عمیر کوٹی ندوی: عفوودرگزر دورِ کشا کش میں ناگزیر

0
عمیر کوٹی ندوی: عفوودرگزر دورِ کشا کش میں ناگزیر

عمیر کوٹی ندوی
معاشی اور نفسیاتی گھیرا بندی موجودہ حالات کی سختی کے دو نمایاں پہلو ہیں۔ چاہا جارہا ہے کہ ان کے ذریعہ سے مسلمانوں کے ایمان، یقین، عزم وحوصلہ کو توڑ دیا جائے۔ ان کے گرد دائرۂ حیات کو تنگ کر دیا جائے۔ مدارس اور اداروں کو نشانہ بنانا، بیرونی فنڈنگ کے نام پر ملت کو پریشان کرنا، بلڈوزر پالیٹکس اور پھر اس دائرہ کو بڑھاتے چلے جانا، قانون کی حکمرانی کو متزلزل کرنے کوشش کرنا، اس کے ذریعہ کچھ لوگوں کے حوصلوں کو پست کرنے تو کچھ کے حوصلوں کو بلند کرنے کی کوشش کرنا، ایک خاص فکر ونظریہ سے وابستہ لوگوں کو خوش کرنے کی کوشش کرنا یہ سب اسی کی کڑیاں ہیں۔ عام حالات میں یقیناً لوگوں کے حوصلے پست ہوجاتے ہیں اور دنیا تک ہی نظر محدود رکھنے والوں کے قدم لڑکھڑا جاتے ہیں۔ لیکن وہ لوگ جو اللہ پر، اس کی قدرت پر ایمان ویقین رکھتے ہیں، ان کے لئے یہ حالات کردار سازی کا کام کرتے ہیں۔ ان کی سمتوں کو متعین کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ انہیں کیا کرنا اور کیسے کرنا ہے۔ قرآن نے ایمان والوں کی ان حالات میں پوری رہنمائی کی ہے اور بتایا ہے کہ ان حالات میں کیا کرنا ہے اور اپنے اندر کن خوبیوں کو پیدا کرنا ہے۔
ویسے تو سبھی خوبیاں اپنی اپنی جگہ پر بہت مفید اور اثردار ہوتی ہیں۔ لیکن بعض خوبیاں ایسی ہوتی ہیں جو کسی ایک فرد ہی نہیں بلکہ قرب وجوار سے بھی آگے بڑھ کر پورے معاشرے کو متاثر کرتی ہیں۔ قرآن مجید میں بیان کردہ ایسی ہی چند خویبوں کا موجودہ حالات کے پیش نظر ذکر انتہائی مفید معلوم ہوتا ہے۔ ان خوبیوں کو اللہ نے اس طرح بیان کیا ہے کہ ’’جو لوگ خوشحالی اور تنگدستی میں اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں، غصہ پینے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں، اللہ تعالیٰ ان نیک لوگوں سے محبت کرتا ہے ‘‘( آل عمران:134)۔ یہ ان لوگوں کی خوبیاں ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے والے ہیں۔ انہوں نے تقویٰ کی زندگی اختیار کرنے کو ترجیح دی ہے۔ وہ اللہ کی مغفرت کے طلب گار ہوئے ہیں۔ جب حالات اچھے ہوں اور مال ودولت کی فراوانی ہو تو عموما لوگ کچھ نہ کچھ خرچ کر ہی دیتے ہیں۔ پر جب حالات تنگ ہوں تو پھر اچھے اچھوں کی حالت غیر ہو جاتی ہے۔ ایسے لوگ حالات کی سختی کی بات کر کے ہاتھ روک لیتے ہیں۔ لیکن اہل ایمان کی یہ خوبی بیان کی جارہی ہے کہ وہ محض خوش حالی میں ہی نہیں، بلکہ ہر حال اور ہر موقع پر حتی کہ تنگ دستی کے موقع پر بھی اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔
معاشی گھیرابندی کے دور میں فقر وفاقہ کے اندیشے سب سے زیادہ ذہن کو پریشان کرتے ہیں۔ اس تعلق سے اللہ فرماتا ہے کہ ’’کہہ دیجئے کہ میرا رب اپنے بندوں میں جس کے لئے چاہے روزی کشادہ کرتا ہے اور جس کے لئے چاہے تنگ کردیتا ہے، تم جو کچھ بھی اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے اللہ اس کا (پورا پورا) بدلہ دے گا اور وہ سب سے بہتر روزی دینے والا ہے‘‘(سبا:39)۔ خرچ کرنے والوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ’’جو کچھ ہم نے ان کو عطا فرمایا ہے اس میں سے پوشیدہ اور علانیہ خرچ کرتے ہیں وہ ایسی تجارت کے امیدوار ہیں جو کبھی خسارہ میں نہ ہوگی‘‘(فاطر:30- 29)۔ رسولؐ نے فرمایا کہ’’ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بندو(میری راہ میں) خرچ کرو تو میں بھی تم پر خرچ کروں گا اور فرمایا، اللہ کا ہاتھ بھرا ہوا ہے۔ رات اور دن مسلسل خرچ کرنے سے بھی اس میں کمی نہیں ہوتی اور فرمایا تم نے دیکھا نہیں جب سے اللہ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے، مسلسل خرچ کئے جا رہا ہے لیکن اس کے ہاتھ میں جو ہے اس میں کوئی کمی نہیں ہوئی‘‘(بخاری: 4684) ایک اور حدیث میں نبیؐ سے روایت ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے آدم کے بیٹے خرچ کر کہ میں بھی تیرے اوپر خرچ کروں‘‘۔ اور فرمایا آپ ؐ نے کہ ’’اللہ کا ہاتھ بھرا ہوا ہے، رات دن کے خرچ کرنے سے کچھ کم نہیں ہوتا‘‘(مسلم: 2308)۔
دوسری خوبی غصہ پینا اور تیسری خوبی لوگوں سے درگزر کرناہے۔ جن حالات کا سامنا ہے ان میں رہ رہ کر غصہ آنا اور بات بات پر مشتعل ہونا کوئی بعید بات نہیں ہے۔ اس کیفیت کا اثر عام طور پر دیکھنے میں آتا ہے۔ ہر وقت کچھ نہ کچھ ایسا کر بھی دیا جاتا ہے جس سے مسلمانوں میں اشتعال پیدا ہوجائے اور بھڑک جائیں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں میں اس طرح کی حرکتیں دیکھنے میں بھی آتی ہیں۔ مرحلہ بات چیت کا ہو، میڈیا ڈیبیٹ ہو، انٹرویو ہو، تقاریر اور بیانات کا ہو اشتعال انگیزی اور جذباتی باتیں اور بیانات سامنے آہی جاتے ہیں۔ ان کا مسلمانوں کو ہمیشہ نقصان ہوتا ہے اور فائدہ ان کو ہوتا ہے جنہیں مسلمانوں سے اس قسم کے رد عمل کی پوری امید ہوتی ہے۔ اللہ کا حکم ہے کہ ایسی ہر کیفیت پر قابو پایا جائے۔ غصہ آنا فطری بات ہے لیکن اس پر قابو پانا اور اسے پی جانا ان ’نیک لوگوں‘ کی صفت ہے جن سے ’اللہ محبت کرتا ہے‘۔ یہ اس لئے ہے کہ غصہ پی جانے والے کو کبھی بھی اس کے مقصد سے بھٹکایا نہیں جاسکتا ہے، اسے گمراہ نہیں کیا جاسکتا ہے اور نہ اسے راستے میں روکا جاسکتا ہے۔ یہ بالکل اسی طرح ہے کہ جب کوئی سفر پر ہوتا ہے تو وہ راستہ میں کسی بھی رکاوٹ پر رکتا نہیں ہے، کسی بھی مسئلہ میں الجھ کر اپنا سفر ترک نہیں کرتا ہے بلکہ طاقت،پیسہ، رتبہ، صلاحیت اور اثر ورسوخ سمیت ہر طرح سے سامنے والے کو مزا چکھانے کی صلاحیت رکھنے کے باوجود تمام طرح کی رکاوٹ سے خود کو بچا کر اپنی منزل کی طرف بڑھتا چلا جاتا ہے اور آخر کار وہ وہاں پہنچ ہی جاتا ہے۔
موجودہ وقت میں حالات یہی کہہ رہے ہیں کہ مسلمان وقت کے تقاضہ کو سمجھیں۔ معاشی تنگی کے باوجود ملت، مقصد اور انسانیت سے غافل نہ ہوں۔ اپنے فرائض کی ادائیگی کی طرف پوری توجہ دیں۔ جو کچھ بھی اللہ نے دیا ہے اس میں سے خرچ کریں۔ اس وقت جب کہ کساد بازاری، مندی، مہنگائی اور معاشی اتھل پتھل کے ساتھ ساتھ آزمائشوں نے حالات سخت کردئے ہیں، ایسے میں فرائض کی طرف زیادہ سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ضرورت اس کی بھی ہے کہ سرگرمیوں اور طریقہ کار کا بھی ازسرنو جائزہ لیا جائے۔اسی کے ساتھ ساتھ اس طرف بھی توجہ رہے کہ آپس میں بھی ایک دوسرے پر غصہ کرنے اور مشتعل ہونے سے بچیں۔ غصہ آنے پر اسے پی جائیں، اللہ کی پناہ چاہیں اور ایک دوسرے کو معاف کردیا کریں۔ اسی طرح دوسرا کوئی کتنا ہی انہیں الجھانے اور اکسانے کی کوشش کرے وہ اس سے صرف نظر کریں۔ نیک لوگوں کی خوبی یہی ہے کہ بدلہ اور انتقام لینے کی پوری صلاحیت اور طاقت رکھنے کے باوجود غصہ کو پیتے ہیں اور قصوروار کو معاف کر دیتے ہیں۔ اس وقت جب کہ حالات کی سختی کی وجہ سے نفسیاتی دباؤ سے سب ہی گزر رہے ہیں، مزاج کا الجھنا اور اشتعال کا پیدا ہونا عام کیفیت ہے۔ یہ کیفیت مسلمانوں میں عام طور پر دیکھی جارہی ہے۔ لیکن اس پر قابو پانے کی سخت ضرورت ہے۔ اس وقت اکسانے اور الجھانے کی نہ جانے کتنی کوششیں ہو رہی ہیں، ان سے صرف نظر کرنا بہت ضروری ہے۔ اس لئے کہ نظریں تاک میں لگی ہیں۔ کہیں بھی کوئی چوک ہوتی ہے، اس کو اچک لیا جاتا ہے اور مسلمانوں کے خلاف ہی اسے استعمال کرلیا جاتا ہے۔ یہ سامنے کی چیزیں ہیں اور رات ودن نظر سے گزرتی رہتی ہیں۔ رسولؐ نے فرمایا کہ’’ بہادر وہ نہیں جو پہلوان ہو اور دوسرے کو پچھاڑ دے بلکہ بہادر وہ ہے جو غصہ کے وقت خود کو قابو میں رکھے‘‘(بخاری:6114)۔
([email protected])

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS