یوپی اے نہ سہی، مگر کانگریس کیوں معنی رکھتی ہے

کانگریس کی کوئی اہمیت نہیں رہ گئی ہے، ایسا نہیں ماننے والوں میں بی جے پی والے بھی ہیں

0

شیکھر گپتا

ممتابنرجی نے گزشتہ دنوں ممبئی کے اپنے دورہ میں کہا کہ یوپی اے نام کے اتحاد کا اب کوئی وجود نہیں رہ گیا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ یوپی اے کا وجود 2014کے عام انتخابات کے بعد ہی ختم ہوگیا تھا۔
ممتا اور پرشانت کشور نے کانگریس کے بارے میں جو کہا وہ زیادہ اہم ہے۔ ممتا نے راہل گاندھی کا نام نہ لیتے ہوئے ان پر طنز کیا۔ انہوں نے کہا کہ سیاست میں واپسی کے لیے آپ کو ہمیشہ زمین پر رہنا پڑتا ہے، نہ کہ ہمیشہ دنیا بھر میں گھومتے رہنا ہوتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کانگریس اب کسی کو یقین ہی نہیں دلا پارہی ہے کہ نریندر مودی کا مقابلہ کرنے کا مادّہ ابھی بھی اس میں باقی ہے۔ بیشک، یہاں ہم ان کی بات کا مفہوم پیش کررہے ہیں۔
پرشانت کشور نے ٹوئٹ کرکے کہا کہ کانگریس ابھی بھی طاقتور ثابت ہوسکتی ہے، لیکن اس کی لیڈرشپ کا دعویٰ کرنے کا حق کسی کے پاس نہیں۔ اس تبصرہ کی کئی وضاحتیں پیش کی گئیں۔ ظاہر ہے، پہلی وضاحت یہ تھی کہ ممتا اپنی پرانی پارٹی کو یہ پیغام دے رہی ہیں کہ اسے اب ایک زیادہ باصلاحیت لیڈر کی ضرورت ہے،جس کا مودی-شاہ کی بی جے پی کو ٹکر دینے کا اور ایک سے زیادہ بار شکست دینے کا ٹریک ریکارڈ رہا ہو۔
دوسری وضاحت یہ تھی کہ پرشانت کشور اصل میں ممتا کی چال کو واضح کررہے تھے۔ ایک تو یہ ہے کہ وہ کانگریس کو یقین دلارہے تھے کہ وہ کانگریس کی پوری سیاسی زمین پر قبضہ نہیں کرنا چاہتے بلکہ باقی اپوزیشن کی طرح وہ بھی یہی مانتے ہیں کہ کانگریس کے مضبوط ہونے میں ان کا بھی مفاد ہے۔ دوسرے، یہ اس کے موجودہ لیڈر راہل گاندھی کی قیادت میں نہیں ہوپائے گا اس لیے تبدیلی لانی ہوگی۔ یہ ویسا ہی ہے جیسے کمپنی کے شیئرہولڈروں نے بغاوت کردی ہو اور وہ اس کے مینجمنٹ پر قبضہ نہ کرکے اسے بدلنے کی اپیل کررہے ہوں۔
ہندوستان کی سبھی غیر بی جے پی پارٹیاں بی جے پی سے ناراض ہیں۔ ان میں وہ بھی جو این ڈی اے میں ہیں، مگر توجہ نہ دیے جانے سے غیرمطمئن ہیں، لیکن اکیلے دم پر کوئی بھی اس کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتی۔ اپنی اپنی ریاستوں میں تو وہ بی جے پی پر لگام لگانے میں کامیاب ہیں، لیکن انہیں معلوم ہے کہ قومی سطح پر درجن بھر پارٹیاں ساتھ ہوجائیں تو بھی وہ ٹکڑوں میں تقسیم ہوجائیں گی۔ چیلنج یہ ہے کہ ان کی بنیاد میں ایسی پارٹی ہو جس کی موجودگی کئی ریاستوں میں ہو۔ ایسی پارٹی صرف کانگریس ہی ہے۔ اس لیے انہیں کانگریس کی سخت ضرورت ہے۔ مختصراً کہیں تو ہندوستان میں اپوزیشن کے لیے مسئلہ کانگریس کے سائز کا ہے۔
کوئی بھی سیاسی طاقت سخت سوال سننا پسند نہیں کرتی۔ اس لیے سب سے پہلی کوشش یہی ہوتی ہے کہ لیڈر کے اردگرد اس کی حمایت کرو اور خبردار کرنے والے کو خارج کرو۔ مثال کے لیے، فی الحال کانگریس پر ہی نظر ڈالیے۔ پارلیمانی سیشن شروع ہوگیا ہے اور حکمراں پارٹی سے سوال پوچھنے کے بجائے نگاہیں پرشانت کشور کی جانب اُٹھ رہی ہیں۔
لیکن اعدادو شمار کی سچائی تبدیل نہیں ہوسکتی۔ اعداد و شمار کانگریس کے حق میں نظر آتے ہیں۔ مسلسل دوسری مرتبہ بی جے پی سے شکست کھانے کے باوجود اس نے اپنے پکے 20فیصد ووٹ بچائے رکھے ہوئے ہیں۔ یہ بی جے پی کو چھوڑ کر کسی بھی چار پارٹی کے کل ووٹ سے زیادہ ہے، چاہے پارٹیاں این ڈی اے یا یوپی اے کی ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ جن پارٹیوں کو ہم مذاق میں ’بی جے پی متاثرہ معاشرہ‘ کا بتاتے ہیں، وہ چاہتی ہیں کہ کانگریس مضبوط ہو۔
ممتابنرجی اور پرشانت کشور اگر یہ مان بیٹھیں ہوں کہ وہ پورے ملک میں ترنمول کے حق میں ایسی لہر پیدا کردیں گے کہ کانگریس کے تقریباً13کروڑ پکے ووٹر اس کی جانب مڑجائیں گے تو وہ مغالطے میں ہوں گے۔ اسی طرح اب وہ یہ غلط فہمی بھی نہیں پالتے ہوں گے کہ گاندھی پریوار اپنی پارٹی میں جان پھونک دے گا اور بی جے پی کی واضح اکثریت کے لیے خطرہ پیدا کردے گا۔ اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ کانگریس نئی قیادت کے ہاتھ میں جائے یا وہ خود کو 13کروڑ ووٹوں کے شروعاتی سرمایہ والے ’اسٹارٹ-اپ‘ کے طور پر دیکھے جس کا نیا مینجمنٹ بیشک ان کے ہاتھ میں ہو۔
کانگریس کے اعداد و شمار کو دوسری طرح سے بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ یاد رکھا جائے کہ لوک سبھا میں اس کے محض53ممبران پارلیمنٹ ہیں یعنی کل سیٹوں کے 10فیصد سے بھی کم۔ کانگریس کو سیٹیں کہاں سے ملتی ہیں؟ کیرالہ سے 15اور پنجاب سے 8، یہ دونوں اسے اپنے دم پر ملتی ہیں۔ اس کے بعد 8سیٹیں تمل ناڈو سے ملتی ہیں- وہ بھی بنیادی طور پر ڈی ایم کے کی وجہ سے۔ اس کے بعد اس کا اسکورکارڈ اس کرکٹ ٹیم جیسا ہے جو 53پر آل آؤٹ ہوئی ہو۔ آسام-تلنگانہ سے 3، چھتیس گڑھ اور مغربی بنگال سے 2-2اور باقی 12ریاستوں سے ایک ایک سیٹ۔
اس لیے 20فیصد ووٹ کے اس قابل ذکر اعداد و شمار کے نیچے یہ بدنما حقیقت پوشیدہ ہے کہ پارٹی کیرالہ چھوڑ کر کسی ریاست میں دہائی کے اعدادوشمار میں سیٹیں نہیں حاصل کرپائی۔ آج، کیا وہ نئے الیکشن سے بہتر مظاہرہ کرنے کی امید کرسکتی ہے؟ کیرالہ میں پھر ویسا ہی مظاہرہ کرنا چیلنج ہوگا۔ تمل ناڈو میں وہ ڈی ایم کے کی مرضی کی محتاج ہوگی، پنجاب میں وہ ٹوٹ چکی ہے تو تلنگانہ، مغربی بنگال اور آسام میں مزید کمزور ہوگئی ہے۔
سب سے تلخ حقیقت یہ ہے کہ ملک کی تقریباً کسی بھی اپوزیشن پارٹی کے برعکس کانگریس کسی ریاست کی ’مالک‘ نہیں ہے۔ دو ماہ قبل تک وہ پنجاب کے بارے میں ایسا دعویٰ کرسکتی تھی لیکن اس دعوے کو گنوانے کے لیے اس نے کافی مشقت کی۔
اس کے مقابلہ میں بنگال اگر ترنمول کا ہے تو تمل ناڈو اسٹالن کا۔ یہ دونوں بڑی ریاستیں ہیں جو بالترتیب 42اور 39ممبران پارلیمنٹ بھیجتی ہیں۔ کیرالہ کو کانگریس اسمبلی-لوک سبھا کی بنیاد پر بائیں بازو کی جماعتوں اور اپنے درمیان تقسیم کرتی ہے اس لیے وہ ریاست اس کی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ وہ اور کسی ریاست میں اس حالت کے نزدیک بھی نہیں پہنچتی۔ مہاراشٹر میں یہ اتحاد کے ساتھ ہے لیکن اتحادی پارٹیوں میں سب سے کمزور ہے۔ وائی۔ایس۔جگن موہن ریڈی اور کے سی آر اپنی اپنی ریاستوںمیں مضبوط ہیں۔ مہاراشٹر کے ٹھاکرے کا رتبہ بڑھا ہے، چھتیس گڑھ میں کانگریس کو محض 2لوک سبھا سیٹیں ملی ہیں اور راجستھان میں ایک بھی نہیں جبکہ ان دونوں ریاستوں میں اقتدار میں ہے۔ یوپی، بہار، راجستھان، مدھیہ پردیش، ہریانہ، اتراکھنڈ، جھارکھنڈ، چھتیس گڑھ، اڈیشہ، ہماچل اور بنگال کی کل 286سیٹوں میں سے اسے محض 10سیٹیں حاصل ہوئی ہیں۔ ماضی میں یہ ان سبھی ریاستوں میں ایک سے زیادہ بار حکومت کرچکی ہے۔
لیکن یہ کہنا غلط ہوگا کہ کانگریس کی کوئی اہمیت نہیں رہ گئی ہے۔ ایسا نہیں ماننے والو ںمیں بی جے پی والے بھی ہیں۔ اس لیے نریندر مودی نے یوم آئین پر پارلیمنٹ میں کی گئی اپنی تقریر میں کہا کہ خاندانی سیاست جمہوریت کے لیے ایک خطرہ ہے۔
لیکن کانگریس والوں کا یہ سوچنا خودکشی کے مترادف ہوگا کہ ووٹر مودی کو ووٹ دینے اور دوبارہ اقتدار میں واپس لانے کے لیے ’آخرکار‘ اجتماعی افسوس کریں گے۔ اگر وہ یہی امید کرتے رہیں گے تو اعداد و شمار کے اشارے پر غور کیجیے۔ 2014 اور 2019کے عام انتخابات میں ان سبھی سیٹوں پر جن میں وہ بی جے پی کو راست چیلنج دے رہے تھے، ان 186سیٹوں میں وہ صرف15ہی جیت پائے، جب کہ بی جے پی باقی 92فیصد سیٹیں جیت گئی تھی۔ یہی بات ان لوگوں کو ڈراتی ہے، جو مودی کے خیمے میں نہیں ہیں۔
(مضمون نگار ’دی پرنٹ‘ کے ایڈیٹر اِن چیف ہیں)
(بشکریہ: دینک بھاسکر)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS