جموں کشمیر میں قربانی خدشات سے لوگ آخر کیوں ہیں پریشان

0
Eid

سری نگر (صریر خالد،ایس این بی) : عید الضحیٰ یا بقر عید سے چند روز قبل حکومت جموں کشمیر کی جانب سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو لکھی جانے والی ایک چٹھی نے مسلم اکثریت والے اس علاقہ میں بے چینی کی لہر دوڑا دی تھی۔ ان اداروں کو لکھے گئے خط کو لوگوں نے قربانی پر پابندی سمجھا تھا، تاہم حکومت نے وضاحت کرتے ہوئے قربانی پر کوئی بھی پابندی عائد نہ کیے جانے کی وضاحت کی ہے۔
محکمہ انیمل ہسبنڈری کے ڈائرکٹر پلاننگ ایل شرما نے بتایا کہ ان کے یہاں سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے نام جو کاغذ گیا ہے، وہ کوئی ’حکم نامہ‘نہیں بلکہ ایک ’چٹھی‘ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی چٹھی کو غلط سمجھا گیا ہے۔ حالانکہ قربانی پر’کوئی پابندی عائد نہیں کی جا رہی ہے۔‘انہوں نے کہا کہ عید پر چونکہ بڑے پیمانے پر جانور ذبح کیے جاتے ہیں لہٰذا انہوں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو لکھا تھا کہ جانوروں کو مناسب طریقے سے ٹرانسپورٹ کیا جائے اور ان پر کوئی ظلم نہ ہونے پائے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ چٹھی ’معمول‘کے مطابق تھی اور اس کا مقصد قربانی کیلئے لیجائے جارہے جانوروں کی محفوظ ٹرانسپورٹیشن تھا۔
شرما کے دفتر کی جانب سے گزشتہ روز جاری ہونے والی’چٹھی‘میں متعلقہ حکام کو گائے، بچھڑے، اونٹ اور اس طرح کے دیگر جانوروں کی ’غیر قانونی ہلاکت‘اور قربانی روکنے کیلئے کہا گیا تھا۔ ظاہر ہے کہ عید سے محض چند روز قبل جاری ہونے والے اس حکم نامہ یا ’چٹھی‘کو قربانی پر پابندی سمجھا گیا اور مسلم اکثریت والے اس علاقہ میں اس سے ناراضگی کی لہر دوڑ گئی۔ جموں کشمیر کے علما کے ایک اتحادی کونسل نے بھی اس پر سخت رد عمل کا ااظہار کیا تھا اور عام لوگ بھی ناراضگی اور تشویش کا اظہار کرتے پھر رہے تھے۔ چنانچہ سوشل میڈیا پر اس حوالے سے کافی باتیں ہوئیں اور لوگ اس حکم نامہ یا چٹھی کو ’مداخلت فی الدین‘قرار دے رہے تھے۔ واضح رہے کہ مسلمان بقر عید پر ایک اہم مذہبی فریضہ کے بطور مختلف حلال جانوروں کو ذبح کرکے ان کا گوشت غریبوں یا رشتہ داروں میں تقسیم کرتے ہیں۔ بشیر احمد نامی ایک دکاندار نے کہا کہ ’سرکاری طور پر جاری ہونے والے حکم نے بڑی تشویش پیدا کی تھی، یہ میرے 70 سال کی عمر میں پہلی بار ہوتا کہ جب قربانی پر پابندی لگتی، میں نے پہلے کبھی بھی ایسا نہیں ہوتے دیکھا ہے‘، تاہم یہ بتائے جانے پر کہ سرکار نے اب وضاحت کی ہے، بشیر احمد نے کہا کہ ’اچھا ہوا کہ حاکموں کے ہوش ٹھکانے آگئے ورنہ مذہبی معاملات میں اس طرح کی مداخلت تشدد تک بھڑکاسکتی ہے۔‘

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS