موہن بھاگوت کے بیان کا مطلب

0

عبدالماجد نظامی

آر ایس ایس کے سر سنگھ چالک موہن بھاگوت کو لوک مت میڈیا گروپ نے 6؍ فروری 2022کو ’’ہندوتو اور قومی اتحاد‘‘ کے موضوع پر گفتگو کرنے کی دعوت دی تھی۔ اس موقع پر موہن بھاگوت نے جہاں بہت سے دیگر موضوعات پر اپنی رائے کا اظہار کیا، وہیں انہوں نے ہری دوار میں ہندو مذہبی رہنماؤں کے ذریعہ ’’دھرم سنسد‘‘کے انعقاد اور اس اسٹیج سے ہندوستانی مسلمانوں کے قتل عام کے اعلان اور ان کے خلاف نفرت انگیزی کو بھی موضوع سخن بنایا۔ موہن بھاگوت کی اگر مانیں تو ان کے بقول جن لوگوں نے مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کی تھی وہ صحیح معنی میں ہندو نہیں ہیں۔ موہن بھاگوت کے اپنے الفاظ کچھ یوں ہیں: ’’دھرم سنسد سے جو بیانات دیے گئے ہیں وہ ایک ہندو کے الفاظ، عمل اور قلب و دماغ کا عکاس نہیں ہو سکتے۔ اگر میں کبھی غصہ میں کچھ کہہ دیتا ہوں تو وہ ہندوتو نہیں ہوتا ہے۔ آر ایس ایس یا ہندوتو پر عمل پیرا ہونے والے ایسی(نفرت انگیز) باتوں میں یقین نہیں رکھتے ہیں ۔‘‘ موہن بھاگوت اپنی اسی تقریر میں آگے چل کر کہتے ہیں کہ ’’خود ویر ساورکر نے کہا تھا کہ اگر ہندو متحد اور منظم ہوجائیں تو بھگود گیتا کی بات کریں گے۔ کسی کا صفایا کرنے یا انہیں گزند پہنچانے کی بات نہیں کریں گے۔‘‘ اگر قارئین موہن بھاگوت کی تقریر کو غور سے سنیں اور ان کی باتوں سے نتیجہ نکالنے کی کوشش کریں تو اندازہ ہوگا کہ سرسنگھ چالک نے صاف صاف الفاظ میں ایساکچھ نہیں کہا ہے جس سے پتہ چلے کہ وہ دسمبر2021میں اتراکھنڈ کے ہری دوار میں منعقد کیے گئے ’’ہندو دھرم سنسد‘‘ کے منتظمین کے تئیں اپنی خفگی کا اظہار کر رہے ہوں یا مسلم مخالف نفرت انگیزی کے خلاف اپنا احتجاج درج کر رہے ہوں۔ ان کی تقریر میں صرف اشارے پائے جارہے ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ ان باتوں کو سننے والا اپنے اعتبار سے اس کی تشریح کرے گا اور کوئی ضروری نہیں کہ آر ایس ایس کی شاکھاؤں میں تربیت حاصل کرنے والا بھی اس کی تشریح اسی طرح کرے جس طرح ایک عام ہندوستانی جس کی تربیت دستور ہند کے اصولوں کی روشنی میں ہوئی ہو وہ کرے گا۔ ایسی صورت میں نتیجہ کا جو فرق ہوگا وہ ظاہر ہے۔ ہری دوار میں جس شر انگیزی کا مظاہرہ ہندو مذہبی رہنماؤں نے کیا تھا، اس کے پیش نظر موہن بھاگوت سے اس کی امید کی جانی چاہیے کہ آر ایس ایس کے روح رواں ہونے کے ناطے وہ پوری مضبوطی کے ساتھ اور واضح الفاظ میں اس قسم کے انسانیت سوز بیانات اور ملک کی سالمیت کو ملیامیٹ کر دینے والے افکار و نظریات کے خلاف نہ صرف یہ کہ اپنا شدید مذمتی بیان جاری کریں گے بلکہ خود آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں کے ڈھانچہ میں تبدیلی کا ایسا خاکہ باشندگان ملک کے سامنے پیش کریں جس سے نفرت انگیزی کے جذبات کو پروان چڑھانے والی حرکتوں پر روک تھام کا امکان پیدا ہوسکے۔ لوک مت کے اسٹیج سے جو تقریر سنگھ کے چیف نے کی ہے، اس سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ موہن بھاگوت کا مقصد مسلم مخالف تشدد آمیز بیانات پر قدغن لگانا اور ملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بحال کرنا نہیں ہے بلکہ تشدد پسند ہندو مذہبی رہنماؤں کے شر انگیز بیانات کی وجہ سے عالمی میڈیا میں آر ایس ایس کی جو شبیہ مجروح ہوئی ہے اس کو بحال کرنا ہے۔ واضح رہے کہ امریکی اخبار ’’نیویارک ٹائمس‘‘سمیت دنیا بھر کے اخبارات و رسائل نے اس موضوع کو بڑے پیمانہ پر اپنے صفحات پر جگہ دی ہے اور ’’جینو سائڈ واچ‘‘ نے ہری دوار واقعہ پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کیا اور امریکی سیاسی لیڈران بالخصوص امریکی کانگریس پر زور دیا کہ وہ نریندر مودی سرکار پر دباؤ ڈالے۔ اگر عالمی میڈیا میں اپنی شبیہ کی درستگی مقصد نہیں ہوتا تو آر ایس ایس کے اعلیٰ ترین رہنما بروقت اپنا موقف واضح کرتے اور شر پسندوں کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کے لیے اپنی سرکار کو آمادہ کرتے، لیکن کچھ نہیں ہوا۔ ابھی تک بھارتیہ جنتا پارٹی کے اعلیٰ سیاسی قائدین اس معاملہ میں خاموش ہیں۔ خود وزیراعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ نے نہ تو اس واقعہ کی مذمت کی ہے اور نہ ہی سپریم کورٹ کی مداخلت کے بغیر مبینہ ملزمین کے خلاف قانونی کارروائی کا آغاز کیا گیا۔ اس پورے منظر نامہ سے تو یہی تصویر سامنے ابھرتی ہے کہ دراصل مسلم اقلیت کے خلاف جاری تمام قسم کی شر انگیزیوں اور فتنہ پردازیوں کے لیے تشدد پسند ہندو تنظیموں کو آر ایس ایس کی فکری حمایت حاصل ہوتی ہے جبکہ قانونی سطح پر ان کی حفاظت بی جے پی کرتی ہے اور اسی لیے ان کی شر انگیزیوں کا سلسلہ تھمتا نظر نہیں آ رہا ہے۔ کیونکہ جب تک اعلیٰ مناصب کے عہدیداروں اور نظریہ ساز اداروں کی حمایت تشدد پسندوں کو حاصل نہ ہو تب تک وہ اس قسم کا اقدام کرنے کی جرأت بھی نہیں کر سکتے۔ بصورت دیگر انہیں ملک کے قوانین کا سامنا کرنا ہوگا جن میں مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی پوری صلاحیت موجود ہے۔ آر ایس ایس چیف اگر واقعی اپنی باتوں میں سنجیدہ ہیں اور چاہتے ہیں کہ اوباشوں کو دھرم اور کلچر کے نام پر ملک کے ماحول کو بگاڑنے سے روکا جائے اور قانون نافذ کرنے والے عملہ اور اداروں کو مذاق بنانے کا سلسلہ بند ہو تو پھر انہیں اس بات کی عملی کوشش کرنی ہوگی کہ ان کے تعلیمی اور ثقافتی اداروں میں نفرت پر مبنی نظریہ و فلسفہ کی ترویج و اشاعت کا سلسلہ بند ہو۔ ’’گھر واپسی‘‘، ’’لو جہاد‘‘ اور اس جیسے دیگر مسلم مخالف نعروں کے ذریعہ مسلم اقلیت کو کٹہرہ میں کھڑا کرنے اور ان کی جان و مال اور عزت و آبرو کو خطرہ میں ڈالنے کے سلسلہ پر لگام لگائی جائے۔ موہن بھاگوت جس عہدہ پر فائز ہیں، اس کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ وہ ہندو نوجوانوں میں مثبت تبدیلی پیدا کرسکتے ہیں۔ لیکن ان کی باتوں پر اس لیے یقین کرپانا مشکل ہے کہ ماضی میں بھی ماب لنچنگ اور گئورکشا کے سلسلہ میں ایسے بیانات جاری ہوچکے ہیں، البتہ ان سے کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں پہنچا۔ ناگپور میں لوک مت کے اسٹیج سے کی گئی اس تقریر میں بھی بظاہر وہ اپنے سامعین کو کنفیوژڈ کرنا چاہتے ہیں کیونکہ ہندوستان کو ہندوراشٹر بنانے کے مسئلہ پر وہ کہتے ہیں کہ آپ مانیں یا نہ مانیں لیکن ہندوستان ہندو راشٹر تو ہے۔ وہ اپنی تقریر میں ’’تہذیبی یکسانیت‘‘ کے بجائے ’’تکثیریت‘‘ کی وکالت تو کرتے ہیں لیکن دوسرے ہی جملہ میں دستور ہند کے اصولوں اور ہندوتو کو مماثل قرار دیتے ہیں جو ظاہر ہے کہ درست نہیں ہے۔ موہن بھاگوت کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ آر ایس ایس کے بارے میں مہاتما گاندھی نے جو بات پنڈت نہرو سے اپنے ایک خط میں کہی تھی وہ آج بھی سچ ثابت ہو رہی ہے۔ مہاتما گاندھی نے کہا تھا کہ آر ایس ایس کے رہنماؤں کی ظاہری باتیں تو بڑی اچھی لگتی ہیں لیکن ان کے پیچھے بالکل برعکس مفہوم پوشیدہ ہوتا ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ موہن بھاگوت پر مہاتما کی یہ بات صادق نہ ہو۔
(مضمون نگار راشٹریہ سہارا اردو کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS