آکسیجن کی قلت

0

تباہ کاریوں کا عالمی ریکارڈ بنانے کے بعد کورونا وائرس کی نئی لہر پوری شدت سے ہندوستان پر حملہ آور ہے اور پورا ملک تخت و تاراج ہورہاہے۔شمال سے جنوب اور مشرق سے مغرب تک ہاہا کار مچا ہوا ہے۔ انسانی زندگی کی ارزانی اور بے ثباتی کی اس سے بھیانک مثال اب تک دنیا نے نہیں دیکھی تھی۔ گزشتہ24گھنٹوں میں 3لاکھ سے زیادہ افراد اس سے متاثر ہوئے ہیں، ان ہی 24گھنٹوں میں 2023 افراد نے اپنی زندگی گنوا دی ہے۔ اس موذی وبا کے متاثرین کی تعداد 16لاکھ اوراس کے کشتگان کی کل تعداد 2لاکھ سے زیاد ہ ہوچکی ہے۔ اس وبا سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے شہروں دہلی، ممبئی، احمد آباد، لکھنؤ، بھوپال، کولکاتا، الٰہ آباد اور سورت کے اسپتالوں میںتل دھرنے کی جگہ نہیں رہ گئی ہے۔متاثرین کی ہر گھنٹے بڑھتی بھیڑ کی وجہ سے اسپتال کے گلیاروںمیں مریض جانوروں کی طرح بکھرے پڑے ہوئے ہیں۔بہت سے شہروں کے اسپتالوں میں تو آئی سی یو بیڈ ہی نہیں ہیں کہ وہاں مریضوں کو رکھاجاسکے۔
ایک طرف تباہی و بربادی کی یہ نئی تاریخ ہے تو دوسری طرف ملک بھر کی صحت خدمات انتظامی نااہلی کے نت نئے ریکارڈ بنارہی ہیں۔ اسپتالوں میں آکسیجن اور دوسری ضروری خدمات کا فقدان پیدا ہوگیا ہے۔ حکومت نہ تو یہ لازمی اشیا دستیاب کرانے کی اہل ہے اور نہ بڑھتے انفیکشن کا دائرہ توڑنے کی کوئی سبیل نکال رہی ہے۔آکسیجن سپلائی کے معاملے میں حکومت نے بدانتظامی کی انتہا ہی کردی ہے۔ کورونا کے آغاز میں جب دنیا کے دوسرے ممالک اپنے اپنے یہاں آکسیجن کا ذخیرہ کررہے تھے، ہندوستان کی حکومت نے آکسیجن ایکسپورٹ کرنے کے نئے ریکارڈ کھڑے کردیے۔ 2019-20 میں ہندوستان سے باہر 4502 میٹرک ٹن آکسیجن ایکسپورٹ کی گئی تھی اور جب 2020-21میں کورونا اپنے شباب پر ہے تو 9300 میٹرک ٹن آکسیجن باہر کے ملکوں کو بھیج دی گئی۔ ڈاکٹروں اور ماہرین کے بار بار کے انتباہ کے باوجود آکسیجن کا ذخیرہ باہر ملکوں کو منتقل کیاجانا حکومت کی ایسی سفاکی ہے جس کا تصور بھی نہیں کیاجاسکتا ہے۔ اس پر ستم یہ ہے کہ اندرون ملک اسپتالوں کو دستیاب نہ ہونے والی آکسیجن دوسری صنعتوں کیلئے تھوک کے حساب سے فراہم کی جارہی ہے۔آکسیجن کی قلت کی وجہ سے اس کی کالابازاری بھی زوروں پر ہے۔ آکسیجن کا ایک سلنڈر جو کل تک9ہزارروپے میں ملتا تھا آج اس کی قیمت15ہزار تک پہنچ گئی ہے اور وہ بھی عام آدمی کی رسائی سے دور ہے۔صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس سے لگایاجاسکتا ہے کہ مجبورہوکر اس معاملے میں دہلی ہائی کورٹ کو مرکزی حکومت کی سرزنش کرنی پڑی ہے اور یہ کہنا پڑا ہے کہ حکومت اس معاملے کی سنگینی کو کیوں نظر انداز کررہی ہے۔موجودہ ضرورت کے مدنظر دوسری صنعتوںکو آکسیجن کی سپلائی بند کرکے صرف اسپتالوں کو میڈیکل استعمال کے لیے آکسیجن ہی سپلائی کی جائے۔ عدالت نے اس امر پر حیرت و استعجاب کا بھی اظہار کیا ہے کہ ایک طرف اسپتالوں میں آکسیجن نہیں ہے لیکن دوسری طرف اسپات کے کارخانے چل رہے ہیں۔اب حکومت عدالت کی اس ہدایت پرکتنا کان دھرتی ہے یہ تو آنے والے ایک دو دنوں میں ظاہر ہی ہوجائے گا لیکن انفیکشن کا دائرہ توڑنے کیلئے بھی مرکزی سطح پر اب تک کوئی اقدام نہیں کیاگیا ہے۔ اس معاملے کو ریاستوںکی صوابدید پر چھوڑ کر مرکزی حکومت اپنی ذمہ داری سے بھاگ رہی ہے۔ ریاستوں کے پاس اتنے وسائل نہیںہیں کہ وہ مرکز کی مدد کے بغیر اس ہولناک اور تباہ کن وبا سے نمٹ سکیں۔
اگر ہمیں ہندوستان کو کورونا وائرس کے مزید حملوں سے بچانا ہے تو انفیکشن کی بڑھتی رفتار پر قابو پانے کے ساتھ ساتھ جنگی سطح پر ٹیکہ کاری انجام دینی ہوگی۔ جیسا کہ عدالت نے کہا کہ اسپات اور فولاد کی صنعتوں میں استعمال ہونے والی آکسیجن کی سپلائی اگر وقتی طور پر روک بھی دی جائے تو کوئی قیامت نہیںآجائے گی اورنہ وہاں سپلائی بحال رہنے سے معیشت کو استحکام آسکتا ہے۔البتہ یہ ضرور ہوسکتا ہے کہ اسپتالوں کو آکسیجن ملنے سے مریضوں کی جان بچائی جاسکتی ہے۔اب یہ مرکزی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ بغیر کسی ٹال مٹول اور قیل و قال کے ریاستوںکو ان کی ضرورت کے مطابق ٹیکہ اور آکسیجن مہیا کرائے ورنہ موت کا سلسلہ یوں ہی دراز ہوتارہے گا۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS