اب یکساں سول کوڈ

0

گجرات اسمبلی انتخاب میں مہنگائی، بے روزگاری، بھکمری، تباہ حال معیشت، افراط زر،تعلیم اور صحت سہولیات کی کمی، عوامی املاک اور صنعتوں کی نجکاری جیسے مسائل پر اپوزیشن کی یلغار کی شکار بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنی انتخابی مہم کا رخ تبدیلی مذہب اور یکساں سول کوڈکی جانب موڑ دیا ہے۔ پارٹی کے کم و بیش تمام لیڈروں کی تقریر، جلسے جلوس اور دیگر انتخابی ہنگامہ آرائیوں کا محور یہی دو ’ا یشوز‘ بنے ہوئے ہیں۔ آسام کے وزیراعلیٰ اور بی جے پی کے اسٹار پرچارک ہیمنت بسواسرما تو اپنی پوری انتخابی مہم ہی مسلمانوں کی مبینہ تین شادیوں کے گرد چلارہے ہیں۔ان کا کہناہے کہ ہندوستان میںہندو ایک شادی کرے اورتم تین تین چار چار کرو،ایسا نہیںہوسکتا ہے۔ دوسروںکو بھی صرف ایک ہی شادی کرنی پڑے گی اور ملک میں یکساں سول کوڈ نافذ ہوکر رہے گا۔ادھر مرکزی وزیرداخلہ امت شاہ تو یکساں سول کوڈ کے مسئلہ کو گجرات سے باہر بھی اچھالنے میں کامیاب ہیں۔ کل انہوں نے اپنی پارٹی کی جانب سے اس عزم کا اعادہ بھی کیااور کہا ہے کہ بھارتیہ جن سنگھ سے لے کر بی جے پی تک کے سیاسی سفر میں ہر قدم پر ہم نے ملک کے عوام سے یکساں سول کوڈ کا وعدہ کیا ہے۔ یہ وعدہ نبھانے کیلئے بی جے پی پرعزم ہے۔ وزیرداخلہ کا کہنا ہے کہ ایک سیکولر ملک کیلئے قانون مذہب کی بنیاد پر نہیں ہونا چاہیے، اس کے ساتھ انہوں نے عوام سے استفسار بھی کیا کہ اگر ملک اور ریاست سیکولر ہیںتو قوانین مذہب کی بنیادپر کیسے ہوسکتے ہیں؟
وزیرداخلہ کے اس سادہ لوح استفسارکا مقصد عوام کو گمراہ کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے، نہ تو ملک میں مسلمان تین تین چار چارشادیاں کرکے اپنی آبادی بڑھارہے ہیں اور نہ ہی ہندوستان جیسے سیکولر ملک میں قوانین مذہب کی بنیاد پر ہیں۔ملکی قوانین چاہے وہ عام سول قوانین ہوں یاپھر فوجداری کے قوانین ان کی بنیاد قطعاً مذہب پر نہیں ہے۔ ہاں چند ایک مخصوص عائلی امورمیں مذاہب کی بنیاد پر استثنیٰ دیاگیا ہے،یہ استثنیٰ صرف مسلمانوں کو ہی نہیں بلکہ عیسائی، یہودی، زرتشتی یہاں تک کہ ہندوئوں (بشمول سکھ، جین وبودھ)کو بھی حاصل ہے۔ جو شادی، طلاق اور جائیداد و میراث کی تقسیم وغیرہ کے معاملات میں اپنے اپنے مذہب کے مطابق عمل کرتے ہیں۔یہی وہ کثیر الثقافت تنوع ہے جو ہندوستان کاحسن ہے۔ لیکن بی جے پی کو ہندوستان کا یہ حسن منظور نہیں ہے اور اسی استثنیٰ کو بنیاد بناکروہ اپنی نفرت انگیز مہم چلاتی رہی ہے اور بارہاشر انگیزی بھی کرتی رہی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ملک میں نہ تو یکساں سول کوڈ ضروری ہے اور نہ ہی مطلوب ہے۔ حال کے برسوں میںہی لاکمیشن آف انڈیا نے باقاعدہ اس امر کا اعلان کرتے ہوئے مشاورتی پرچہ بھی جاری کیا تھا۔ کمیشن کا موقف ہے کہ یکساں سول کوڈ مسئلہ کا حل نہیں ہے بلکہ تمام نجی (عائلی) قانونی طریقہ کار کو منظم اور مربوط کرنے کی ضرورت ہے تاکہ تعصبات کا ازالہ کیاجاسکے۔لا کمیشن کا کہنا ہے کہ ایک متحد اور مستحکم قوم کو ’یکسانیت‘ کی ضرورت ہویہ ضروری نہیں ہے بلکہ ہمیں انسانی حقوق کی بنیاد پر ناقابل تردید دلائل کے ساتھ اپنے اختلافات کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔لاکمیشن کا خیال ہے کہ پرسنل لاز میں فرق امتیازی سلوک نہیں بلکہ یہ مضبوط جمہوریت کی علامت ہے۔
یہ درست ہے کہ آئین میں یکساںسول کوڈ کا ذکر کرتے ہوئے ریاست کو کہاگیا ہے کہ وہ ہندوستان کے تمام شہریوںکیلئے یکساں سول کوڈ بنائے گی لیکن آئین نے اسے لازم قرار دینے کے بجائے عوام کی صوابدید پر چھوڑ دیا ہے۔ یعنی اس کا مطلب یہ ہوا کہ حکومت یہ قانون سازی جمہوری بات چیت اور متعلقین کی رضامندی سے اس وقت کرے گی جب یہ مطلوب ہوں۔ جیسا کہ لا کمیشن آف انڈیا نے اس کی ضرورت اور طلب کو سرے سے ہی مسترد کردیا ہے، اس لیے اب یہ سوال بھی نہیں اٹھایاجاناچاہیے۔
دوسری جانب اسی آئین نے اپنی دفعہ14کے تحت اقلیتوں کو مذہبی آزادی کا ناقابل تنسیخ حق دیا ہے۔ قبائلی علاقوں کے رسوم و رواج بھی ان کیلئے قانون کا درجہ رکھتے ہیں، جنہیںآئینی تحفظ بھی حاصل ہے۔ اسی ہندوستان کی شمالی ریاستوں کے ہندوئوں میں قریبی رشتہ داروں میں شادیوں کی ممانعت ہے لیکن جنوب کی ریاستوں میں اسے مستحسن سمجھاجاتا ہے۔ شمال مشرقی ریاستوں خاص کر ناگالینڈ، میگھالیہ اور میزورم کے مقامی رسم و رواج کوبھی آئین نے تحفظ دیا ہے۔ایسے میں مختلف طبقات کے درمیان مشترکہ نظریات قائم کرکے ان کیلئے ایسایکساں قانون بناناجس پر سب رضامند ہوجائیں ممکن نہیں ہے، اگر ایسا ممکن ہوتاتوہمارے آئین سازوں نے یہ کام 26 جنوری 1950سے قبل ہی کرلیاہوتا۔
دراصل یہ انفرادی اور عائلی قوانین کا انتہائی تنوع ہی ہندوستان کا حسن اوراس کی اصل طاقت ہے جسے ’ یکسانیت‘ کے نام پرختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ سماجی اصلاح کی آڑ میں اکثریت پسندی اور اکثریت کے قوانین کو تھوپنے کی کوشش ہے۔ بی جے پی اور دوسری بھگوا جماعتوں کا یکسانیت پر اصرار فرقہ واریت کی ایسی گھنائونی شکل ہے جو علاقائی سالمیت کیلئے خطرہ بھی بن سکتی ہے۔ یکساں سول کوڈکا ڈول ڈالنے سے پہلے یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ کیا ایک متحد قوم کو ’یکسانیت‘ کی اتنی ضرورت ہے کہ ہم تنوع کی خوبصورتی کو نظر انداز کرکے علاقائی سالمیت کو خطرہ میں ڈال دیں؟
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS