زین شمسی: یہ رشتہ کیا کہلاتا ہے؟

0

زین شمسی

رشتوں کی مختلف اقسام ہوتی ہیں۔ ذاتی رشتے جس میں بھائی، بہن، ماں، باپ، مامی، چاچی، خالہ خالو، بہنوئی، سالا، یعنی یہ تمام رشتے ایسے ہیں جو ہر انسانی زندگی میں ہونے ہی ہیں۔ یہ رشتہ نبھانا بھی ہوتا ہے اور اس کا لحاظ بھی رکھنا ہوتا ہے، باوجود اس کے رشتہ داروں کی لڑائیاں بھی عام ہیں، جہاں رشتے ہوں گے وہاں جھگڑے بھی ہوں گے، چونکہ ذاتی رشتے خون کے ہوتے ہیں، اس لیے ایسے رشتوں میں خون کم بہتا ہے، مگر خون بہت زیادہ کھولتا ہے۔
ایک رشتہ دوستوں کا ہوتا ہے۔ یہ رشتہ خون سے نہیں دماغ سے پروان چڑھتا ہے۔ پسند،ناپسند اور اچھائی و برائی کے ساتھ اس رشتے کی شروعات ہوتی ہے۔ بچپن سے لے کر عمر کے اتمام تک کوئی ایسا دوست آخر تک بچا رہ جاتا ہے، جس کے ساتھ بچپن کی شرارت، جوانی کی رنگینی اور بڑھاپے کی ناامیدی رنگ لاتی ہے۔ یہی ایک ایسا رشتہ ہے جس میں مفاد کار آمد نہیں ہوتا بلکہ بے لوث جذبات کام کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ انسان کا کردار اس کے دوستوں سے طے ہوتا ہے۔ جس کا دوست جس قماش کا ہوگا وہ بھی اسی کردار کا ہوگا۔ اچھا دوست قسمت اور قربانی سے ملتا ہے۔
تیسرا رشتہ سماجی ہوتا ہے۔اپنے گرد و نواح میں رہنے والے لوگوں کا خیال رکھنا۔ ان کے دکھ درد میں شریک ہونا۔ ان کی پریشانیوں میں ساتھ دینا۔ وہ پڑوسی بھی ہوسکتے ہیں اور محلے والے بھی۔کسی بھی ذات و دھرم کے ہوسکتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ وہ آپ سے کبھی ملے بھی ہوں، مگر آپ یہ جانتے ہیں کہ وہ محلے یا گلی کے ہیں تو ان کا ساتھ دینا، یا ان کا ساتھ لینا کبھی کبھی آپ کی زندگی کاواقعہ ہو سکتا ہے۔ ہاں کبھی کبھی یکساں مفاد کا ٹکرائو یہاں بھی خون خرابہ کا خوب امکان پیدا کرتا ہے۔
پولیس اور عوام کا رشتہ، ڈاکٹر اور مریض کا رشتہ، استاد اور شاگرد کا رشتہ مالک اور مزدور کا رشتہ۔ نہ جانے کتنے رشتے ہیں، جس کونبھانا آدمی کی مجبوری بھی ہے اور ذمہ داری بھی ہے، لیکن ایک جو سب سے بڑا رشتہ ہوتا ہے وہ سرکار اور عام عوام کا رشتہ۔ یہ رشتہ سب سے اہم ہوتا ہے، اگر یہ رشتہ ایمانداری اور منصفانہ طریقہ سے نبھایا جائے تو باقی کے تمام رشتے خوشگوار طریقے سے خودبخود مضبوط ہوتے جائیں گے۔ سرکاریں سماج کے اقتصادی امور کو طے کرتی ہیں۔ عوام کا پیسہ عوام پر خرچ کرتی ہیں۔ عوام کی سہولت کے لیے لائحہ عمل بناتی ہیں، پالیسیاں، پلاننگ اور حکمت عملی کے ساتھ اس رشتہ کو نبھاتی ہیں تاکہ دیش میں رہنے والے لوگ خوشحال رہیں اور ناگہانی مصیبت کا شکار نہ بنیں۔ مگر افسوس کا مقام یہ ہے کہ اس رشتہ کے تقدس کو کبھی بھی سنجیدگی سے نہیں لیاگیا۔ سیاست نے عوام کو اسی حد تک بیدار اور خوشحال کیا جتناسیاسی مفاد کے لیے ضروری تھا، باقی اس نے مخصوس لوگوں کے ساتھ اپنے رشتے استوار کیے اور اس بات کا کبھی خیال نہیں رکھا کہ ملک میں رہنے والے غریب و نادار لوگوں کی زندگیاں کیسے تبدیل کی جائیں۔ باتیں غریبی کی ہوتی رہیں اور فائدہ امیروں کا ہوتا گیا۔ سرکار اور عوام کے درمیان کے رشتوں میں عوام ہمیشہ خالی ہاتھ ہی رہے۔ انہیں معلوم ہی نہیں ہو سکا کہ سرکاریں ان کے ساتھ کس طرح کا سلوک کر رہی ہیں۔
آج کل سرکار اور اڈانی کے رشتوں کی بات زوروں پر چل رہی ہے، تاہم صنعت کاروں اور سرکار کے درمیان رشتے میںکوئی نئی بات نہیں، ملک کی ترقی میںسرکار کو سرمایہ کاروں کی ضرورت پڑتی ہی ہے۔ اسی کے ذریعہ صنعتیں قائم ہوتی ہیں اور اسی کے ذریعہ نہریں کھودی جاتی ہیں، پل بنائے جاتے ہیں اور سڑکیں، اسٹیشن اور ہوائی اڈے تیار ہوتے ہیں۔ ایک طرح سے صنعت کار یا سرمایہ دار سرکار کا ہاتھ مضبوط کرتے ہیں اور اس کے بدلے میں اپنا کچھ حصہ طے کر لیتے ہیں، مگر اس رشتہ پر انگلی تب اٹھتی ہے جب سرمایہ کار اور سرکار آپس میں تال میل کرکے عوامی فلاح کو نظرانداز کر جاتے ہیں۔ کانگریس کے زمانے میں پیدا ہوئے بچے ٹاٹا اوربرلا سے اسی طرح واقف ہیں، جیسے بی جے پی کے زمانے کے بچے امبانی، اڈانی سے ہوگئے ہیں۔ ہوا یہ ہے کہ بھارت جوڑو یاترا کا کامیاب اختتام کرنے کے بعد راہل گاندھی نے 8ارب کی مالیت سے 140ارب کی مالیت پر پہنچنے والے صنعت کار اڈانی اور وزیراعظم کے رشتوں کو پارلیمنٹ میں طشت ازبام کر دیا۔ ظاہر ہے کہ ان کے اس عمل پر ہنگامہ ہونا تھا، ہنگامہ بڑھا اور بی جے پی کے ایک لیڈر نے ان پر مقدمہ دائر کرنے کی بات کہہ دی اور وزیراعظم ہند نے دوسرے دن راہل گاندھی کے اس الزام کو ہنسی میں اڑا دیا۔ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ہنڈن برگ کے اس انکشاف سے جس میں اڈانی کی صنعت کاری پر فراڈ کا معاملہ سامنے آیا، ملک میں جس طرح کا ہنگامہ ہونا تھا نہیں ہو سکا، کیونکہ بڑے لوگوں کے گناہوں کو چھپانے کی ذمہ داری سرکاروں نے لے رکھی ہے۔ پنامہ پیپر لیکس معاملہ میں بھی کان میں جوں نہیں رینگی، مالیا، نیرو اور چوکسی معاملہ کو سیاسی اور میڈیائی غلاف میں چھپا لیا گیا۔ اب اڈانی معاملہ پر بھی تاکید کر دی گئی کہ یہ نریندمودی کی شبیہ کو ٹھیس پہنچانے کی کوئی کارستانی ہوسکتی ہے، تاہم اڈانی کے اس معاملہ سے ایل آئی سی اور اسٹیٹ بینک آف انڈیا کی سرمایہ کار کو کراری ضرب لگی ہے، لیکن اس کا حل کچھ اس طرح سے نکل جائے گا کہ عوام پر مزید ٹیکس کا بوجھ بڑھ جائے گا۔
اب اس رشتہ کو کیا کہا جا سکتا ہے۔ کسان لون لے کر پھانسی پر چڑھ جائے، مڈل کلاس لون نہ چکانے پر نوکری سے جائے۔ عوامی فلاح و بہبود محکمہ اپنے گھریلو بہبود میں لگ جائے تو پھر عوام اور سرکار کے رشتے کو کیا نام دیا جائے۔ سرکاریں عوام کے لیے عوام کے ذریعہ عوام کی ہوتی ہیں تو پھر اقتصادی یا ترقیاتی معاملہ میں عوام کی ترقی کس کونے میں چھپ کر بیٹھ جاتی ہے۔ اس لیے عوام اور سرکار کا رشتہ محض ایک دھوکہ ہے۔ یہ ایک سیڑھی ہے جس پر چڑھ کر امیر لوگ امیر ترین لوگ بنتے ہیں۔ ایمانداری اور منصفانہ فیصلہ عوام کے حق میں کبھی ہوتا ہی نہیں۔ ان پر صرف مقدمہ ہوتا ہے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
[email protected]

 

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS