منافع کی ہوس

0

سرمایہ دارانہ نظام کا سارا فلسفہ ہی منافع کی گرد گھومتاہے۔ زندگی کا ہر شعبہ جس میں سرمایہ کاری ہوئی ہو وہاں سے منافع کشید کرناسرمایہ داروں کا منتہائے مقصود ہے۔منافع کے حصول کے لئے اخلاق، مروت اورا نسانیت کی لاش پر سے گزرنے میں بھی کوئی عار نہیں سمجھا جاتا۔تعلیم اور صحت جیسے بنیادی اور لازمی شعبے جنہیں انسانی تہذیب میں تقدس کا درجہ حاصل ہے، آج منافع خور سرمایہ داروں کی شکار گاہ بنے ہوئے ہیں۔ اچھی تعلیم، پیشہ وارانہ تعلیم اور روزگار خیز تعلیم کے نام پر نجی اداروں اور کمپنیوں کی جاری لوٹ کھسوٹ سے آج ہندوستان کا ہر شہری واقف ہے اور نہ چاہتے ہوئے بھی ان کاشکار بن رہاہے، لیکن علاج فراہم کرنے کے نام پر ڈاکٹر اور دواساز کمپنیاںدکھی انسانیت کی زندہ لاش کو جس طرح نوچ کھسوٹ رہی ہیں اس کا تصور بھی نہیں کیاجاسکتا ہے ۔
عدالت عظمیٰ میں دائر مفاد عامہ کی ایک عرضی کی سماعت کے دوران یہ انکشاف سامنے آیا ہے کہ نزلہ، زکام، سردی کھانسی اور بخار جیسی معمولی بیماریوں کی دوا فروخت کیلئے دواساز کمپنیوں نے ڈاکٹروں کو1000کروڑ روپے کے تحائف مفت تقسیم کئے ہیں ۔یہ عرضی فیڈریشن آف میڈیکل اینڈ سیلز ریپریزنٹیٹوز ایسوسی ایشن آف انڈیا کی جانب سے دائر کی گئی تھی۔ عرضی گزار کا دعویٰ سن کر جج حضرات بھی انگشت بدندان (حیران) رہ گئے۔ عرضی گزار نے مختلف دوائوں کی فروخت بڑھانے کے لئے ڈاکٹروں کو مفت تحائف کی مثال دیتے ہوئے کہا ہے کہ بخار میں اکثر دی جانے والی دوا Dolo 650کی فروخت بڑھانے کے لئے دواساز کمپنی کی جانب سے ڈاکٹروں کو ایک ہزار کروڑ روپے کے تحائف دیے گئے ہیں۔ درخواست گزار کا کہنا ہے کہ جو ڈاکٹر تحائف لے کر دوائی کا مشورہ دیتے ہیں، انہیںاس کیلئے ذمہ دار بھی ہونا چاہئے ۔عرضی میں کہا گیا ہے کہ اگر ایسا کام کیا گیا تو نہ صرف ادویات کے زیادہ استعمال کے کیسز بڑھیں گے بلکہ اس سے مریضوں کی صحت پر بھی برا اثر پڑ سکتا ہے۔ اس طرح کے گھپلوں سے بازار میں ادویات کی قیمتوں اور غیر ضروری ادویات کے بھی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ درخواست میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ کورونا وبا کے دوران ایسی ادویات کی ضرورت سے زیادہ تشہیر کی گئی اور غیر اخلاقی طریقے سے بازار میں سپلائی کی گئی۔اس عرضی پرسماعت کررہی جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ اور جسٹس اے ایس بوپنا پر مشتمل بنچ نے اس معاملہ کو انتہائی سنگین قرار دیتے ہوئے حکومت سے 10 دن میں جواب طلب کیا ہے۔
اب حکومت اس معاملہ میں کیا رویہ اختیار کرتی ہے اور حلف نامہ میں کن حقائق کا اظہار کرتے ہوئے دواساز کمپنیوں کی کن مجبوریوں کا حوالہ دیتی ہے یہ تو اگلی سماعت 29ستمبر کو ہی سامنے آئے گا،لیکن حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹروں کو دیئے جانے والے تحائف جن میں کانفرنس فیس، سونے کا سکہ، لیپ ٹاپ، فریج، ایل سی ڈی ٹی وی اور تفریحی سفر کے بھاری بھرکم اخراجات شامل ہوتے ہیں، مفت نہیں ہوتے،انہیں دوائوں کی قیمت میں شامل کیا جاتا ہے۔جس سے دوا کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔یہ ایک طرح سے کھلا فریب اور قانوناًممنوع ہے،لیکن دواساز کمپنیاںڈنکے کی چوٹ پر یہ فریب کررہی ہیں ۔ ان کی لوٹ مارمیں چند ایک استثنیٰ کے ساتھ ڈاکٹر حضرات بھی ملوث ہیں۔ یہ سب دکھی انسانیت کے علاج کے نام پر ہورہا ہے اوراس کیلئے دواسازکمپنیاں حکومت سے ہزاروں طرح کی مراعات الگ حاصل کرتی ہیں ۔ ابھی چند ماہ قبل ہی دواساز کمپنیوں نے عدالت میں یہ عرضی دائر کی تھی کہ ان کی جانب سے ڈاکٹروں کو دیئے جانے والے تحائف پر خرچ ہونے والی رقم کو انکم ٹیکس سے مستثنیٰ کردیاجائے ،لیکن عدالت نے ان کی عرضی مسترد کردی۔اس معاملے پر فیصلے میں جسٹس یو یو للت کی بنچ نے کہا تھاکہ ڈاکٹر کا مریض کے ساتھ ایسا رشتہ ہوتا ہے، جس کا لکھا ہوا ایک لفظ ہی مریض کیلئے حتمی ہوتا ہے۔ ڈاکٹر کی تجویز کردہ دوا مہنگی اور مریض کی رسائی سے باہر ہونے کے باوجود اسے خریدنے کی کوشش کرتا ہے۔ ان حالات میں جب یہ پتہ چلتا ہے کہ ڈاکٹر کی طرف سے لکھی گئی دوا کا تعلق دواسازکمپنیوں کے مفت تحائف سے ہے، تو مریض کا اعتماد مجروح ہوتا ہے اور وہ خود کو ٹھگا ہوا محسوس کرتا ہے۔ مریض کا یہ احساس بعض اوقات ان کی زندگی ختم کرنے کا باعث بھی بن جاتا ہے ۔
لیکن دوا ساز کمپنیوں کو مریض کی جان سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی ہے ان کا اصل اور بنیادی مقصد دوا بیچ کر منافع کمانا ہوتا ہے۔ جب دوا ساز سرمایہ دار، کسی دو اکی تیاری میں سرمایہ کاری کے متعلق فیصلہ کرتا ہے تو وہ زندگیوں کو کبھی بھی مد نظر نہیں رکھتا بلکہ اس کی اولین ترجیح منافع ہوتاہے ۔اس منافع کے حصول میں پیشہ کا تقدس، اخلاق، مروت اور انسانیت تک کوکچلتے ہوئے وہ اپنے ہدف تک رسائی حاصل کر تا ہے ۔یہ صورتحال سرمایہ دارانہ نظام کی پیداکردہ ہے، اسے بدلنے کیلئے پورے نظام کو بدلنا ہوگا۔اور ایسی کسی تبدیلی کا کوئی امکان نہیں ہے ۔ لیکن تعلیم اور صحت جیسے بنیادی شعبوں میں منافع کی ہوس کو قابو میں رکھنے کی کوشش ضرور کی جاسکتی ہے ۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS