آکسیجن نہیں ہے، مذہبی نشہ تو ہے

0

ڈاکٹر محمد طارق ایوبی

ملک اس وقت جس بدترین صورت حال سے گزر رہا ہے اس کا اندازہ سبھی کو ہے، شاید ہی موت کا ایسا منظر کبھی کسی نے دیکھا ہو، صورت حال یہ ہوگئی ہے کہ موبائل اٹھاتے ڈرلگنے لگا ہے کہ کب کدھر سے کس کی خبر آجائے، وطن عزیز اب برازیل کو پیچھے چھوڑ چکا ہے بس امریکہ سے پیچھے ہے۔
کورونا کی ابتدائی لہر گزشتہ سال چلی تھی۔ حکومت نے بغیر سوچے سمجھے پورے ملک کو گھروں میں قید کر دیا تھا، شاید سب سے لمبا لاک ڈاؤن اپنے ملک ہندوستان میں ہی چلا تھا،جس کی مار بلکہ چوطرفہ مار عوام نے جھیلی، کاروبار ٹھپ ہوگئے، اقتصادی صورت حال بگڑ گئی،ملک کی جی ڈی پی پہلے ہی زوال پذیر تھی، جب تالا بندی ہوئی تو حکومت کے کرنے کے کام بھی عوام اور رفاہی تنظیموں نے کیے، پھر جب زندگی کا پہیہ چلا تو حکومت کے خالی خزانہ کے لیے پیسہ چاہیے تھے،بے وقت کی شہنائی بجانے والوں کو اپنے پروجیکٹ مکمل کرنے کے لیے وسائل چاہئیں، چنانچہ لاک ڈاؤن کی مصیبت سے نجات ملتے ہی مہنگائی کی نئی مار پڑی گویا سر منڈاتے ہی اولے پڑے، ذرا سوچئے جس ملک کی جی ڈی پی مائنس میں ہو، بے روز گاری کی شرح بڑھ رہی ہو اس ملک میں وسٹا پروجیکٹ کے کیا معنی، عوام کے ٹیکس کے پیسوں کا ایسا بد ترین استعمال کرنے والی حکومت کیا اس سے پہلے بھی کبھی رہی ہے؟

یہ نشہ ہی تو ہے کہ جب سو ادو لاکھ سے زیادہ کیسیز روزانہ ہوں اور پندرہ سو سے زیادہ اموات ہوں تب کمبھ کا میلہ چلے، اسی لیے حکومت کا استعفیٰ دینا تو ممکن نہیں اور کورونا مریضوں کا تحفظ اور مدد بھی اس کے بس کی بات نہیں، کیونکہ صورت حال یہ ہوگئی ہے جو جی گیا جی گیا جو مرگیا مرگیا، البتہ حکومت اقتدار میں باقی رہنے کے لیے ممکن ہے کہ جلدی ہی کچھ ایسا اعلان کردے جس پر میڈیا کی دھن اور راگ میں تمام ناکامیاں حصولیابیوں میں تبدیل ہوجائیں، جیسا کہ اب تک ہوتا آیا ہے۔

یہاں سوال یہ ہے کہ گزشتہ سال مارچ سے اب تک ہم ہر جگہ اور ہر سطح پر یہی سنتے آئے تھے کہ کورونا کی دوسری لہر اور زیادہ خطرناک آئے گی، پہلے سے زیادہ شدید ہوگی، جب یہ بات معلوم تھی تو پھر اس سے بچاؤ کے لیے تیاری کیوں نہیں کی گئی؟ آخر کیا وجہ رہی کہ لوگوں کو مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا؟ حکومت نے پورے ایک سال میں دوسری لہر سے بچاؤ کی خاطر کیا اقدامات کیے؟ آج صورتحال یہ ہے کہ دہلی کے وزیر اعلیٰ چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ مرکز اسپتالوں میں بیڈ کا انتظام کرے ہمارے پاس بیڈ نہیں ہیں، مہاراشٹر حکومت کہہ رہی ہے کہ ہمیں فوری طور پر مرکز آکسیجن سپلائی کرے۔ آکسیجن کا حال یہ ہے کہ پہلے پرائیویٹ اسپتالوں میں اس کی شارٹیج تھی، اب سرکاری اسپتالوں میں بھی آکسیجن نہیں مل رہی ہے، اسپتالوں میں جگہ نہ ہونے کے سبب لوگ گھروں میں آکسیجن کا انتظام کرکے علاج کرنے پر مجبور ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آکسیجن سلنڈر کی کالا بازاری شروع ہوگئی۔ ایک ایک سلنڈر تیس چالیس ہزار میں فروخت ہونے لگا، لکھنؤ کا حال یہ ہوگیا کہ آکسیجن کولے کر بھیڑ بے قابو ہوگئی اور وہ محکمہ صحت کے افسران سے بھڑگئی ،آکسیجن فیکٹری تک پہنچ گئی، لیکن حکومت کے کان پر جوں رینگتی نظر نہیں آئی۔ سوچئے ذرا کتنی شرمناک بات ہے کہ ادھوٹھاکرے پی ایم آفس سے رابطہ کرتے ہیں کہ ہمیں آکسیجن فوراً سپلائی کی جائے، جواب ملتا ہے مودی جی ابھی بنگال میں چناوی ریلیوں میں مصروف ہیں، واپس آئیں گے تو کوئی جواب ملے گا۔ سوال یہ ہے کہ اس پارٹی کو آخر صرف کرسی اقتدار سے پیار ہے یا عوام سے بھی؟ آج ملک آکسیجن جیسی بنیادی ضرورت کے بحران سے گزر رہا ہے تب ہماری حکومت الیکشن کی ریلیوں میں مصروف ہے۔ وزیراعظم نے 16؍اپریل کی میٹنگ میں خود تسلیم کیا کہ 12 ریاستوں میں آکسیجن کا بحران ہے۔ انھوں نے جائزہ میٹنگ میں 50ہزار میٹرک ٹن آکسیجن امپورٹ کرنے کو منظوری دی۔0 10 نئے اسپتالوں میں آکسیجن پلانٹ لگانے کی بات کی۔ سوال تو یہی ہے کہ جب دوسری لہر کی خطرناکی کا علم تھا تو پھر یہ جائزہ میٹنگ اس قدر تاخیر سے کیوں؟ رپورٹ کی یہ تجویز اب کیوں سوجھی، کیا یہ نئے سو پلانٹ اس دوسری لہر کے گزرنے کے بعد لگیں گے یا پھر ان سے اس مہلک منظرنامہ کو بدلنے میں کوئی فائدہ ملے گا؟ سوال یہ ہے کہ فی الحال لوگوں کو مرنے سے بچانے کے لیے حکومت کے پاس کیا ایکشن پلان ہے؟
کیونکہ اب تک یہ نظر آیا ہے کہ حکومت نے صرف چالان کاٹنے اور لوٹ مچانے کے علاوہ کوئی اور مؤثر اقدام نہیں کیا۔ بعض اوقات تو ایسا محسوس ہونے لگا کہ اس وقت حکومت کی ضلعی انتظامیہ صرف چالان کے ہی بل پر جی رہی ہے۔اب تو صورت حال مزید خطرناک ہے،ابھی تک صرف بڑے شہروں سے تشویشناک خبریں تھیں، اب دیہاتوں میں بھی اس وبا کے پھیلنے اور لوگوں کے مرنے کی خبریں آنے لگی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ دوسری لہر آنے سے پہلے گزشتہ سال کے تجربات کو سامنے رکھ کر تحفظات کے لیے کیا اقدام کیے گئے، صرف جرمانہ کی رقم بڑھائی گئی یا ویکسینیشن کی رفتار بھی؟ ہندوستان جیسا ملک جو وشوگرو ہونے کا دعویٰ کر رہا ہے، وہاں بنیادی انجکشن کی کمی کیسے ہوگئی، آکسیجن کیسے کم پڑ گئی، وقت رہتے تیاری کیوں نہ کی گئی، تالی تھالی اور لاٹھی و جرمانہ کے ساتھ بیداری مہم پر توجہ کیوں نہ دی گئی؟تباہی اگرپہلی لہر میں مچتی تو بات سمجھ میں آتی لیکن ایک تجربہ سے گزرنے اور بہت کچھ سال بھر سے بند ہونے کے باوجود دوسری لہرمیں تباہی کے جو مناظر نظروں کے سامنے ہیں، وہ صاف بتاتے ہیں کہ راجا کو پرجا میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ وقت رہتے ہوئے کوئی تیاری نہیں کی گئی، اصل توجہ وسٹا پروجیکٹ پر دی گئی، حکومت گرانے اوربنانے پر دی گئی، جو کچھ وقت ملا بنگال کے اقتدار حاصل کرنے کے طریقوں میں لگا دی گئی۔ آج دیکھا جاسکتا ہے کہ جب ملک میں انسان کیڑوں کی طرح مر رہے ہیں، روزانہ کی شرح اموات1500سے متجاوز ہے، اس وقت حکومت اپنی سیاست میں مصروف ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اب حکومت مرنے والوں کی صحیح تعداد نہیں بتا رہی ہے کیوں کہ اب اس کے کردار پر بات بن پڑی ہے اور اندھ بھکت بھی سوچنے لگے ہیں،وہ اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈال رہی ہے۔ یاد ہوگا کہ پی ایم مودی نے ایک دن کا جنتا کرفیو لگایا تھا تو یوگی جی نے 4دن کا یوپی میں لاک ڈاؤن کر دیا تھا، لیکن کل جب الٰہ باد ہائی کورٹ نے ڈائریکشن دی کہ حکومت ریاست کے 5 شہروں کو مکمل طور پر بند کرے تو یوگی جی بھڑک گئے کیوں؟ اس لیے کہ اب اپنی ناکامیوں کو چھپانا ہے، لوگ مرتے ہیں تو مرجائیں لیکن لاک ڈاؤن نہیں ہوگا۔
حکومت کی پہلی غلطی گزشتہ سال بغیر سوچے سمجھے لاک ڈاؤن تھا جس نے بے روز گاری میں اس قدر اضافہ کردیا جس کا تصور ممکن نہیں۔ دوسری غلطی ایک وبائی بیماری کو پینک اور نفرت کی علامت بنانا تھا، لوگوں کو اس قدر خوف و ہراس میں مبتلا کردیا کہ ایک تعداد صرف خوف سے مر رہی ہے۔ حالانکہ کورونا کے اکثر مریض تو صحیح ہوجاتے ہیں، اعدادوشمار یہی دکھاتے ہیں، آدمی پہلے اسٹیج پر آکر ڈر نہ جائے اور صحیح علاج لے لے تو اسے اسپتال جانے کی نوبت نہیں آتی لیکن حکومت اور اس کے میڈیا نے ہر آدمی کو پینک بناکر رکھ دیا، تیسری اور سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ پہلے سے معلوم ہونے کے باوجود اس نے تیاری نہ کی، اسپتالوں میں بیڈ کم پڑ جائیں، فوری طور پر عارضی اسپتال نہ تیار ہو سکیں، آکسیجن سے بارہ ریاستیں جوجھنے لگیں، انجکشن کے لیے اپیلیں ہونے لگیں، لوگ اس طرح مرنے لگیں کہ ارتھیاں شمشان میں چھوڑ کر وارثین بھاگ جائیں تو ایسی حکومت کو اخلاقی طور پر مستعفی ہوجانا چاہیے،لیکن وہ کیوں ہوگی جب اس کی پرجا خود مذہبی افیم کے نشے میں رہتی ہے۔ غور سے دیکھئے، یہ نشہ ہی تو ہے کہ جب سو ادو لاکھ سے زیادہ کیسیز روزانہ ہوں اور پندرہ سو سے زیادہ اموات ہوں تب کمبھ کا میلہ چلے، اسی لیے حکومت کا استعفیٰ دینا تو ممکن نہیں اور کورونا مریضوں کا تحفظ اور مدد بھی اس کے بس کی بات نہیں، کیونکہ صورت حال یہ ہوگئی ہے جو جی گیا جی گیا جو مرگیا مرگیا، البتہ حکومت اقتدار میں باقی رہنے کے لیے ممکن ہے کہ جلدی ہی کچھ ایسا اعلان کردے جس پر میڈیا کی دھن اور راگ میں تمام ناکامیاں حصولیابیوں میں تبدیل ہوجائیں، جیسا کہ اب تک ہوتا آیا ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS