داغ اچھے نہیں ہیں

0

 امریکہ کے صدارتی عہدہ سے ڈونالڈ ٹرمپ کا رسمی الوداعیہ چار سال کی ان کی مدت کار کی طرح ہی متنازع ثابت ہورہا ہے۔ امریکہ میں روایتی طور سے 20جنوری کو اقتدار کی منتقلی ہوتی ہے اور اس سے عین قبل ٹرمپ کے ساتھ ایک اور بکھیڑا منسلک ہوگیا ہے۔ امریکی کانگریس نے دفاعی خرچ فنڈ پر ٹرمپ کے ویٹو کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ بتاتے ہوئے خارج کردیا ہے۔ ٹرمپ کے دوراقتدار میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے، ان کے پچھلے آٹھوں ویٹو متاثر رہے تھے۔ امریکی سینیٹ نے 81-13یعنی صدر کے ویٹو کو خارج کرنے کے لیے ضروری دوتہائی اکثریت سے بھی زیادہ طاقت سے ٹرمپ کی مخالفت کی ہے۔
نومبر کے پہلے ہفتہ میں صدارتی الیکشن میں شکست کے بعد بھی امریکہ کئی مواقع پر ٹرمپ کو خارج کرچکا ہے، لیکن ٹرمپ معلوم نہیں کس مٹی کے بنے ہیں کہ وہائٹ ہاؤس کی گدی پر جمے رہنے کے لیے آئے دن کوئی نہ کوئی نیا پینترا آزما رہے ہیں۔ سپریم کورٹ میں اپیل خارج ہونے اور الیکٹورل کالج میں نئے صدر جو بائیڈن کی حمایت میں اکثریت آنے کے بعد دنیا بھلے ہی چین کی سانس لے رہی ہو، لیکن امریکہ ابھی بھی اپنے مستقبل کے تئیں پراعتماد نظر نہیں آرہا ہے۔
صدارتی عہدہ کو ’ہڑپنے‘ کے ٹرمپ کے داؤ بھلے ہی ایک کے بعد ایک ناکام ہوتے جارہے ہوں، لیکن داؤپیچ کے اس کھیل سے امریکی عوام کے ایک طبقہ کے ساتھ ہی ریپبلکن پارٹی پر ٹرمپ نے اپنا قبضہ جما لیا ہے۔ حمایتوں کے اس گروپ کے لیے 3نومبر کو انتخابی شکست کے بعد سے ان کی حصولیابیاں بے حد ’متاثرکن‘ ہیں۔ الیکشن ڈیفنس فنڈ کے نام پر ٹرمپ نے ریپبلکن حامیوں سے 170ملین ڈالر سے زیادہ کا چندہ حاصل کرلیا ہے۔ وہ ریپبلکن پارٹی پر اپنے دبدبے کو ثابت کرنے کا کوئی موقع نہیں گنوا رہے ہیں۔ زیادہ تر ریپبلکن ابھی بھی الیکشن میں ہیراپھیری کے ان کے پروپیگنڈے کی حمایت کررہے ہیں۔ جو بچ گئے ہیں، انہوں نے حیران کرنے والی خاموشی اوڑھ رکھی ہے۔ کل تک جو ریپبلکن لیڈر وہائٹ ہاؤس میں ان کے اکھڑپن کو کھاد-پانی دیتے تھے، وہی اب ان کے ڈیموکریٹ مخالف جذبات کو ہوا دینے کا کام کررہے ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ کا تازہ سروے بتاتا ہے کہ ہاؤس آف ریپرزنٹیٹو اور سینیٹ کے لیے منتخب ہوئے کل 249ریپبلکن ممبران پارلیمنٹ میں سے اب تک صرف 29نے بائیڈن کی فتح کو تسلیم کیا ہے، 220کو اب بھی ٹرمپ کی اسٹوری میں ڈرامائی کلائمیکس کا یقین ہے۔
حالات اس قدر بگڑ چکے ہیں کہ جیسے جیسے 20جنوری کی تاریخ نزدیک آرہی ہے، ویسے ویسے عام امریکی کسی انجانے خوف کی گرفت میں جاتا نظر آرہا ہے۔ زیادہ تر امریکیوں کو اندیشہ ہے کہ اس تاریخ کے آس پاس ٹرمپ حامی امریکہ میں بڑے پیمانہ پر تشدد کرسکتے ہیں۔ صدارتی الیکشن کے دوران کچھ الیکشن افسران کو جان سے مارنے کی دھمکیاں مل رہی تھیں۔ کچھ دن پہلے ہی ٹرمپ کے مبینہ مسلح حامیوں نے مشی گن کے سکریٹری آف اسٹیٹ کے گھر کا محاصرہ کرلیا تھا۔ ٹرمپ کو صدر بنائے رکھنے کے لیے ایریجونا میں ریپبلکن پارٹی اپنے حامیوں کو کھلے عام خودکشی کے راستہ پر جانے کے لیے اکسا رہی ہے۔ ڈر کی ایک بڑی وجہ ٹرمپ کا حالیہ بیان بھی ہے جس میں انہوں نے 2024میں دوبارہ الیکشن لڑنے کی بات کہی ہے۔ امریکہ کا دائیں بازو کا میڈیا-جن میں ایسے کئی بڑے نیوزچینل شامل ہیں جنہوں نے ٹرمپ انتظامیہ میں اپنی کمائی میں کئی گنا اضافہ کیا ہے۔ ان ساری کوششوں کو اخلاقیات کا عملی جامہ پہنانے میں مصروف ہے۔
شہ مات کے اس کھیل میں فاتح کی شبیہ بھلے ہی واضح ہوچکی ہو، لیکن ٹرمپ کی ہٹ دھرمی سے امریکہ کو بڑا نقصان اٹھانا پڑرہا ہے۔ کورونا وبا سے نمٹنے میں ان کے عدم استحکام نے پہلے معیشت کو تباہ کیا اور اب انتخابی شکست کے بعد ان کی بچکانہ حرکتوں نے جمہوری اقدار کے سب سے بڑے ماسٹر ہونے کی امریکہ کی پہچان کو تار-تار کردیا ہے۔ اس سب کے بیچ اقتدار کو بچانے کے لیے سطحی قوم پرستی کے نام پر ٹرمپ نے جس طرح اپنے ملک کو تقسیم کرنے کا کام کیا، اس نے امریکہ کی مشہور آزادخیالی کی وراثت کو بھی داغدار بنادیا۔
امریکہ میں چل رہی اس اٹھاپٹک میں چین سب بڑا فائدہ اٹھانے والا بن کر ابھرا ہے۔ کورونا وبا کے عروج سے پہلے ہی چین امریکہ کے رتبہ کو کم کرنے پر آمادہ تھا۔ بیشک 1776سے 1990کی دہائی کے وسط تک امریکہ نے دنیا پر یکطرفہ بادشاہت قائم رکھی ہو، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ بیسویں صدی کا چین سرد جنگ کے سوویت یونین سے کہیں زیادہ طاقتور نکلا۔ اسی لیے نئی صدی میں چین کا بہی-کھاتہ (لیجر اکاؤنٹ) امریکہ سے زیادہ بہتر نظر آتا ہے۔ نہ صرف اس کی معیشت جلد ہی امریکہ سے بڑی ہونے جارہی ہے، بلکہ اس نے اپنی ڈیجیٹل کرنسی یوآن کو ہتھیار بناکر ڈالر کو بھی پست کرنے کی تیاری کرلی ہے۔ کورونا دور میں بھی دنیا کی اکلوتی مثبت رجحان والی معیشت کے دم پر چین نے امریکہ سے کوئی معاشی یا اسٹرٹیجک وار کیے بغیر ہی عالمی توازن کو اپنے حق میں کرلیا ہے۔
ان واقعات سے اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ جب کام کاج شروع کرے گی تو امریکہ کو اس صورتحال سے نکالنے کیلئے اسے ایسے دوستوں کی تلاش ہوگی، جو چین سے حساب برابر کرنے کیلئے اس کے کندھے سے کندھا ملاکر کام کرسکیں۔ ہندوستان اپنے سائز، آبادی، جغرافیائی حالت اور حالیہ ترقی کے دم پر اس کام کیلئے سب سے موزوں کردار ثابت ہوسکتا ہے۔ چین سے متعلق دونوں ممالک کی مشترکہ تشویشات بھی ہیں۔ بحراوقیانوس اور چینی سمندر میں اس کا بڑھتا دخل دونوں ممالک پر دباؤ بڑھا رہا ہے۔
ہندوستان سے تعاون بڑھانے میں امریکہ کتنا آگے جائے گا، یہ بہت کچھ ہمارے تئیں بائیڈن کے رُخ پر بھی منحصر کرے گا۔ سینیٹ میں اپنی لمبی مدت کار کے دوران بائیڈن ہند-امریکی کمیونٹی کے حامی رہے ہیں۔ ایل اے سی پر ہند-چین تعطل کے دوران انہوں نے بھی ٹرمپ کی طرح چین کی جارحانہ اور توسیع پسندانہ پالیسیوں پرتنقید کی تھی۔ بائیڈن اس سوچ کے حامی رہے ہیں کہ ہندوستان اور امریکہ کے بغیر کوئی بھی مشترکہ عالمی چیلنج حل نہیں کیا جاسکتا۔ وہ ہندوستان کے دفاع اور دہشت گردی مخالف صلاحیتوں کو مضبوط کرنے اور کاروبار، صحت، اعلیٰ تعلیم، خلائی تلاش اور انسانی راحت جیسے شعبوں میں تعاون کرنے کی بات بھی کہہ چکے ہیں۔ حالاں کہ جموں کشمیر، دفعہ-370، این آر سی-سی اے اے، مذہبی آزادی ایسے مسئلے ہیں، جن پر ٹرمپ انتظامیہ زیادہ تر غیرجانبدار رہتی تھی، لیکن ڈیموکریٹ اس پر سخت ردعمل ظاہر کرتے رہے ہیں۔ کملا ہیرس کے نائب صدر کے عہدہ پر ہونے سے اس سوچ میں کوئی فرق پیدا ہوگا، ایسا نہیں لگتا، لیکن پھر بھی ان کے ہندنژاد ہونے کی علامتی اہمیت تو ہے ہی۔
سوال کئی ہیں اور ہوسکتا ہے کہ جواب کے لیے 20جنوری کے بعد بھی طویل انتظار کرنا پڑے۔ فی الحال تو سب سے بڑا سوال یہی ہے کہ کیا نئی شروعات کے لیے بائیڈن کے راستے کے سبھی کانٹے دور ہوگئے ہیں، کیا تختہ پلٹ کے لیے ٹرمپ کی جھولی کے سارے داؤ ختم ہوگئے ہیں، یا پھر امریکہ کے دامن پر اب بھی نئے داغ لگنے باقی ہیں؟
(کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے 
سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں)
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS