نیا ہندوستان :مظلوم کے آنسوپوچھنا بھی جرم !

0

محمد فاروق اعظمی

گزشتہ چند برسوں میں ہندوستان میں بہت کچھ بدل گیاہے۔ سیاست سے لے کر معاشرت تک میں بھاری تبدیلی آئی ہے۔حق و انصاف کا پیمانہ بھی بدل گیا ہے۔ ظلم کو ظلم کہنے اور ظالم کا ہاتھ پکڑنا تو دور کی بات ہے، اب مظلوم کی اشک سوئی بھی قانون شکنی شمار ہونے لگی ہے۔ فریادی کی آہ و بکا پر تسلی اور تشفی کے دو بول بھی گراں گزرنے لگے ہیں۔ مظلوموں کی حمایت میں اٹھنے والی ہرآواز کو پابند کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔احترام آدمیت، حق و انصاف، جمہوریت، شخصی آزادی، مذہبی آزادی، روزگار اور زندہ رہنے کے حق پر شب خون مارنے والوں کی تازہ واردات دہلی میں 9 سال کی بچی کی بے حرمتی اور اس کا قتل کیے جانے کے وحشیانہ واقعہ کے حوالے سے سامنے آئی ہے۔ حکمراں پارٹی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ مقتول بچی کے اہل خانہ کو ڈھارس بندھانا اور ا ن کے آنسو پوچھنا قانون کی خلاف ورزی ہے اوراس پر کارروائی ہونی چاہیے۔9سال کی معصوم بچی کی عصمت دری اورا س کا قتل کیے جانے کی ظالمانہ اور وحشیانہ حرکت پر مکمل خاموشی اور مظلوم کی اشوک سوئی کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی دھمکی اسی ’نیا ہندوستان‘ میں ممکن ہوسکتی ہے، جسے بنانے کا بیڑابھارتیہ جنتاپارٹی نے اٹھایا ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے قومی دارالحکومت دہلی کے نانگل علاقے میں مبینہ طور پربے حرمتی اور قتل کی شکاردلت خاندان کی 9سال کی بچی کے اہل خانہ سے ملاقات کی، راہل گاندھی نے کہا کہ مقتول بچی کے گھر والوں سے بات کرنے کے بعد انہیںیہ محسوس ہوا کہ وہ صرف انصاف چاہتے ہیں۔ انہیں انصاف نہیں ملا اس لیے وہ مدد مانگتے ہیں۔انہیں یقین دلایا ہے کہ وہ ان کے ساتھ کھڑے ہیںاور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ متاثرہ خاندان کی مدد کرنا ان کا فرض ہے۔اصلاً راجستھان کے مذکورہ دلت خاندان کی یہ بچی دہلی کے نانگل میں اپنے گھر کے قریب واقع ایک شمشان گھاٹ میں لگائے گئے کولر سے پانی لینے کیلئے گئی تھی۔لیکن پھر وہ زندہ لوٹ کر نہیں آئی۔ بچی کے گھر سے نکلنے کے آدھے گھنٹے کے بعد اسی شمشان کا پجاری رادھے شیام دو تین افراد کے ساتھ اس بچی کی والد ہ کو بلاکر لایااور شمشان میں اس کی لاش دکھاتے ہوئے کہا کہ پانی لیتے ہوئے کولر میں بجلی آجانے سے بچی اس کی زد میں آخر ہلاک ہوگئی۔ اس کی لاش فوراً جلادینی چاہیے۔مقتول بچی کے والدین کا کہنا ہے کہ ان کی بچی کی بے حرمتی کی گئی اوراس کے بعد اس کا قتل کیاگیا۔ شواہد مٹانے کیلئے لاش کو فوراً جلایا بھی جانے لگا اور اس کام میں مجرموں کو علاقہ پولیس کی سرپرستی حاصل ہے۔مقتول بچی کے خاندان اور علاقہ کے مکینوں کا الزام ہے کہ پولیس کیس کو دبا کر مجرموں کو تحفظ دے رہی ہے۔ والدین اور علاقہ کے دیگر لوگوں کے احتجاج و مظاہرہ کے بعد جلنے کے دوران لاش کو چتا سے نکالاگیا اور اسے پوسٹ مارٹم کیلئے بھیج دیاگیا۔اسی واقعہ کی اطلاع ملنے پر راہل گاندھی وہاں گئے تھے اور مقتول بچی کے والدین سے ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات کی چند ایک تصویریں ٹوئیٹر پر جاری کی گئیں اور راہل گاندھی نے ان تصویروں کے ساتھ لکھاکہ والدین کے آنسو صرف ایک بات کہہ رہے ہیں کہ ان کی بیٹی ملک کی بیٹی ہے اور انصاف کی مستحق ہے۔ میں انصاف کے اس راستے پر ان کے ساتھ کھڑا ہوں۔

نـیـشـنـل کـرائـم بـیـورو کـی رپـورٹ کـے مـطـابـق 2019 کـے دوران ملک بـھـر مـیـںآبـروریـزی کـے کل 32033 واقـعـات رجسٹرڈ کیے گئـے تھـے یعنـی اس گھـنـاؤنـے جـرم کـی یـومـیـہ اوسط 88 ہـے اور ان مـیـں دہلـی جـہـاں کا نـظـم و نسـق سنبھالنے والی پولیس مرکز کے ماتحت ہے، نـمـایـاں مقام پر ہـے۔ اسی دہلی میں نربھیا جـیـسـا دل خـراش واقـعـہ بھی پیش آچـکا ہـے۔ مـرکـز کـی نـگرانـی مـیـں کام کـرنـے والی دہلی پولیس کی ناک کے نیچے ایسے گھناؤنـے جرائم کا پھلنا پـھـولـنـا مـرکـزی حکومت کـی صـریـحـاً نـاکامـی اور قـانون کـی عـمـل داری کیلئـے سنـگـیـن چـیـلـنـج ہـے۔

کہاجارہاہے کہ راہل گاندھی کی یہ حرکت خلاف قانون ہے۔ اس سلسلے میں پروٹیکشن آف چائلڈ فرام سیکسول اوفینس ایکٹ (پوسکو)یعنی بچوں کو جنسی جرائم سے محفوظ رکھنے کے قانون کی دفعہ23اور جووینائل جسٹس( کیئراینڈ پروٹیکشن ) ایکٹ 2015 یعنی بچوں کو انصاف (دیکھ بھال اور تحفظ) قانون کی دفعہ74کی دہائی بھی دی جارہی ہے جس میں کہاگیا ہے کہ متاثرہ کی شناخت ظاہر نہیں کی جانی چاہیے لیکن راہل گا ندھی نے مقتول بچی کے والدین سے ملاقات کی تصویر شیئر کرکے اس قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے ترجمان سمبت پاترا نے اسے فوراً ہی ایک سنگین مسئلہ بنا دیا۔ عصمت دری اور بعدازاں قتل کے وحشیانہ واقعہ پر بات کرنے، اس کی مذمت کرنے اور خاطی کو سزایاب کرانے کے سلسلے میں کچھ کہنے کے بجائے انہوں نے راہل گاندھی کو ہی ملزم کے کٹہرے میں کھڑا کرتے ہوئے تصویر شیئر کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ وہ تحفظ اطفال کے قومی کمیشن سے مطالبہ کررہے ہیں کہ وہ راہل گاندھی کے خلاف کارروائی کرے۔ ’عقل و دانش‘ میں یکتائے روزگار ترجمان نے اس کے ساتھ ان ریاستوں کے نام گنواکربچی کی بے حرمتی اور قتل کا جواز فراہم کر نے کی بھی مذموم کوشش کی ، جہاں کانگریس کی حکومتیں ہیں اور کہا کہ کیا راجستھان ، چھتیس گڑھ اور پنجاب کی دلت بیٹیاں ہندوستان کی نہیں ہیں؟
آبروریزی، قتل ، عورتوں کی بے حرمتی جیسے سنگین واقعات کا جواز فراہم کرنایہ وہ ذلیل ترین قسم کی سیاست ہے جو آج کے ’ نیاہندوستان‘ میں سکہ رائج الوقت ہوچلی ہے اور حکمراں جماعت اس کی کھلے عام سرپرستی کررہی ہے۔اسی کا نتیجہ ہے کہ اس کے ترجمان ا نتہائی بے شرمی اور ڈھٹائی کے ساتھ ایسے واقعات کا ’ دفاع‘ اور دوسری ریاستوں کے واقعات سے موازنہ کررہے ہیں۔
نیشنل کرائم بیورو کی رپورٹ کے مطابق 2019کے دوران ملک بھر میںآبروریزی کے کل 32033 واقعات رجسٹرڈ کیے گئے تھے یعنی اس گھنائونے جرم کی یومیہ اوسط 88ہے اور ان میں دہلی جہاں کا نظم و نسق سنبھالنے والی پولیس مرکز کے ماتحت ہے ، نمایاں مقام پر ہے۔اسی دہلی میں نربھیا جیسا دل خراش واقعہ بھی پیش آچکا ہے۔ مرکز کی نگرانی میں کام کرنے والی دہلی پولیس کی ناک کے نیچے ایسے گھنائونے جرائم کا پھلناپھولنا مرکزی حکومت کی صریحاً ناکامی اور قانون کی عمل داری کیلئے سنگین چیلنج ہے۔ ہو نا تو یہ چاہیے تھا کہ متاثرین کو انصاف کی فوری فراہمی، قاتلوں اور زانیوں کو سزایاب اور معاشرہ کو خواتین کیلئے محفوظ بنانے کی سمت کام کیا جاتا لیکن ایسا لگتا ہے کہ ایسے اقدامات حکومت کے ایجنڈ ے میں ہی نہیں ہیں۔’ بیٹی پڑھائو، بیٹی بچائو‘ سے لے کر ٹوکیو اولمپکس میں ہندوستانی خواتین کی نمایاں کارکردگی کے بعد ’ ہماری بیٹیاں، بھارت کی بیٹیاں‘ کا ورد کرنے والوں کے نزدیک بیٹیوں سے وحشیانہ سلوک اور ان کا قتل بھی قابل جواز ہے اور ان کی حکومت میں ہونے والے جرم پر داد و فریاد بھی جرم ہے۔اگر یہی ’ نیا ہندوستان ‘ ہے تو پھر اس نیا ہندوستان کا خدا ہی حافظ ہے!
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS