چھوٹا چناؤ، بڑا بدلاؤ

0

 میونسپل  الیکشن کو روایتی طور پر بنیادی ایشوز پر مقامی لوگوں کا فیصلہ سمجھاجاتا ہے۔ عام طور پر اس کا ریاست یا ملک تو دور، متعلقہ ضلع کی سیاست سے بھی کوئی خاص تعلق منسلک کرکے نہیں دیکھا جاتا۔ اس لحاظ سے گریٹر حیدرآباد میونسپل الیکشن انوکھے کہے جاسکتے ہیں، کیوں کہ اس نے ایک طرف روایتی سوچ کو توڑا ہے تو دوسری طرف سیاسی سروکاروں میں نئی تعریف کو جوڑا ہے۔
اسدالدین اویسی کے گڑھ میں بی جے پی نے 48وارڈ فتح کرکے ان کی پارٹی اے آئی ایم آئی ایم کو تیسرے نمبر پر دھکیل دیا ہے۔ کے چندرشیکھر راؤ کی پارٹی ٹی آر ایس 55وارڈ میں جیت کے ساتھ پہلے نمبر پر قابض رہی، جب کہ اویسی کو 44وارڈ کے لوگوں کا ساتھ ملا۔ چار سال قبل 2016کے الیکشن میں ٹی آر ایس نے 99اور اے آئی ایم آئی ایم نے 44وارڈ میں کامیابی حاصل کی تھی۔ تب بی جے پی بڑی مشکل سے چار وارڈ میں ہی جیت پائی تھی۔
اس تبدیلی میں تین چار ایسی بڑی باتیں ہوئی ہیں جن کی بنیاد پر یہ اندازہ ہے کہ اس کے بعد حیدرآباد ہی نہیں، بلکہ تلنگانہ سمیت دوسری ریاستوں اور ملک کی سیاست بھی بدل سکتی ہے۔ پہلا تو یہ کہ چار سے 48وارڈ کا سفر طے کرکے کیا بی جے پی نے جنوب میں اپنے لیے ایک نئی منزل کا راستہ کھول لیا ہے۔ بی جے پی کے لیے ہندوستان کی سیاست برسوں سے دو خانوںمیں تقسیم ہوئی نظر آتی ہے۔ شمالی ہندوستان کی ہندی بلٹ میں جہاں اس کا کافی اثر نظر آتا ہے، وہیں کرناٹک کو چھوڑ کر باقی جنوبی ریاستیں ہمیشہ سے اس کے ساتھ ’پردیسیوں‘ جیسا برتاؤ کرتی رہی ہیں۔ اپنی تشکیل کی چوتھی دہائی میں بھی بی جے پی کا کیرالہ، تمل ناڈو، آندھراپردیش اور تلنگانہ میں بے حد معمولی اثر ہے اور یہاں جو جیت ملتی رہی ہے وہ مقامی پارٹیوں کے ساتھ گٹھ بندھن کی بدولت ملتی رہی ہے۔ لیکن اس مرتبہ بی جے پی نے اپنے اکیلے دم سے کچھ کرنے کی ٹھانی، الیکشن کو وقار کی جنگ بنایا اور میونسپل الیکشن میں وزیرداخلہ امت شاہ، بی جے پی صدر جے پی نڈا، اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ سمیت کئی بڑے لیڈروں کی فوج اُتار دی۔ نتیجہ سامنے ہے- تلنگانہ میں اقتدار بھلے ابھی بھی بی جے پی سے دور رہے، لیکن یہ جیت اہم اپوزیشن پارٹی کا عہدہ حاصل کرنے کی امید ضرور بن سکتی ہے۔ تلنگانہ میں چندرشیکھر راؤ اور اویسی کا گٹھ بندھن کوئی راز نہیں ہے۔ نئی ریاست بننے کے بعد چندربابو کی مقبولیت حاشیہ پر جاچکی ہے، بچی کانگریس تو باقی ملک کی طرح اس کا تلنگانہ میں بھی برا حال ہے۔ 2014 میں جب تلنگانہ ریاست بنی تو کانگریس کو امید تھی کہ نئی ریاست بنانے کا اسے فائدہ ملے گا، لیکن جیت کا انعام ٹی آر ایس لے اڑی۔ گزشتہ لوک سبھا انتخابات میں کانگریس بھی بی جے پی کی طرح 21اسمبلی حلقوں میں آگے رہی، لیکن اسے2018کے اسمبلی الیکشن سے جوڑیں تو بی جے پی نے 20نئی سیٹوں پر سبقت حاصل کی، جب کہ کانگریس صرف دو نئی سیٹوں پر آگے نکل پائی۔
میونسپل الیکشن میں بھی تشہیر پوری طرح سے بی جے پی اور اویسی پر ہی مرکوز نظر آئی۔ اس لحاظ سے ٹی آر ایس کا حال بھی کانگریس جیسا رہا۔ ٹی آر ایس بھلے سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری، لیکن 99سے گر کر 55پر اٹکنا اس کے لیے بڑا جھٹکا ہے۔ میونسپل کے اقتدار کے لیے چندرشیکھر راؤ کو اب راست طور پر اویسی کے بھروسے رہنا ہوگا۔
چار سال پہلے اے آئی ایم آئی ایم کی جیت کا عدد 44تھا جو اس مرتبہ بھی برقرار رہا۔ بی جے پی کی آندھی بھی اویسی کو اپنی زمین سے نہیں ہلا سکی ہے اور یہی اس الیکشن کی دوسری بڑی بات ہے۔ بیشک اویسی کی جیت کو مسلم اکثریتی علاقوں تک محدود بتاکر توجہ کے ترازو میں ان کی حیثیت کو کتنا بھی کمتر کیا جائے، لیکن اگر یہ سچ بھی ہے تو پھر یہ ماننے سے بھی گریز نہیں کرنا چاہیے کہ اویسی اس ملک میں مسلمانوںکی نئی امید بن چکے ہیں۔ گزشتہ سال اسمبلی الیکشن میں دو سیٹ جیت کر اویسی مہاراشٹر میں پہلے ہی گھس پیٹھ کرچکے ہیں۔ بہار میں تو مہاگٹھ بندھن کے خیمے میں جارہا اقتدار دوبارہ این ڈی اے کے پاس لوٹا تو اس کی وجہ بھی اویسی ہی رہے۔ اے آئی ایم آئی ایم نے پانچ سیٹیں تو جیتیں ہی، سیمانچل کی کم سے کم 15سیٹوں پر مہاگٹھ بندھن کی ہار طے کرنے کا کام کیا۔ ان میں سے کچھ سیٹیں تو ایسی تھیں جو گزشتہ ڈیڑھ دہائی سے آر جے ڈی اور کانگریس کی ’وفادار‘ تھیں۔
اس جیت کے بعد ہی اویسی کا بہار سے ایک اور کنکشن جوڑ کر دیکھا جارہا ہے جو دراصل حیدرآباد کے نتائج کی دوسری بڑی بات کو بنیاد بھی فراہم کرتا ہے۔ اویسی اب بہار کے بڑے مسلم لیڈر رہے شہاب الدین کی جگہ کو بھرتے ہوئے نظر آرہے ہیں جو نرسمہاراؤ کے پرائم منسٹرشپ کے بعد سے خالی پڑی ہے۔ سی اے اے-این آر سی پر اویسی کی تقریریں پورے ملک کے مسلمانوں کو ان کے نزدیک لاتی ہیں۔ انہیں بھی جو اب تک ’سیکولر‘ پارٹیوں کے زیرسایہ خود کو محفوظ محسوس کرتے رہے ہیں۔ انتخابات در انتخابات اویسی کے بڑھتے قدم بتارہے ہیں کہ بڑی تعداد میں اب ایسے مسلمانوں کی راہیں بھی اویسی کی جانب مڑچکی ہیں۔
تو کیا اویسی اپنے مضبوط مسلم ووٹ بینک کے ساتھ ملک کی سیاست میں اہم اپوزیشن بننے کی راہ پر بھی ہیں جو حیدرآباد الیکشن سے نکلی تیسری بڑی بات کا اشارہ ہے۔ بیشک ابھی یہ دعویٰ جلدبازی ہو، لیکن اس کے امتحان کے لیے ہمیں زیادہ انتظار نہیں کرنا ہوگا۔ اگلے سال مغربی بنگال کے الیکشن میں اس کا مضبوط اشارہ مل بھی جائے گا۔ مغربی بنگال میں تقریباً30 فیصد مسلم ووٹر ہیں، جو اب تک ممتا کی سب سے بڑی طاقت ثابت ہوتے آئے ہیں۔ بیشک اس الیکشن میں پوری ریاست کے ووٹر ترنمول پر ’ممتا‘ دکھانا نہیں چھوڑیں گے، لیکن بہار کے نتائج کے بعد سیمانچل سے جڑے مغربی بنگال کے علاقوںمیں پالا بدلنے کا خطرہ تو بڑھ ہی گیا ہے۔
مغربی بنگال میں اویسی نے ممتابنرجی کو ہاتھ ملانے کا پیغام بھی دیا تھا، لیکن ممتا نے فی الحال اسے ٹھکرا دیا ہے۔ میونسپل الیکشن میں اویسی کی اسی طرح کی پیش کش پر ٹی آر ایس کا رُخ بھی ایسا ہی رہا تھا۔ ممتا ہو یا ٹی آر ایس، ساتھ آنے کی پیش کش رکھ کر اویسی دراصل ملک کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ وہ بی جے پی کو ٹکر دینے والی طاقت بننا چاہتے ہیں۔ آنے والے دنوں میں اویسی اترپردیش میں یہی داؤ ایس پی-بی ایس پی پر آزما سکتے ہیں، جو اب تک اہم اپوزیشن پارٹی کا درجہ رکھنے والی کانگریس کو مزید کمزور کرسکتا ہے۔
حیدرآباد الیکشن کی چوتھی بڑی بات یہ نکل کر آتی ہے کہ اویسی کی دوڑ جتنی لمبی ہوگی، بی جے پی کا ’سیاسی اشومیدھ‘ بھی اتنا ہی مضبوط ہوتا جائے گا۔ دراصل اپنی سیاسی زمین کو وسعت دینے کے لیے اویسی ہر نئی ریاست میں اس پارٹی سے ہاتھ ملانا چاہیں گے جو بی جے پی کے خلاف ہو۔ اگریہ حکمت عملی کامیاب ہوتی ہے تو صف بندی کا راست فائدہ بی جے پی کو حاصل ہوگا۔ اور اگرگٹھ بندھن کا داؤ کم نہیں کرتا ہے تو بھی بی جے پی کو اس لحاظ سے فائدہ ہوگا کہ علاقائی پارٹیوں کا مسلم ووٹ بینک اویسی کے ساتھ جاسکتا ہے جس سے کسی بھی باقی پارٹی کے لیے جیت آسان نہیں رہ جائے گی۔ حیدرآباد میں میونسپل الیکشن میں جو ٹی آر ایس کے ساتھ ہوا، وہ دراصل آنے والے دنوں میں اسمبلی اور لوک سبھا کے الیکشن میں باقی علاقائی پارٹیوں کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔
سیاست کا یہ ٹرینڈ بیشک کچھ پارٹیوں کے لیے کارگر ہو، لیکن کیا یہی بات ملک کے لیے کہی جاسکتی ہے؟ سماج کے دو طبقوں کے نظریہ کی سیاسی جنگ کہیں جمہوریت کے لیے خطرہ تو نہیں ہے؟ کیا یہ مبینہ ’سیکولر‘ پارٹیوں کے لیے ٹھہر کر اپنی پالیسیوں کو درست کرنے کا وقت نہیں ہے؟ اتنے سوالات میں ایک سوال مزید جوڑ لینے میں کوئی حرج نہیں کہ کیا آپ اب بھی حیدرآباد میونسپل کے الیکشن کو چھوٹا الیکشن کہہ کر خارج کرسکتے ہیں؟
(کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے 
سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں)
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS