بورڈ کی نئی مجلس عاملہ: مبارک باد اور گزارشات: سیف الرحمن

0

سیف الرحمن
گزشتہ کئی ہفتوں سے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی نئی مجلس عاملہ کو لے کر مباحثہ جاری تھی، 3 جون کو صدر اور دیگر ممبرانِ مجلس عاملہ کے انتخاب سے اس پر روک لگ گئی، البتہ تبصرہ ، تنقید، اور جشن انتخاب تا ہنوز جاری ہے۔خوشی کی بات یہ ہے کہ ایک نئی توانا قیادت بورڈ نے عوام کے سامنے پیش کی ہے۔ فقیہ العصر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب کو صدارت کی ذمّہ داری سونپی گئی ہے، فضل الرحیم مجددی صاحب بطورِ جنرل سکریٹری منتخب ہوئے ہیں، امیر جماعت اسلامی سعادت اللّٰہ حسینی و سید شاہ خسرو حسینی دونوں کے نام کا یقیناً نائبین صدر کی فہرست میں اضافہ وقت کی آواز پر لبیک کہنے جیسا ہے۔،ان کے علاوہ ندوۃ العلماء لکھنؤ کے ناظم مولانا بلال عبدالحئی حسنی اور دو نوجوان قائد یعنی امیر شریعت احمد ولی فیصل رحمانی و یاسین علی عثمانی کا بطور سکریٹری انتخاب عمل میں آیا ہے۔ کمال فاروقی کو معاون ترجمان کی زمہ داری دی گئی ہے۔ جب کہ پہلے سے مولانا ارشد مدنی،پرفیسر سید علی محمد نقوی و کاکا سعید عمری نائبین صدر کی اور مولانا عمرین محفوظ رحمانی سکریٹری و قاسم رسول الیاس پہلے ہی سے بطورِ ترجمان خدمات انجام دے رہے ہیں ،اس طرح بورڈ تمام مسالک کی مضبوط نمائندگی اور بزرگ و نوجوان دونوں طرح کے تجربہ کار و توانا قائدین پر مبنی قیادت پر مشتمل ہے،لہذٰا میں تمام نو منتخب عہدیداران و بورڈ کے تمام اراکین کو اس حسن انتخاب پر مبارک باد اور نیک خواہشات پیش کرتا ہوں اور اس موقع پر اپنی گزارشات پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔
بورڈ 1973 میں قائم ہوا۔اسے کئی نشیب و فراز سے گزرنا پڑا۔ بورڈ جن چیلنجز کو سامنے رکھتے ہوئے قائم ہوا تھا آج اْن چیلنجز میں مزید کئی گنا زیادہ اضافہ ہو چکا ہے۔ طلاق ثلاثہ کے مسئلہ سے لے کر حجاب معاملہ ہو یا ہر روز کسی مسجد کو نئی بابری مسجد بنائے جانے کا مسئلہ ہو تو اوقاف کے تحفظ اور حلالہ کی ہنگامہ آرائی ، اندرونی طور پر مذہب بیزاری اور ارتداد کی تیز لہر جیسے مسائل بڑی مضبوطی سے ہمارے سامنے منہ پھاڑے کھڑے ہیں ،لہٰذا بورڈ کے ذمّہ داران کو چاہیے کہ موجودہ وقت کے تمام مسائل کا تفصیلی جائزہ لے اور قیام بورڈ سے اب تک کی تمام کامیابیوں و ناکامیوں کا ایماندارانہ تجزیہ کرکے نئے سرے سے منصوبہ بندی کرتے ہوئے پوری مضبوطی سے میدان عمل میں آئیں، میری چند گزارشات یہ ہیں۔ امید ہے کہ اسے قابلِ غور سمجھا جائے گا۔
1-بورڈ کی میٹنگ ہر ماہ منعقد کی جائے: آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ جیسے اہم ادارے کا کام کئی کئی مہینے پر ہونے والی مشاورت کے منصوبوں سے انجام نہیں دیا جا سکتا۔ضرورت ہے کہ بورڈ اپنے کام کی اہمیت کو سامنے رکھتے ہوئے ہر مہینے تفصیلی آف لائن میٹنگس کی شروعات کرے۔
2- صوبائی مجلس عاملہ کا قیام اور قومی مجلس عاملہ کے ارکان میں اضافہ : ماضی میں بورڈ کے سامنے جو مسائل تھے وہ کم اور مرکز کی سطح پر سمٹے ہوئے تھے۔ لیکن آج ہر ایک صوبے میں روز نئے قانونی مسائل سامنے آتے رہتے ہیں جیسا کہ ابھی حجاب معاملہ میں کرناٹک کے بعد مہاراشٹرا،بہار،راجستھان،دہلی،مدھیہ پردیش سمیت دِیگر ریاستوں میں کئی کئی مقامات پر حجاب پر روک تھام کا معاملہ سامنے آنے آیا۔ ایسے حالات کا مقابلہ صوبائی سطح پر ہی کیا جا سکتا ہے۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب بورڈ کی اپنی صوبائی ٹیم موجود ہو جو کہ ان جیسے معاملات کا جائزہ لے کر امکانات کی مطابق انڈور و آؤٹڈور جددوجہد کر کرے و ضروری مہمات و احتجاجات منعقد کرے، اور جو مسئلہ درپیش ہو اْس کو اور ان جیسے تمام موجود اور ممکنہ مسائل کو لے کر گاؤں گاؤں کی سطح تک لیگل کونسلنگ کا کام انجام دے،اسی طرح داخلی طور پر مذہب بیزاری و ارتداد کا اور دیگر جو مسائل ہیں اْس پر حقیقی زمینی کام تبھی ممکن ہے جب کہ صوبائی سطح پر مجلس عاملہ موجود ہو ورنہ بورڈ کے اب تک کے اصلاحی مہمات کی صورتحال کیا رہی ہے وہ ہم خود بہتر طریقے سے جانتے ہیں! اس کے علاوہ ضرورت یہ بھی ہے کہ نوجوان صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے و مضبوط سیکنڈ لیئر لیڈرشپ تیار کرنے کیلئے مختلف شعبوں میں متحرک مخلص نوجوانوں کو لیکر بورڈ کی مجلس عاملہ کو اور توسیع دیا جائے ، اس کیلئے مجلس عاملہ کی تعداد 80 ارکان تک کیا جانا چاہیے۔
3- قومی سطح پر لیگل ایڈوائزری کونسل اور قومی و صوبائی سطح پر لیگل ونگ کا قیام عمل میں لایا جائے: آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے اپنے قیام سے لے کر اب تک کئی اہم معاملات میں قانونی جیت حاصل کرکے مْسلمانوں کے آئینی قانونی حقوق کی پاسداری کی ہے لیکن ساتھ ہی کئی معاملات میں بڑی شکشت کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے اور آج اْن تمام معاملات جیسے درجنوں مسائل ایک ساتھ آکر کھڑے ہیں جس میں آنے والے دنوں میں مزید اضافے کی اْمّید ہے، لہٰذا ماضی کے تجربات و مستقبل کے امکانات کو سامنے رکھتے ہوئے ملک کے ماہر وکلاء پر مبنی ایک لیگل ایڈوائزری کونسل تشکیل دی جائے جس میں تمام ماہر لبرل و سیکولر وکلاء کو ساتھ لینے کی کوشش ہو، تو وہیں لیگل ایڈوائزری کونسل کے ساتھ ہی اپنی لیگل ٹیم بھی قومی سطح پر و تمام ریاستوں میں صوبائی سطح پر تشکیل دی جائے جس میں اپنے مخلص و متحرک وکلاء کو رکھ کر اْنکی تربیت بھی کے جائے اور نچلی سطح تک کے قانونی چیلنجز کا مقابلہ بھی کیا جائے
4- بڑے بڑے اجلاس و پوسٹر بازی پر مبنی مہمات کی جگہ اصلاح معاشرہ کی زمینی کوششیں: آج ملت اسلامیہ ہندیہ کی داخلی صورتحال خطرناک شکل اختیار کر چکی ہے ،تعلیم یافتہ مسلمانوں سے لے کر عام مسلمانوں تک کے بیچ مذہب بیزاری عام ہوتا جا رہا ہے اور اسی مذہب بیزاری کی وجہ سے ارتداد کی ایک ہوا بھی ہر طرف چل پڑی ہے جس پر مضامین کے انبار لگتے جا رہے ہیں، عقیدے و نظریہ کی پکڑ بالکل ختم نظر آرہی ہے ،اور ان سب کے ساتھ ہی ملت اسلامیہ ہندیہ میں اخلاقی گراوٹ بھی بہت زیادہ ہے جس میں ہم نشہ و زنا کو بالکل نارملائزڈ ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ لہذٰا ایسے میں لازمی ہوگیا ہے کہ اب مضبوط منصوبہ کے ساتھ زمینی سطح پر اصلاحی کام کیا جائے، لہٰذا ہمیں چاہئے کہ بڑے بڑے اجلاس پر جسکا زمینی کوئی فائدہ نہیں سوائے اس کے کہ کروڑوں روپے پانی کی طرح بہ جاتے ہیں اور مسلم مخالف طاقتوں کو پروپیگنڈہ کے مواقع بھی میسر آ جاتے ہیں ، اْن پر روک لگا کر نئے زمانے کے پروفیشنل انداز میں مائکرو سطح تک اصلاح کا نیا طریقہ وضع کیا جائے جس میں ورک شاپس ،فیملی کونسلنگ، فیملی میٹس،خواتین میٹس، پری میرج کونسلنگ جیسے پروگرامس ہو، اور اس سلسلے میں جنگی سطح پر مضبوط اقدامات کیے جائیں تاکہ ملت کو اخلاقی تنزلی سے لے کر عقائد و فکر کے معاملات میں مضبوط اور سماجی و قانونی سطح پر مضبوط اور با وقار بنایا جا سکے ۔
5- آئی.ٹی سیل کے قیام،میڈیا ایکسپرٹ بنانے اور میڈیا کے مثبت استمال کی پلاننگ: آج مسلمانوں کے عائلی مسائل پر حملے بس قانون سازی و انتظامیہ کی بدمعاشیوں کے ذریعے نہیں بلکہ میڈیا پروپیگنڈے اور سوشل میڈیا نریٹو کے ذریعے بھی ہو رہا ہے ،جس کا حل عام طور پر یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ ہمیں میڈیا سے دوری اختیار کر لینی چاہیے ، جبکہ ذرائع ابلاغ کے ماہرین اس سے ہرگز اتفاق نہیں رکھ سکتے۔ کیونکہ ایسا کرکے ہم صرف اْن کے راستے کو آسان کرتے ہیں جوجھوٹ کی ہوا چلا کر ایک طرف غیر مسلم دنیا کو اسلام و مسلمان سے نفرت کر دینے پر مجبور کر دینا چاہ رہے ہیں تو وہیں خود کچّے مسلمان ذہنوں میں شبہات پیدا کرکے مذہب بیزاری و ارتداد کا راستہ کھول دینا چاہ رہے ہیں ،لہٰذا ضروری و لازمی ہے کہ میڈیا ایکسپرٹس کی مدد لے کر دینی و عصری دونوں علوم سے تعلق رکھنے والے ایک بڑی تعداد کی اس طرح تربیت کی جائے کہ وہ مین اسٹریم میڈیا کا مضبوطی سے جواب دے سکے اور پروپیگنڈے کو لگام لگانے کا کام کرے۔ ساتھ ہی ایسے ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارمس جو کہ آزاد ادارے ہیں یا خود مسلمانوں کے ذریعے چلائے جا رہے ہیں اور ایسے اخبارات و ٹی.وی چینل سے رشتے استوار کرکے منظم انداز میں پروپیگنڈے کا مقابلہ کیا جانا چاہیے اور اس پر مسلسل کام ہوتے رہنا چاہیے ، ان تمام کے ساتھ ہی ہمیں یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ آج سوشل میڈیا وہ سب سے بڑا زریعہ ہے جو کہ اسلام و مسلمانوں کی شناخت خراب کرنے میں معاون ثابت ہوا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس پر گندے ذہن کے لوگ حاوی ہیں۔ اس کا ازالہ صرف اور صرف میڈیا تھیوریز کو سامنے رکھتے ہوئے مضبوط طریقے سے نیریٹوز کا مقابلہ کرنے اور اپنے نیریٹوز کو عام کرنے کے ذریعے ہی کیا جا سکتا ہے۔خاموشی یا کناری کشی حقیقی حل نہیں ،لہٰذا آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ جوکہ گزشتہ چند سالوں میں سوشل میڈیا پر بہت متحرک رہی ہے، اب اْسے چاہئے کہ ماہرین کی مدد لے کر پیشہ وارانہ لیک مخلص اور مضبوط آئی.ٹی سیل کا قیام کرے ،نہیں تو یقین جانیے کہ اگر آج ایسے اقدامات نہیں کئے گئے تو مستقبل میں ارتداد کا فتنہ گھر گھر تک پہنچے گا، زنا و نشہ سمیت تمام غیر اخلاقی اطوار جو کہ آج ملت میں پس پردہ عام ہوتے جارہے ہیں کھلے طور پر پورے مسلم معاشرہ کو چیپٹ میں لے لے گا۔
6- دار القضا ء کا قیام: آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ذریعے بہت سے دار القضاء چل رہے ہیں اور چند سال پہلے بورڈ نے فیصلہ کیا تھا کہ ملک بھر میں دار القضاء کا قیام کریگی، لیکن میڈیا پروپیگنڈے کے بعد شاید یہ منصوبہ ٹھنڈے بستے میں ہی چلا گیا، لیکن اب وقت ہے کہ پورے ملک میں دار القضاء کا جال بچھایا جائے اور اس کیلئے اپنے پرانے تجربات کے ساتھ ہی دِیگر اور ادارے جو کہ دار القضاء چلا رہے ہیں اْن کے تجربات سے بھی فائدہ اٹھایا جائے خاص طور پر امارت شرعیہ بہار اڑیسہ جھاڑکھنڈ کے تجربہ کو سامنے رکھا جائے، اور کوشش کی جائے کہ پورے ملک میں دار القضاء آزاد ہو نہ کہ الگ الگ مدارس کے زیر انتظام ہو اور اس دار القضاء کے نظام میں وکلاء کی خدمات بھی حاصل ہو۔ان کا کام فیصلوں میں قاضیوں کی قانونی مدد کرنے کے ساتھ ہی ملکی عدالتوں میں دار القضاء کے فیصلوں کے حق میں لڑائی لڑنا ہو ،مثلاً اگر شوہر کے ظلم سے پریشان ایک مظلوم عورت دار القضاء میں آئے اور دار القضاء￿ کے فیصلے کو ظالم شوہر ماننے سے انکار کر دے تو دار القضاء کے وکیل دار القضاء کی طرف سے اْس عورت کی لڑائی کو عدالت میں لڑ کر اْسے اِنصاف دلائے اور دار القضاء کو حقیقت میں مضبوط دار القضاء بنانے کا کردار نبھا سکے۔
7- ائمہ مساجد کو چینلائزڈ کِیا جائے: آل انڈیا مسلم پرسنل لاء￿ بورڈ ملت اسلامیہ ہندیہ کے پرسنل لاء پر خارجی حملوں سے مقابلہ اور داخلی طور پر نظریات کی حفاظت کے لئے کام کرنے والا ادارہ ہے تو اس سلسلے میں مساجد ہمارے پاس سب سے مضبوط میڈیم ہے ، لہٰذا پرسنل لاء بورڈ کو چاہیے کہ ملک بھر کے ائمہ کرام کا چینل سسٹم کے ساتھ ایک نظام بنایا جائے جس میں اْنکی تربیت بھی ہو کہ وہ تمام طرح کے پروپیگنڈے و نظریاتی حملوں کا مساجد کے منبر سے مقابلہ کرنے کے لائق بنے اور اصلاح معاشرہ کا کام موجودہ زبان و مزاج کے مْطابق انجام دے سکے ،اس نظام کے تحت جمعہ خطبہ کیلئے مواد فراہمی کا کام بھی ہو جو کہ بس کاغذات و رپورٹ تک نہ رہے بلکہ ہر جمعہ کو یقینی طور پر ہر مسجد تک پہنچ سکے
8-لیٹریچر کی تیاری: آج ہمارے عائلی مسائل کو لیکر جس طرح کے حملے ہے اْس میں صرف مقدمات لڑ لینے سے کام نہیں ہوگا، بلکہ ہمیں یہ بھی جاننا ہوگا کہ آج ایک ایسی کتاب نہیں ملتی جو کہ ایک وکیل بلکہ ایک مسلم وکیل کو بھی ہمارے عائلی مسائل کو بہتر انداز میں سمجھا سکے، غلط پروپیگنڈہ کے نتیجے میں غیر مسلم خواص و عام کے ساتھ خود مسلم اذہان پر بہت زیادہ منفی اثر پڑ رہا ہے۔ لہٰذا ضرورت ہے کہ چھوٹے چھوٹے پمفلٹس سے لے کر کتابوں تک کی شکل میں عام مسلمانوں،تعلیم یافتہ مسلمانوں،عام غیر مسلموں، خاص غیر مسلم حضرات،ممبران پارلیمنٹ، وکلاء اور تمام طبقات کیلئے الگ الگ مواد تیار کیا جائے اور متعلقہ افراد تک پہونچانے کی منصوبہ بند کوششیں بھی کی جائے۔
9-بورڈ خود کفیل بنے: کوئی بھی اصلاحی و تعمیری کام اپنے ساتھ معاشی مسائل رکھتا ہے اور یہ دنیا کی سچائی ہے کہ کوئی بھی جنگ تربیت یافتہ پروفیشنل افواج کے دم پر ہی لڑی جا سکتی ہے یہاں تک کہ اسلام نے مجاہدین اسلام کیلئے بھی مال غنیمت کا نظام رکھاہے جو کہ صحابہ کرام کے بیچ بھی رائج رہا اور بہتر مال کے طور پر مال غنیمت کو دیکھا جاتا تھا ،مگر ایک المیہ ہے کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ اب تک اپنے انکم کا نظام نہیں بنا سکا جو بیحد افسوسناک ہے ،ماضی میں اسلاف نے کیوں اْس سے پرہیز کیا یہ نہیں معلوم اور یقیناً اْنہوں نے اس وقت کے حالات میں جو بہتر سمجھا وہ کیا ،لیکن آج بورڈ کا کام جتنا وسیع ہو چکا اور ملت اسلامیہ ہندیہ کو بورڈ سے جتنی زیادہ توقعات وابستہ ہو چکی ہیں اْس میں اب یہ لازمی ہو چکا ہے کہ اب انکم کا باضابطہ نظام بنایا جائے جس میں ملک بھر میں لاکھوں مستقل ڈونر بنائے جائیں اور سینکڑوں پراپرٹی بنا کر اْس سے انکم کا سسٹم بنایا جائے، پورے مالی نظام کو اِسلامی تعلیمات کے مطابق شفاف رکھا جائے , اگر ایسا مضبوط سسٹم بنایا جائے تو بورڈ درجنوں نہیں بلکہ سینکڑوں قانونی معاملات کو بہتر طریقے سے لڑنیکے لائق ہو جائیگا اور دار القضاء ،آئی.ٹی سیل و زمینی سطح پر حقیقی اصلاح معاشرہ کے کام کا خواب شرمندہ تعبیر ہو پائے گا۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS