گُپکار: کشمیر سے ’وفا‘ یا سیاسی شگوفہ؟

0

جموں و کشمیر کے نگروٹا میں ہوئے انکاؤنٹر میں چار دہشت گردوں کو ڈھیر کرکے سیکورٹی فورسز نے اپنی مستعدی کا ایک اور ثبوت دیا ہے۔ سیکورٹی فورسز کا حوصلہ بڑھانے والا وزیراعظم نریندر مودی کا ٹوئٹ اسی بات کی علامت بھی ہے۔ دہشت گردوں کا یہ انجام بھلے ہی راحت کی بات ہے، لیکن کشمیر وادی میں آفت برپا کرنے کا ان کا مقصد سیکورٹی فورسز کے ہر پل الرٹ رہنے کی ضرورت کی طرف اشارہ بھی ہے۔ ایسی خفیہ معلومات ہیں کہ کشمیر وادی کو دہلانے کے لیے وہاں 26/11کو دوہرانے کی سازش رچی گئی تھی، جس کے لیے سرحدپار سے ان دہشت گردوں کو مہرا بنا کر بھیجا گیا تھا۔ یہ واردات ایسے وقت میں ہوئی ہے، جب کشمیر میں ڈی ڈی سی یعنی ڈسٹرکٹ ڈیولپمنٹ کونسل کے ساتھ ہی پنچایت اور بلدیاتی اداروں کے الیکشن سر پر ہیں اور سیاسی منصوبوں سے بنے گپکار اتحاد سے متعلق سیاسی پارٹیاں کٹہرے میں کھڑی ہیں۔
ویسے گپکار اتحاد کا رسمی نام پیپلز الائنس فار گپکار ڈکلیئریشن ہے اور اس میں فاروق عبداللہ کی نیشنل کانفرنس، محبوبہ مفتی کی پی ڈی پی اور لیفٹ کو ملاکر کل چھ پارٹیاں شامل ہیں جن کا ایجنڈا جموں و کشمیر کو پھر سے دفعہ 370اور دفعہ 35اے والے دور میں لے جانا ہے۔ اتحاد کو لگتا ہے کہ اس تبدیلی سے کشمیریوں کی پہچان ختم کردی گئی ہے۔ سیاسی فائدے کے لیے کانگریس نے بھی پہلے تو گپکار اتحاد سے ہاتھ ملا لیا تھا، لیکن جب وزیرداخلہ امت شاہ نے ٹوئٹ کے ذریعہ کانگریس سے سخت سوالات کیے، تب جاکر کانگریس لیڈرشپ کی آنکھ کھلی اور اس کی جانب سے اتحاد سے پلّہ جھاڑنے کا فرمان جاری ہوا۔ لیکن مرکزی حکومت کی تمام کوششیں اور کشمیر میں خوش حالی کے ایک سال کا گواہ بننے کے باوجود اتحاد ابھی بھی اپنے ایجنڈے کی بحالی کے لیے جدوجہد کی ضد پر قائم ہے، جس کے سبب سری نگر سے لے کر دہلی تک سیاسی ہنگامہ برپا ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر گپکار کو نئے کشمیر سے ڈر کیوں لگ رہا ہے، بیشک دفعہ 370کے ہٹ جانے کے بعد کشمیر میں ابھی بھی ایسے حالات نہ بنے ہوں کہ وہاں ترقی کی گنگا بہنے لگی ہو، لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مرکز کی ایماندارانہ کوششوں سے وادی کی فضا تیزی سے بدل رہی ہے۔ وہاں سیکورٹی کے حالات پہلے سے بہتر ہوئے ہیں اور دہشت گردی کی کمر ٹوٹنے لگی ہے۔ وزارت داخلہ کی ایک رپورٹ بتاتی ہے کہ اس ایک سال میں کشمیر میں دہشت گردانہ واقعات میں 36فیصد تک کی کمی آئی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں فری ہینڈ ملنے سے سیکورٹی فورسز کا جوش اور طاقت دونوں دوگنی ہوئی ہے، جس کے سبب حزب المجاہدین کے کمانڈر ریاض نائکو، لشکر کے کمانڈر حیدر، جیش کے کمانڈر قاری یاسر اور انصار عزوۃ الہند کے برہان کوکا جیسے 136خونخوار دہشت گرد ڈھیر کیے گئے ہیں۔ نگروٹا کا انکاؤنٹر اس کی سب سے تازہ کڑی ہے۔ ملک کے لیے یہ بھی خوشی کی بات ہے کہ دہشت گرد تنظیموں میں مقامی نوجوانوں کے شامل ہونے کے معاملے بھی 40فیصد تک کم ہوگئے ہیں۔ سرکاری ملازمتوں اور اسکول کالجوں کے پیشہ ورانہ کورسز میں مقامی نوجوانوں کے لیے ریزرویشن کا فیصلہ اس خوش نما تبدیلی کی بنیاد بنا ہے۔ حق رائے دہی ملنے سے ریاست کے محروم لوگ دوبارہ مین اسٹریم میں لوٹ رہے ہیں۔ اسی طرح باہری لوگوں کو بھی ریاست میں زمین خریدنے کا حق ملنے سے وادی اور ملک کے باقی حصوں کا سماجی اور جذباتی رشتہ مضبوط ہوا ہے۔
اس کے باوجود گپکار اتحاد کی ایک سال پہلے کی دہشت گردی اور بدامنی والے دور میں جانے کی ضد ملک کے مفاد کے پیمانہ پر تو فٹ نہیں بیٹھتی۔ فاروق عبداللہ کی چین کی مدد سے دفعہ 370بحال کرنے والی دھمکی ہو یا ترنگے کی توہین والا محبوبہ مفتی کا بیان-دونوں ہی معصوم عوام کو بھڑکانے اور ملک سے غداری کی حد تک غیرذمہ دارانہ برتاؤ کی فہرست میں آتے ہیں۔ دراصل، اتحاد میں شامل پارٹیوں کے مخمصے کافی حد تک ان حالات سے میل کھاتے ہیں جو آج باقی ملک میں کانگریس کے سامنے ہیں۔ جس طرح ترقی کی نئی سیاست کے دورمیں تشٹی کرن اور غریبی ہٹانے کے کانگریس کے نعرے بے معنی ہوگئے ہیں، اسی طرح گپکار اتحاد کے سامنے بھی نئے کشمیر کے مطابق اپنی سیاست میں بنیادی تبدیلی کا چیلنج کھڑا ہوگیا ہے۔ اب تک یہ پارٹیاں کشمیریت کی پہچان کو دفعہ 370کا ہوّا دکھا کر ریاست کی انتخابی بازی جیت لیا کرتے تھے جس کے دم پر دہلی سے سودے بازی ہوجایا کرتی تھی۔ اس میں بھی کوئی بری بات نہیں ہوتی بشرطیکہ اس سے کشمیر اور کشمیریت کا بھلا ہوا ہوتا، لیکن حقیقت میں بھلا کچھ سیاسی گھرانوں تک ہی محدود رہا۔ دفعہ370ہٹ جانے کے بعد کشمیر میں اس سے متعلق قائم کیا گیا بھرم کا ماحول آہستہ آہستہ صاف ہورہا ہے اور مقامی عوام اس سوال پر زبان کھول رہے ہیں کہ اتنے سال تک انہیں کیوں دھوکہ دیا گیا؟
ڈی ڈی اے الیکشن اس لحاظ سے اہم ثابت ہوسکتے ہیں، کیوں کہ اس بہانہ اپنے حقوق کے لیے بول رہے ریاست کے عوام کو اپنی پسند کے نمائندے کے انتخاب کا موقع مل سکے گا۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ ریاست میں اسمبلی کی برطرفی سے نئے منتخب ہوئے ضلع کونسلوں کے پاس بڑی انتظامی طاقت رہنے والی ہے۔ شاید اسی لیے اتنے برسوں تک زمینی سیاست سے دور رہی گپکار اتحاد میں شامل پارٹیوں نے اپنی سیاسی زمین بچانے کے لیے سات دہائیوں کی سخت ترین مخالفت کو بھی بھلا دیا ہے۔ یہ بھی دلچسپ ہے کہ کچھ وقت پہلے تک انہیں میں سے کئی پارٹیاں الیکشن کا بائیکاٹ کرنے کے دہشت گردانہ فرمانوں کے سُر میں سُر ملایا کرتی تھیں۔
بہرحال پرانی یادیں بھلاکر ساتھ آئی یہ پارٹیاں پرانا نظام بحال کرپائیں گی، یہ ممکن نظر نہیں آتا۔ دو دور کی میٹنگوں کے بعد بھی گپکار اتحاد اب تک اس پر کوئی ایکشن پلان لے کر سامنے نہیں آیا ہے۔ گپکار کشمیر کی جس الگ ثقافتی پہچان کو بچانے کی بات کررہا ہے، اس بنیاد پر لداخ کو اپنی شناخت چھوڑ کر کشمیر کے ساتھ آنے کے لیے کیسے راضی کرے گا، یہ بھی بڑا سوال ہے۔ پھر گزشتہ ایک سال میں انتظامی سطح پر جس تیزی سے تبدیلیاں نافذ ہوئی ہیں، جس طرح باقی ملک کی طرح جموں وکشمیر میں بھی ترقی کی راہ روشن ہورہی ہے، اسے دیکھتے ہوئے گزشتہ وقت کے اندھیرے میں لوٹنا بھلا کون سی سمجھداری ہوگی۔ ایسے میں الیکشن سے پہلے گپکار گٹھ بندھن کا ایکشن میں آنا کشمیر کو بچانے کی جگہ اپنا سیاسی وجود بچانے کا شگوفہ ہی نظر آتا ہے۔
(کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے 
سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں)
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS