کشمیر کی ایک پاکستانی بہو کی دلچسپ کہانی جو انتخابات میں قسمت آرائی کر رہی ہیں!

    0

    کپوارہ (صریر خالد،ایس این بی):جمعہ کو جب سرینگر کی پریس کالونی میں کئی پاکستانی نسل کشمیری بہوئیں ایک بار پھر اپنے مسائل کو لیکر احتجاج کر رہی تھیں شمالی کشمیر کے ایک دودراز گاؤں میں انہی کی ایک ساتھی منتخب عوامی نمائندہ بننے کی جی توڑ کوششوں میں لگی ہوئی تھیں۔سمیا صدف جموں کشمیر میں جاری بلدیاتی ادارہ،ضلع ترقیاتی کوسنل ،کے جاری انتخابات میں نمائندہ ہیں اور انہیں اپنے جیت جانے کا ’’پورا اعتماد‘‘ہے۔
    سمیا صدف دراصل پاکستانی زیرِ انتظام کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد کی شہری ہیں اور اُنہوں نے دیگر سابق جنگجوؤں کی طرح کپوارہ کے باترگام کے عبدالمجید کے ساتھ نوے کی دہائی کے اوائل میں تب نکاح کیا تھا کہ جب مجید ہتھیاروں کی تربیت پانے کیلئے لائن آف کنٹرول (ایل او سی)پار گئے تھے۔مجید نے بعدازاں جنگجوئیت کا راستہ چھوڑ کر مظفرآباد میں رہتے ہوئے ہی کاروبار شروع کیا ۔اس دوران اُنکی سمیا کے ساتھ ملاقات ہوئی اور بعدازاں دونوں نے شادی رچائی۔2010 میں عمر عبداللہ کی سرکار نے تشدد کا راستہ چھوڑ کر پاکستانی علاقے میں درماندہ ہوئے سابق جنگجوؤں کو  محفوظ راہداری دلوائی تو مجید بھی اپنی دلہن کو لیکر وطن لوٹ آئے ۔
    اپنے وطن میں رہتے ہوئے سمیا گریجویٹ ہوچکی تھیں اور کشمیر آنے پر انہوں نے مولانا آزاد یونیورسٹی کے فاصلاتی نظامِ تعلیم کے تحت تعلیم جاری رکھی یہاں تک کہ وہ اُردو میں ماسٹرس حاصل کر گئیں۔فی الوقت تین بیٹوں اور ایک بیٹی کی ماں سمیا نے کامیابی سے ایک ڈیری کم پولٹری فارم قائم کئے ہیں اور اب وہ ایک ’’آزاد امیدوار‘‘کے بطور’’عوامی نمائندہ‘‘بننے کی کوشش میں ہے۔
    وہ کہتی ہیں کہ سیاست میں اُنکی کوئی دلچسپی نہیں تھی لیکن،بقولِ اُنکے،مقامی لوگوں نے ہی اُنہیں ضلع ترقیاتی کونسل کے مقامی حلقہ کیلئے امیدوار بننے پر’’مجبور‘‘کیا۔وہ کہتی ہیں کہ چونکہ اپنے کاروبار کے حوالے سے وہ مختلف لوگوں کو کام پر لیتی ہیں،انہوں اور انکے خاندانوں نے ہی اُنہیں جیت دلانے کے وعدہ کے ساتھ انتخاب لڑنے پر آمادہ کیا ۔اُنہوں نے لیپ ٹاپ اپنا انتخابی نشان رکھا ہے اور وہ لوگوں کو اُنکے بچوں کیلئے اعلیٰ تعلیم اور اچھے مستقبل کے خواب دکھاتی ہیں۔حالانکہ جیت جانے کی صورت میں بھی سمیا یا ضلع ترقیاتی کونسل کے کسی بھی رُکن کے پاس بہت زیادہ اختیارات تو نہیں ہونگے لیکن یہ اُمیدوار ووٹروں کو اسمبلی یا پارلیمنٹ میں جانے والے سیاستدانوں کی ہی طرح اونچے خواب دکھا رہے ہیں۔ جیسا کہ سمیا صدف کہتی ہیں’’میں نے لیپ ٹاپ کا نشان رکھا ہے میں چاہتی ہوں کہ سبھی بچے پڑھیں اور انکے ہاتھوں میں لیپ ٹاپ ہوں‘‘۔وہ کہتی ہیں کہ جیت جانے کی صورت میں عورتوں کی ترقی پر اُنکی خاص توجہ ہوگی۔
    وادیٔ کشمیر میں سابق جنگجوؤں کے عقد نکاح میں ایسی سینکڑوں خواتین ہیں لیکن ان میں سے بیشتر کی زندگی اجیرن بنی ہوئی ہے یہاں تک کہ وہ آئے دنوں سرینگر کی پریس کالونی،جہاں بیشتر میڈیا گھرانوں کے دفاتر واقع ہیں،میں آکر احتجاج کرتی ہیں۔جمعہ کے روز ایسے ہی ایک احتجاجی مظاہرے میں شامل طاہرہ (غیر اصل نام) نے کہا ’’میں دس سال پہلے اپنے شوہر کے ساتھ یہاں آئی تھی لیکن آج پچھتا رہی ہوں۔میرے چار بچے ہیں لیکن انہیں ابھی تک باشندگی کے دستاویزات حاصل نہیں ہیں۔سرکار سابق جنگجوؤں کے وعدوں سے مُکر چکی ہے اور اسلئے میرے شوہر بیکار ہیں حالانکہ میں پاکستان میں ایک آسودہ حال گھرانے کی بیٹی ہوں‘‘۔کشمیر کی ان سینکڑوں پاکستانی دلہنوں کا مطالبہ ہے کہ اُنہیں اور اُنکے بچوں کو باشندگی کے دستاویزات دئے جائیں اور اُنہیں میکے(پاکستان)جانے کیلئے سفری دستاویزات دئے جائیں۔ سمیا صدف کے بارے میں بتانے پر طاہرہ نے کہا ’’اچھی بات ہے اگر ہماری کوئی بہن اس طرح آباد اور خوش ہیں،ہوسکتا ہے کہ انتخاب جیتنے کی صورت میں وہ ہمارے حق میں بولیں اور اُنکی بات سُنی جائے‘‘۔تاہم خود سمیا کا کہنا ہے کہ اُنہوں نے بھی کشمیر آنے پر ’’بُرے دن‘‘ دیکھے ہیں۔وہ کہتی ہیں ’’آض میں خوشحال ہوں لیکن پہلے پہل میں نے بڑی مصیبتیں دیکھی ہیں،مجھے اور میرے شوہر کو صفر سے شروع کرنا پڑا تھا،میں انتخاب جیت گئی تو جسکی ہوسکے اُسکی مدد کروں گی‘‘۔
    ضلع الیکشن افسر کپوارہ کہتے ہیں کہ صدف نے انتخابی امیدوار کیلئے لازم سبھی لوازمات پورا کئے ہیں۔واضح رہے کہ اس علاقہ میں 7 دسمبر کو ووٹ ڈالے جانے ہیں جبکہ  22 دسمبر کو ضلع ترقیاتی کونسل کیلئے پہلی بار ہورہے ان انتخابات کا حتمی نتیجہ سامنے آئے گا۔

    سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS