خواجہ عبدالمنتقم: عدلیہ اور عاملہ کے مابین کالجیم سے متعلق تنازع فی الوقت ختم

0

خواجہ عبدالمنتقم

ہر مہذب معاشرے کا تقاضا ہے کہ وہاں عدلیہ کو مکمل آزادی حاصل ہو اور انتظامیہ وقانون ساز اداروں کو اس بات کی اجازت نہ ہو کہ وہ عدالت کے کام کاج میں دخل اندازی کرسکیں لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ جج اپنے من مانے ڈھنگ سے کام کریں اور دراصل ایسا ہوتا بھی نہیں ہے۔کچھ عرصہ سے عدلیہ اور عاملہ کے مابین کالجیم سے متعلق تناز عہ سے یہ اشارہ مل رہا تھا کہ جیسے سپریم کورٹ کے ججز کی تقرری سے متعلق اس کے (سپریم کورٹ کے) ا ختیارات کی عمل آوری پر روک لگائی جا رہی ہے یا انھیں نظر انداز کیا جارہا ہے جس کے سبب اس کے وقار اور آزادی میں بتدریج کمی آرہی ہے ۔وزیر قانون کرن رججیو کے الٰہ آباد ہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن کے 150 سال پورے ہونے سے متعلق تقریب میں دئے گئے اس بیان سے کہ اب عدلیہ اور عاملہ کے مابین کوئی تنازع نہیں ہے ، وہ قانون کی بالا دستی میں یقین رکھتے ہیں، قانون کی نظر میںعدلیاتی و سول حکام ملک کے سیوک یعنی خادم ہیں اور اب پانچ ججز کی تقرری کو منظوری بھی مل گئی ہے(اب یہ ججز حلف بھی لے چکے ہیں) اشارہ ملنے لگا ہے کہ حکومت کے رویہ میں نرمی آئی ہے۔
حکومت سپریم کورٹ کے کسی انتظامی معاملے میں دئے گئے مشورہ کا احترام تو کر سکتی ہے لیکن اسے ماننے کے لیے مجبور نہیں البتہ اگر وہ فیصلہ قانونی نوعیت کا ہے اور اسے آئین کی دفعہ 141 کے تحت عدالتی نظیر کا درجہ حاصل ہے توانتظامیہ کے لیے اس کی پابندی لازمی ہے۔مگر یاد رہے کہ سپریم کورٹ کا کوئی فیصلہ بھی تب تک نظیر نہیں بن سکتا جب تک کہ سپریم کورٹ نے اس معاملے میں کسی قانونی مدعے کی بابت باقاعدہ فیصلہ نہ دیا ہو۔ ریاست پنجاب بنام سریندر کمار والے معاملے (1992ایس سی سی 489) میں سپریم کورٹ نے یہ حکم جاری کیا تھا کہ ایک عارضی ملازم کی باضابطہ تقرری کی جائے لیکن یہ حکم صادر کرتے وقت اس نے ایسا کرنے کے اسباب قلمبند نہیں کیے تھے لہٰذا سپریم کورٹ کا یہ حکم نظیر کی شکل اختیار نہیں کرسکتا۔ اسی طرح اگر عدالت نے کوئی فیصلہ دیتے وقت کوئی ایسی ضمنی رائے پیش کی ہو جس سے مقدمے کا کوئی تعلق نہ ہو تو وہ نظیر نہیں بن سکتی مگر یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ سپریم کورٹ کی ضمنی رائے کی بھی ہائی کورٹیں ایسی صورت میں پابند ہوں گی جب اس کے متضاد کو ئی قابل پابندی فیصلہ موجود ہو۔
اس کے ساتھ ساتھ آئین کی دفعہ 144کے مطابق تمام سول اور عدالتی حکام کا یہ فرض ہے کہ وہ سپریم کورٹ کی حسب ضرورت مدد کریں یعنی سپریم کورٹ اپنے فرائض کی انجام دہی میں ان سے جو بھی کام کرنے کے لیے کہے یا مدد مانگے ،حسب صورت کریں، یا بہم پہنچائیں۔ اگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہتے ہیں اور اس ضمن میں اپنے فرائض ٹھیک سے انجام نہیں دیتے تو سپریم کورٹ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ قاصر رہنے والے فریق پر جرمانہ بھی عائد کرسکتا ہے، اسے سزا بھی دے سکتا ہے اور اس پر خرچہ بھی ڈال سکتا ہے۔ دنیش بنام موتی لال نہرو کالج والے معاملے (اے آئی آر1990 ایس سی2030) میں یہ فیصلہ دیا تھا کہ اگر حکومت بھی اس ضمن میں اپنے فرائض کی انجام دہی میں کو تاہی برتتی ہے اور اسے جو کام سونپا گیا ہے اس کے کرنے میں قاصر رہتی ہے تو سپریم کورٹ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس پر خرچہ ڈال سکے۔
کالجیم کے معاملے میں حکومت کی جانب سے برتی جانے والی نرمی کو سپریم کورٹ کے ججز کی اس تنبیہ کا رد عمل سمجھنا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اگر حکومت نے ان کے سجھاؤ کا احترام نہیں کیا تو وہ کوئی سخت قدم بھی اٹھا سکتے ہیں، نادانی ہوگی چونکہ حکومت کو حکمرانی کے مختلف النوع اصولوں کے مد نظر ہر فیصلہ لینے سے قبل اس کے مختلف پہلوؤں پر غور کرنا پڑتا ہے۔
کچھ دن قبل وزیر موصوف نے کہا تھا کہ ججز کے انتخاب کے معاملے میں سماجی نقطۂ نظر سے ملک کے مختلف طبقات و زمروں کی نمائندگی پر بھی غور کیا جانا چاہئے ۔ ان کا یہ سجھاؤ یقینی طور پر قابل تحسین ہے بشرطیکہ اس پر دیانتداری اور مکمل معروضیت کے ساتھ عمل کیا جائے اور ایسے فیصلے صرف ملک و قوم کے مفاد کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ہی لیے جائیں اور انھیں سیاست سے دور رکھا جائے لیکن اس بات کا خیال ضرور رکھا جائے کہ منتخب افراد اس عہدے کے حقیقی معنوں میں اہل ہوں۔ یاد رہے کہ اہل لوگوں کی کسی بھی طبقے میں کمی نہیں ہے مگر مسئلہ موقع ملنے اور موقع فراہم کرنے کا ہے۔ کون سا طبقہ ہے جس میں ایک سے ایک قابل و ممتاز ماہرین قانون نہیں ہوئے جنھیں آئین کی دفعہ 124 کے تحت ممتاز قانون داں ہونے کی بنیاد پر سپریم کورٹ کا جج مقرر کیا جا سکتا تھا۔
اگر ہم مسلمانان ہند کی بات کریں تو ان میں بھی ممتاز ماہرین قانون کی کبھی کمی نہیں رہی مگر انہیں راست انتخاب میں ایسا موقع نہیں ملا۔ دیگر طور پر بھی ان کی نمائندگی ہر دور حکومت میں کم ہی رہی ہے۔ اب تو اسرائیل جیسے ملک میں جسے اکثر سیاسی وجوہات کے سبب تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے(جو یہاں موضوع بحث نہیں ہے) فروری 2022میں ایک مسلمان کو سپریم کورٹ کا جج مقرر کیا گیا تھا۔ علاوہ ازیں تمام مرکزی اور ریاستی ملازمتوں میں مسلمانوں کی تعداد ان کی آبادی کے مقابلے میں تقریباً ’’نہ‘‘ کے برابر یعنی بہت کم ہے اور بعض بعض جگہ تو یہ تناسب آٹے میں نمک جیسا بھی نہیں ہے۔یہاں تک کہ عدلیہ جس کی جانب سبھی لوگ عدالتی اور سماجی انصاف کے لیے رجوع کرتے ہیں اُن میں بھی ا ن ا تناسب تقریباً ’’نہ‘‘ کے برابر ہے۔ گجرات میں جہاں ہمارے راشٹر پتا مہاتما گاندھی پلے بڑھے، مساوات اور بھائی چارے کی تعلیم دی بلکہ تبلیغ کی، اُس صوبے کی ہائی کورٹ میں 30ججوںمیں سے کبھی کبھی کوئی مسلمان جج نظر آتا ہے۔ اسی طرح ریاست جموں وکشمیر (جسے اب یونین علاقہ کا درجہ مل چکا ہے) ،جس کی 67%آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے، میں بھی صورت حال اطمینان بخش نہیں رہی ہے۔ اگرچہ مذہبی بنیاد پر ججز کی تقرری کی وکالت نہیں کی جا سکتی اور عدلیہ میں آبادی کے اعتبار سے نمائندگی پر سختی سے عمل کرنے سے زیادہ یہ ضروری ہے کہ جج صاحبان منصف مزاج ہوں اور متعلقہ فریقین کو پورا پورا انصاف ملے۔لیکن ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کے سماجی جمہوریت(social democracy) کے تصور کو، جس کی ہماری موجودہ حکومت بھی حمایت و و کالت کرتی ہے عملی جامہ پہنانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ تمام طبقات کو ہر شعبہ ٔ حیات میں مساوی مواقع میسر ہوں۔ان کا کہنا تھا:
’ہم جو کچھ کرنا چاہتے ہیں وہ محض سیاسی جمہوریت سے حاصل نہیںہو سکتا۔ہمیںسیاسی جمہوریت کو سماجی جمہوریت کی شکل دینی ہوگی۔سیاسی جمہوریت کی بقا اس بات پر منحصر ہے کہ اس کی بنیاد سماجی جمہوریت پر ہو ۔‘
(مضمون نگار آزاد صحافی، مصنف، سابق بیورکریٹ اور عالمی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تاحیات رکن ہیں)
[email protected]

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS