افریقہ میں ترکی کے پھیلتے پائوں

0

ان ہی صفحات میں ہم افریقہ اور دیگر یوروپی ممالک میں ترکی کی بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ اور سفارتی سرگرمیو ںکا جائزہ لے چکے ہیں۔ ترکی کئی معنوں میں منفرد ملک ہے اس کی سرزمین یوروپ اور ایشیا دونوں میں ہے۔ یہ ناٹو کا ممبر ملک ہے اس کے ساتھ ساتھ مسلم ملک ہونے کی وجہ سے عالمی سطح پر ترکی کو ایک اہم قائدانہ مقام حاصل ہے۔ یوکرین کے معاملے پر ترکی نے جو جانبدارانہ اور کافی حد تک اپنے مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے حکمت عملی اختیارکی ہے اس کی وجہ سے ترکی کئی معنوں میں اہمیت کا حامل ہوگیا ہے ۔ ترکی نے یوروپ کے علاوہ شمالی افریقہ اور ساحلی خطے میں اپنا اثر رسوخ بڑھایا ہے اور وہ کافی حد تک ر وس کے ساتھ تامل میل کررہا ہے۔ پچھلے دنوں ہم نے دیکھا کہ ترکی کے اعلیٰ قیادت سعودی عرب اور دیگر اہم مسلم ممالک کے علاوہ اسرائیل سے بھی تعلقات کو مستحکم اور بحال کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ اسرائیل کے صدر ترکی کا دورہ کیا تھا اس کے علاوہ ترکی نے خلیجی ممالک کے ساتھ کئی تجارتی او رکاروباری معاہدہ کیے ہیں۔ ایک بڑے طبقے کا ماننا ہے کہ سینٹرل ایشیا میں یوکرین اور روس کے درمیان جنگ کاسب سے زیادہ فائدہ ترکی اٹھا رہا ہے۔ جن ملکوں میں روس اور یوکرین اپنی غذائی اجناس ودیگر اشیا ایکسپورٹ کررہے تھے۔ وہاں اب ترکی اپنا سامان بھیج رہا ہے۔ اسلحہ سازی خاص طور پر جدید ڈرونوں کا چرچا پوری دنیا میں ہے۔ یہ ڈرون یوروپی ممالک بھی خرید رہے ہیں اور سعودی عرب جیسا ملک جو کہ علاقائی حریفو ں کی زد پر ہے اور ماضی قریب میں بھی ڈرون حملو ںکا شکار رہاہے، ترکی کے ڈرون کا خریدار بن رہا ہے۔
حال ہی میںترکی نے سب سے زیادہ دلچسپی براعظم افریقہ کے مغربی اور ساحلی علاقوں میں دیکھائی ہے۔ پچھلے دنوں الجیریا کے صدر عبدالمادجد تربونی نے تین روز کا دورہ ترکی کیا۔ کہا جارہا ہے کہ ترکی الجیریا کے ساتھ خاص طورپرتعلقات بڑھا رہا ہے اور اپنے فوجی اڈے الجیریا میں بنانے کی جستجومیں ہے۔ ترکی کے مفادات میں لبیا میں بھی ہیں اور تیونس جہاں پر موجودہ سرکار کے خلاف زبردست ناراضـگی ہے ،جوابھی بھی اس کا اثرورسوخ بڑھانے کا کوشش کررہا ہے۔الجیریا کے تعلقات فرانس سے بہت زیادہ خراب ہیں ۔ فرانس اور الجریا کے درمیان الجیریا کے آزادی کے بعد سے اب تک مستحکم اور خوشگوار تعلقات نہیں بن پائے ہیں۔ فرانس نے 1830سے لے کر1962تک قبضہ کررکھا تھا۔ اس پوری مدت میں فرانس بڑے پیمانے پر قتل وغارت گری کی تھی اور ابھی بھی اپنا اثر ورسوخ برقراررکھنے کی کوشش کرتا رہاہے۔ فرانس نے الجیریا کے علاوہ آس پاس کے کئی ملکوں کو غلام بنا ئے رکھا تھا اور ان ملکوں کو آزاد کرنے کے باوجود آج بھی فرانس ان ملکوں کو اپنے دستے نگر رکھنا چاہتا ہے لیکن اب فرانس کے عزائم کے خلاف آوازیں اٹھنے لگی ہیں ۔برنیکا فاسو، مالے اور اتھوپیا جیسے ملک فرانس کو درکنار کرکے اپنی آزادانہ خارجی پالیسی اختیار کررہے ہیں ۔ یہ ملک فرانس کے اثر ورسوخ کو ختم کرنے کے لیے روس اور کسی حد تک ترکی کی مدد لے رہے ہیں۔ خیال رہے کہ فرانس اور ترکی کے درمیان سخت کشیدگی ہے اور ترکی فرانس کو ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ یوروپی یونین کی مکمل رکنیت کو لے کر فرانس ترکی کی مخالفت کررہا ہے اور قبرس اور آرمینیا میں ترکی کے ماضی اور موجودہ اثرورسوخ کو بہانہ بنا کر اورانسانی حقوق کی دہائی دے کر قدغن لگانے کی کوشش کرتا رہا ہے۔
بہرکیف ترکی کے صدر طیب اردگان الجیریا ودیگر ملکوں میں اپنی سرمایہ کاری بڑھا کر ان کے اقتصادی مسائل کو حل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ الجیریا کے بارے میں کہا جاتاہے کہ وہ ایک پٹرول کی دولت سے مالا مال ملک ہے مگر اس کے یہاں مینجمنٹ کی زبردست کمی ہے اور اس کی وجہ سے الجیریا کی معیشت کو وہ فائدہ نہیں پہنچ رہا ہے جو دیگر ممالک کو پہنچ رہا ہے۔ الجیریاکے صدر نے ترکی کے دورے کے دوران پندرہ معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔ یہ معاہدے اقتصادی، تجارتی، ثقافتی اور سفارتی سطح پر ہیں۔ اس کے علاوہ الجیریا کو ترکی کی دیگر میدانوں میں بھی مدد مل رہی ہے اس میں کانکنی ، صنعت کاری، تجارت اور ماحولیات شامل ہیں۔ ترکی الجیریا میں اسکول کھول کر دونوں ملکوں کے درمیان درینہ تعلقات مستحکم بنانے کی کوشش کررہا ہے۔ خیال رہے کہ ترکی اسلحہ سازی کی صنعت میں بہت آگے ہے جبکہ الجیریا کو دفاعی ضروریات کے لیے دوسرے ممالک پر بھروسہ کرنا پڑتا ہے۔ ترکی کو معلوم ہے کہ افریقہ کا راستہ الجیریا سے ہو کر جاتا ہے۔ ان معاہدوں کے تحت ترکی نے الجیریا میں 1400کمپنیاں منتقل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ترکی کو لگتاہے کہ وہ ان حربوں سے الجیریا نے اس خلاء کو پر کر لے گا جو روس اور فرانس کے اثر ورسوخ کو ختم کرکے پیدا ہورہا ہے۔ (ش ا ص)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS