مسلمان اب تو متحد ہو جائیں: ڈاکٹر سیّد احمد قادری

0

ڈاکٹر سیّد احمد قادری

ملک کے مسلمانوں کے دینی قائد اور سیاسی رہنماؤں(نام نہاد ہی سہی) کی مسلسل خاموشی کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ اب حکمرانوں کی شہ پر ہی سرکاری عملہ بھی بے خوف اور بے جھجھک ہو کر سیکڑوں مسلمانوں کو نماز اور سجدہ کی حالت میں بے رحمی کے ساتھ جوتوں کی نوک پر رکھ رہا ہے۔ عوام کی حفاظت پر معمور پولیس کا یہ معمولی سا داروغہ ملک کی راجدھانی دہلی کے اندرلوک میں نصف گھنٹے سے بھی کم وقفہ کے لئے سر بہ سجود نمازیوں کو جس طرح میں اپنے جوتوں کی ٹھوکروں پر رکھا ۔اس نے ملک کے ان چند مسلمانوں کو جوتوں سے نہیں مارا ، بلکہ اس پولیس والے نے ملک کے 22کروڑ مسلمانوں کو اپنے سرکاری جوتوں سے ذلیل و رسوا کیا ہے۔ دیکھنے والے نے دیکھا کہ بوٹوں سے سجدے کی حالت میں ٹھوکر مارنے والا مرکزی حکومت کے ماتحت کام کرنے والا پولیس کا یہ کارندہ ذرا بھی ہچکچا نہیں رہا ہے اس لئے کہ وہ جان رہا ہے کہ اس کی ایسی حرکت سے حکومت اور حکمراں خوش ہوںگے اور اسے اس ’کارنامہ‘ پر شاباشی ملے گی،سابقہ ریکارڈ تو یہی بتاتا رہا ہے کہ مسلمانوں پر جس نے جتنا ظلم کیا اس کو اتنا ہی ایوان کا ’معزز‘ بنایا جاتا ہے۔ ملک کی تاریخ کی آنکھوں نے دیکھا ہے کہ مسلمانوں کے قاتلوںاور زانیوں کو جیل سے تمام تر قوانین کو در کنار کرتے ہوئے رہا کرایا جاتا ہے انھیں ’سنسکاری‘ کا اعزاز دے کرانھیں پھول مالا سے استقبال کیا جا تا ہے۔ ایسے میں ہر وہ شخص جو حکومت کی نگاہ میں اہمیت اور وقعت بڑھانا چاہتا ہے اور سرکاری مراعات کا خواہاں ہے وہ ایسا ’کارنامہ دے‘ کر خود کو سرخرو کرتا ہے اورخلعت سے فیضیاب ہوتا ہے۔ دراصل موجودہ حکومت کو لگتا ہے کہ اقتدار پر بنے رہنے اور اپنے ہندوتوا ایجنڈوں کو نافذ کرنے کے لئے ملک کے مسلمانوں پر تشدد اور نفرت کے اسلحہ سے ان کے وجود اور تشخص کو ختم کرنا ضروری ہے ،تاکہ ملک میں فرقہ واریت کی فضا قائم رہے اور ان کی حکمرانی قائم رہے۔یہی وجہ ہے کہ یہ حکمراں ملک کی اکثریت کو یہ تاثر دیتے رہیں کہ ملک میں مسلمانوں کی آبادی کے تناسب کو روکنا ضروری ہے اگر نہیں روکا گیا تو یہ مسلم ہے اقلیت یہاں کی اکثریت پر حاوی ہو جائیں گے۔ انتہا تو یہ ہے کہ اس ملک کا وزیر داخلہ اپنے سیاسی مفادات کے لئے یہ کہنے میں ذرا بھی ہچکتااور نہ ہی شرمندگی محسوس کرتا ہے کہ گجرات میں 2002 میں فرقہ وارانہ فساد اور ہزاروں مسلمانوں کا قتل کرانے کے پیچھے دراصل یہاں کے مسلمانوں کو سبق سکھانا مقصد تھا۔ اس پورے تناظر میںدیکھا جائے تو یہ حقیقت سامنے آئے گی کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو اس وقت ہر طرح سے سیاسی، سماجی، معاشی، اقتصادی، تعلیمی اور صنعتی طور پر کمزور ، بے دست و پا اور بے وقعت کئے جانے کی دانستہ کوششیں کی جا رہی ہیں۔ رام مندر طلاق ثلاثہ، مسلم پرسنل لا ء، شہریت ترمیمی قانون، یونیفارم سول کوڈ وغیرہ کے نام پر مسلسل یہاں کے مسلمانوں کو نہ صرف خوف و دہشت میں مبتلا کیا جا رہا ہے بلکہ بات بات پر انھیں اور ان کے اسلام مذہب کو گالیوں، مغلظات سے نوازا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ مسلم نوجوان اپنے بڑے بزرگوں کی بات مانتے ہوئے وقت کی نزاکت اور تقاضے کے تحت خاموش ہو جاتے ہیں، اپنی ذلالت و رسوائیوں کو خون کے گھونٹ کے ساتھ پی جاتے ہیں۔ جس کی جتنی تعریف کی جائے وہ کم ہے، لیکن ہمارے صبر و تحمل کا مسلسل امتحان لیا جا رہا ہے ۔ آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما نے ابھی دعویٰ کیا ہے کہ وہ تین دنوں میں گواہاٹی کو مسلمانوںسے خالی کرا دیںگے جس کے جواب میں آل انڈیا ڈیموکریٹک فرنٹ کے صدر بدرالدین اجمل نے جواب دیا ہے کہ مسلمانوں کو 3سال کیا تین سو سال میں بھی ہٹانا ممکن نہیں ہے ۔ ویسے اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے ہیں کہ دن بدن ملک میں مسلمانوں کے لئے زمین تنگ کرنے کی عملی کوششیں شدت اختیات کرتی جا رہی ہیں۔ یہ ہیمنت بسوا سرما ہو، یا یتی نرسمہا ہو یا پرگیا سنگھ یا یوگی ہو،ان جیسے سیکڑوں بد زبان ایسی باتیں یونہی نہیں کہتے بلکہ مسلمانوں کو اشتعال دلانے کے لئے اور اکثریت سے متنفر کرنے کے لئے ایک ایجنڈہ کے تحت سیاسی مفادات کے حصول کے لئے کہتے ہیں۔ زیادہ دور نہ جا کر گزشتہ 10 برسوں میںجو کچھ سننے کو ملا ہے وہ ہم بھولے نہیں ہیں ۔عام طور پر مسلمانوں کو مسلسل ہدف ملامت بنا کر آر ایس ایس اور اس کی ہمنوا جماعت جیسی فرقہ پرست اور انتہا پسند تنظیموں نے منافرت اورفرقہ واریت کا زہر گھول کر ملک کے اندر ایسی فضا تیار کی ہے جس سے ہر شخص پریشان اور خوف زدہ ہے اور موجودہ حکومت اور حکمرانوں کی یہی بڑی کامیابی ہے ۔
ایسے ناگفتہ بہ حالات میںاب ضرورت ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو وقت اور حالات کے تقاضوں کو محسوس کرتے ہوئے ہمّت اور حوصلے کے ساتھ ان نامساعد حالات کے تدارک کے لئے صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے دانشورانہ ، عالمانہ، مدبرانہ اور حکمت عملی کے ساتھ مختصر مدتی اور طویل مدتی منصوبے تیار کریں اور ان پر بہت سنجیدگی سے عمل کریں۔ آزادی ہند کے بعد ہم چندسیاسی پارٹیوں کے بھروسے اور ان کے جھوٹے وعدوں پر تکیہ کرتے رہے ہیں۔ اپنی بقا اور تشخص کے لئے کبھی کوئی سنجیدہ اور بڑا فیصلہ یا اقدام نہیں کیا ۔ لیکن اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے لئے اور اپنے آنے والی نسل کے لئے جاگیں۔ وقت ہمیشہ یکساں نہیںرہتا اور کب کون سا رخ اختیار کر لے ، نہیں کہا جا سکتا ہے ۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہم منظم اور متحد ہو کر سب سے پہلے ذات پات کی خلیج کو ختم کر یں ۔ موجودہ حالات میں یہ کام مشکل ضرور ہے لیکن نا ممکن نہیں ہے ۔ اس کے بعد ہمارے مذہبی رہنما اور علما وقت اور حالات کی نزاکت اور تقاضوں کے پیش نظر اپنے مسلکی اختلافات کو ٹھنڈے بستے میں ڈال کر اسلامی نظریہ حیات کو اپناتے ہوئے مسلمانوں کے اندر اتحادو اتفاق پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں ۔ اس بات پر تو تمام مسلک کے لوگ اتفاق کریںگے کہ قران پاک مکمل ضابطۂ حیات ہے ،جس سے ہمیں روشنی حاصل کرتے ہوئے لائحہ عمل تیار کرنا ہے۔ اگر ان دو اہم مسئلہ پر اتفاق ہو جائے تو پھر ہم مقامی ، ریاستی اور پھر قومی سطح پر ایسے قائد تلاش کریں جو اپنے کردار و عمل سے یہ باور کرائے کہ وہ امت مسلمہ کا بے لوث خادم ہے ۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ ہر ریاست میں ایک’ ’تھنک ٹینک ‘ کی تشکیل دی جائے تاکہ وہ عوام اور قائد کے درمیان رابطہ رکھے اور دانشمدانہ مشوروں و منصوبوں پر عمل ہو ۔ یہ تھنک ٹینک اور قائد ملک کی اہم سیکولر شخصیات اور سیاسی و سماجی تنظیموں کے رابطہ میں رہیں ۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ہندوستان میں ہمیں سیکولر طاقتوں کے ساتھ مل کر ہی اپنی حکمت عملی کے ساتھ متعصب ،فرقہ پرستوں اور فسطائی قوتوں کے مسلم مخالف منصوبوں اور سازشوں کے تیز دھار کو کند کرسکتے ہیں ۔ مسلمانوں کو مشتعل کرنے کی فرقہ پرستوںکی کوششوں کو ناکام کرنے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم جذباتیت کا شکار نہیں ہوں۔ فرقہ پرستوں کی یہی کوشش اور منصوبہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو مشتعل کرکے انھیں احتجاج اور مظاہرے کے لئے مجبور کریں اور وہ بغیر کسی منصوبہ اور قائد کے سڑکوں پر نکلیں اور اس بھیڑ میں غیر سماجی عناصر کو دانستہ طور پر شامل کرکے ، آئینی اور قانون کے دائرے میں ہونے والے احتجاج اور مظاہرے کے مثبت مقاصد کو فوت کر تے ہوئے کوئی ایسی حرکت ہو کہ پولیس کے ظلم و بربریت کے مسلمان شکار بنیں۔ گزشتہ ماہ میں ایسے کئی سانحات سامنے آئے ہیں جن میں مظلوم مسلمانوں کو ہی ملزم بنایا گیا، ان کی گرفتاریاں کی گئیں ان کے گھروں اور دوکانوں کو بلڈوزر سے زمین بوس کیا گیا ۔اس لئے اس ضمن میں بہتر یہ ہے کہ فرقہ پرستوں کے نعروں اور ناپسندیدہ بیانات کا جواب وہی سیکولر جماعت اور شخصیات دیں ، جن کے ہم رابطے میں ہیں اور جو ہماری مجبوریوں کو بخوبی سمجھ رہے ہیں۔ یہی ہماری حکمت عملی ہونی چاہئے۔ساتھ ساتھ ہم اپنے سیاسی تدبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ دیکھیں کہ جب حزب اختلاف کی تمام پارٹیاں اپنی بقا کے لئے اپنے کئی سیاسی مفادات کو ترک کرتے ہوئے بڑے دشمن کو زیر کرنے کے لئے متحد ہو گئی ہیں تو ہم مسلمان،جو مسلسل فرقہ پرستوں کے نشانہ پر ہیں اور ہمارے وجود اور تشخص کو ختم کرنے کے در پے ہیں تو پھر ہم کیوں نہیں اپنی بقا کے لئے اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کریں ۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہمارے مذہبی قائدین بھی حزب مخالف کی طرح گفت و شنید اور لائحہ عمل کے لئے اپنے مسلکی اختلافات کو وقتی طور پر بھول کر کسی ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوں اور مسلمانوں کے صبر و تحمل، احساسات و جذبات اور غم و غصہ کو سیاسی حکمت عملی اور سیاسی بصیرت سے متحد ووٹ میں تبدیل کر دیں۔ یا درہے کہ دشمن ہمارے ووٹوں کے منتشر سے ہی فائدہ اٹھا رہا ہے اور ہماری وقعت اور وجود کو ختم کر رہا ہے۔ اس ضروری بلکہ اشد ضروری حکمت عملی میں اسدالدین اویسی ، بدرالدین اجمل اور ان جیسے سیاسی رہنماؤں کو شامل رکھا جائے اور انھیں خدا کا واسطہ دیا جائے کہ وقتی طور پر ہی سہی ہم متحد ہو کر فرقہ واریت کا مقابلہ کرکے پارلیمنٹ میں اپنے نمائندہ بھیجیں تاکہ ہماری آواز ایوان بالا سے نکل تک اس کی بازگشت دور تک سنائی دے اور آج ہم جن مسائل کے بھنور میں گھرے ہیں ان سے نکل سکیں۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ہمارے درمیان دوست نما جو دشمن ہیں ان سے ہم ہوشیار رہیں ورنہ ہم ان کے عمل اور مفادات کے بجائے ان کے نام سے دھوکہ کھا جاتے ہیں ۔ ایسے نام نہاد مسلمانوں سے نہ صرف دوری بنا کر رکھیں بلکہ ان کا سماجی طور پر بائیکاٹ کا اعلان کریں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو مسلم دشمنوں کو قوت عطا کرتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ پولیس والے کے جوتوں کی ٹھوکروں سے اب بھی سبق نہیں لیا گیا تو پھر ہماری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں ۔ اب بھی زیادہ وقت نہیں گزرا ہے۔
( مضمون نگار سینئر صحافی اور معروف ادیب ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS