمروں میں وہ ذہانت، ذکاوت، شفقت اور دعوت دین کے لئے مفرد مقام حاصل کرچکے ہیں۔اپنی دوراندیشی کی وجہ سے اٹلی سامراج کے خلاف تحریک شروع کی اور صوفیا کے طریقے پر مبنی تحریک السنوسیہ کی اصولوں پر مبنی تحریک آزادی شروع کردی۔
خیال رہے کہ السنوسیہ تحریک نے شمالی افریقہ کے ممالک اور خطوں میں فرانس کے استبداد کے خلاف جنگ شروع کی۔1902 سے 1913کے دوران اٹلی کے خلاف لیبیا میں جدوجہد کی۔ السنوسیہ تحریک نے پہلی جنگ عظیم کے دوران مصر اور سوڈان ونواحی خطوں میں بھی برطانوی سامراج سے لوہا لیا۔ لیبیا میں 1923 میں اٹلی کے خلاف اس تحریک سے نکلتے ہوئے جنگجوئوں نے ناک میں تیہ پہنادیا۔دوسری جنگ عظیم میں اس تحریک نے تمام طاقتوں کا مقابلہ کیا ، کئی مواقع پر تو برطانیہ کی خصوصی فوجBritish Eighth Armyکو جرمنی کی نازی اور ان کی فاسسٹ طاقت کے مقابلے میں مدد کی۔1951میں لیبیا میں اس تحریک کے پروردہ شاہ ادریس بادشاہ بنائے گئے بعد میں ان کی حکومت کا تختہ کرنل قذافی نے پلٹا تھا۔عمر مختار نے اٹلی کے سامراج کے خلاف بڑی دانش مندی اور جرأت کے ساتھ تحریک چلائی۔وہ عرب تاریخ کے ایسے ناقابل فراموش کردار اورقابل تقلید شخصیت ہیں جن کو استبداد فوج نے 1931 میں عام پھانسی پر چڑھا دیا تھا۔السنوسیہ تحریک سے ہی انہوں نے اپنے نیٹ ورک کو فروغ دیا۔صحرائی علاقوں میں گوریلاجنگ کے ذریعہ دشمنوں کو پریشان کیا۔ چھوٹے گروپوں میں جنگجوئوں کو تقسیم کرکے اٹلی فوج کی سپلائی توڑی ،اچانک حملوں سے اٹلی کی مثالی فوج کی کمر توڑکر رکھ دی۔اٹلی کے سب سے سفاک جابر حکمراں میسولونی سے ٹکرلینے والے عمرمختار نے سامراج فوج کو ناکوں چنے چبوادیے تھے۔مگر اپنے ہی لوگو ں کے مخبروں اور غداری کی وجہ سے عمر مختار کو زبردست دشواریوں کا سامناکرنا پڑا۔آخر کار 1931 میں مخبروں کی اطلاع پر ان کو زخمی کرکے گرفتار کرلیا گیا تھا۔ اٹلی کی فوجی عدالت نے ان کو سزائے موت کاحکم دیا۔ آخرکار 16 ستمبر 1931کو عمر مختار کو ایک جنگی قیدیوں کے کیمپ (جیل) میں سب کے سامنے پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔اس وقت ان کی عمر 73سال تھی۔اٹلی کی فوج کو یہ لگا کہ ان کو پھانسی پر لٹکا کر ان کے خلاف جنگ آزادی ٹھنڈی پڑجائے گی مگر اس وقت تک آزادی کی چنگاری نہ صرف لیبیا میں پھیل چکی تھی بلکہ اور قریب کے ممالک مصر اور موجودہ سوڈان وغیرہ میں سامراجی طاقتوں کے خلاف بغاوت نقطہ عروج پر پہنچ گئی۔لیبیا طویل اور زبردست مزاحمت کے بعد 10فروری1947میں آزاد ہواتھا۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS