کرناٹک کے انتخابات اور قومی سیاست

0

پروفیسر عتیق احمدفاروقی
کرناٹک اسمبلی الیکشن کی سرگرمیاں اپنے شباب پر ہیں۔ آنے والے دس مئی کو ریاست کی 224 اسمبلی نشستوں کیلئے ووٹ ڈالیں جانے ہیں۔ یہ انتخاب بھلے ہی ایک ریاست میں ہورہاہو لیکن اس کے نتائج کی گونج ملکی سطح تک سنائی دے گی۔ کرناٹک جنوب میں بی جے پی کا تنہا قلعہ ہے اوریہاں شکست ہونے پر جنوب میں توسیع کے اس کے امکانات کو نقصان پہنچے گا۔ وہیں کانگریس کیلئے بھی یہ چناؤ فیصلہ کن بن گیاہے ۔ طویل عرصہ کے بعد گاندھی- نہرو خاندان سے باہر پارٹی کی قیادت سنبھالنے والے ملّکارجن گھڑگے کا تعلق کرناٹک سے ہی ہے۔ اس لئے پارٹی اوراس کے صدر کاوقار داؤں پر لگاہواہے۔ حاشیے پر چل رہے جنتادل (S) کے سامنے بھی اپنی طاقت ثابت کرنے کا چیلنج ہے کہ وہ سیاسی پنڈتوں کے ذریعے اسے خارج کرنے کے دعوؤں کو غلط ثابت کریں۔
کانگریس کیلئے تو یہ الیکشن ’کرو یا مرو ‘کا سوال بن گیاہے۔ کیونکہ چناؤ میں اس کی کارکردگی ہی 2024کے عام چناؤ میں اس کے امکانات کوسمت دے گی۔ بہتر مظاہرہ کرنے پر ہی وہ حزب مخالف کے اتحاد کا محور بن سکتاہے، نہیں تو اس کی سیاسی مول بھاؤ کی قوت گھٹ جائے گی۔ اب تک رجحانوں کے لحاظ سے کانگریس کیلئے کرناٹک کی راہ نسبتاً آسان لگ رہی ہے۔ اس میں ریاست میں بی جے پی کے خلاف سیاسی ماحول کا بھی ایک اہم کردار ہے۔ باسو راج بوممبئی کی قیادت والی بی جے پی حکومت بدعنوانی کے الزامات کا سامنا کر رہی ہے ۔وہیں ٹکٹ کی تقسیم میں بھی ناراضگی واضح طور پر نظرآئی۔ ناراض لیڈران پارٹی چھوڑ کر جارہے ہیں۔ ان میں سابق وزیراعلیٰ اورریاست میں بااثر لنگایت فرقہ سے آنے والے جگدیش شتّارجیسے چہرے بھی شامل ہیں۔ حالانکہ ابھی یہ کہنا جلد بازی ہوگی کہ بی جے پی کواس سے کتنا نقصان پہنچے گا۔ ایسا اس لئے ہے کیونکہ اس نے کئی موجودہ ایم ایل اے کا ٹکٹ کاٹ کر نئے چہروں کو موقع دے کر اقتدار مخالف رجحان کو روکنے کا داؤں چلاہے۔ اُس کی یہ حکمت عملی دیگر ریاستوں میں بھی فائدے مند ثابت ہوتی رہی رہے۔ جہاںتک لنگایت فرقہ کا تعلق ہے تو سابق وزیراعلیٰ بی ایس یدیورپا ابھی بھی اس طبقہ کے سب سے عظیم اوروسیع مقبولیت والے لیڈر تسلیم کئے جاتے ہیں۔ کانگریس میں سطحی طور پر تو سب ٹھیک لگ رہاہے لیکن سابق وزیراعلیٰ سدھا رمیّااورپارٹی کی ریاستی یونٹ کے سربراہ بی کے شیوکمار کے بیچ تنازعہ کسی سے چھپانہیں ہے۔ گزشتہ انتخابات میں کنگ میکر بن کر ابھرے جنتادل (ایس )میں بھی ٹکٹ تقسیم کو لیکر ناراضگی ہے۔ دیوگوڑا خاندان میں ہی کشیدگی جاری ہے ۔ ان پر حد سے زیادہ کنبہ پروری کے الزامات لگ رہے ہیں۔ دیکھاجائے توتینوں ہی پارٹیاں کسی نہ کسی طرح کی مشکلوں سے جوجھ رہی ہیں۔
کرناٹک کی منقسم سیاست کو دیکھتے ہوئے یہاں کے اقتدار کے ہدف پر نشانہ لگانا آسان نہیں ہے۔ ریاست کی سیاست میں نہ صرف علاقائی بنیادپر بلکہ سماجی سطح پر بھی دکھتی ہے۔ شمالی کنڑ اورساحلی علاقوں میں جہاں بی جے پی کی اچھی پکڑ ہے توآندھرا سے منسلک وسطی خطوں میں کانگریس کا اچھا خاصہ اثر ہے اورمیسور والے جنوبی حصوں میں جنتادل (ایس)یایوں کہیں کہ دیو گوڑا خاندان کی ٹھیک ٹھاک پکڑ ہے۔ اس بکھراؤ کا اثر گزشتہ انتخابی نتائج میں دکھتاہے۔ یہی سبب ہے کہ گزشتہ بیس سالوں میں کرناٹک میں کسی پارٹی کی واضح اکثریت والی حکومت صرف ایک بار بنی ہے۔ 2013میں کانگریس کی واضح اکثریت کی حکومت بننے کے پیچھے ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ اس وقت یدیورپانے بی جے پی سے الگ ہوکر اپنی پارٹی بنائی جس کا خمیازہ بی جے پی کو بھگتنا پڑاتھا۔ اب دیکھنا ہوگاکہ کیا یہ تینوں پارٹیاں اپنے اپنے دائرہ اثرمیں اپنی بنیاد مضبوط بنائے رکھتے ہوئے دوسرے علاقوں میں بھی اپنی پکڑ بنانے میں کامیاب ہوپاتے ہیں یا نہیں ؟
ریاست کے بااثر لنگایت اورووکّالگافرقوں کواپنی جانب راغب کرنے میں بھی سبھی پارٹیاں کوشاں ہیں۔ ریاست میں تقریباً16 سے18فیصد تعداد لنگایتوں کی ہے اوریہ گزشتہ کچھ عرصہ سے بی جے پی کے روایتی ووٹرمانے جاتے ہیں۔ اب شیتّار جیسے لیڈر کے کانگریس کے پالے میں جانے پر دیکھناہوگاکہ پارٹی کولنگایت ووٹوںمیں سیند لگانے میں کتنی کامیابی ملتی ہے؟اس سے پہلے سدھ رمیا نے وزیراعلیٰ رہتے ہوئے لنگایتوں کو الگ مذہب کا درجہ دینے کی پہل کی تھی جس کا انہیں کوئی سیاسی فائدہ نہیں ملا۔ وہیں بی جے پی حکومت نے ان دونوں فرقوں کو اپنی جانب راغب کرنے کیلئے مسلمانوں کا چار فیصد ریزرویشن لنگایت اورووکّالگامیں دودو فیصد تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا، جس پر فی الحال عدالت عظمیٰ نے روک لگادی ہے۔ بی جے پی نے اس بار پہلے سے کہیں زیادہ ووکّالگا امیدوار بھی میدان میں اتارے ہیں۔ حالانکہ دیو گوڑا خاندان کو ابھی بھی ووکا لگا طبقہ کا سب سے بڑا سیاسی نمائندہ ماناجاتاہے اورڈی کے شیوکمار کا بھی تعلق اسی فرقہ سے ہے۔ ایسے میں سماجی مسابقت بھی 13مئی کو آنے والے انتخابی نتیجوں کی سمت ونوعیت طے کرے گی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اسمبلی الیکشن کے ان نتیجوں کے ملکی سطح پر اثرات دیکھنے کو ملیں گے۔ اگرکانگریس کو فتح حاصل ہوتی ہے توبی جے پی کے خلاف حزب مخالف کے اتحاد کی قواعد نئے سرے سے شروع ہوتی دکھے گی۔ جس میں کانگریس کا وزن زیادہ ہوگا۔ ہمیں یاد رکھناچاہیے کہ جب گزشتہ دنوں کانگریس اورجتنا دل (ایس )کی مخلوط حکومت بنی تھی توکمار سوامی حلف کی تقریب میں غیر بی جے پی پارٹیاں بنگلورو میں ایک ڈائس پر دکھائے دئے تھے۔ حالانکہ کسی اسمبلی کے نتیجوں کو لوک سبھا کے امکانات سے پوری طرح جوڑ کر دیکھنا بھی مناسب نہیں کیونکہ دونوں چناؤں میں مدعے اورنظریات الگ الگ ہوتے ہیں۔ گزشتہ عام انتخابات سے ٹھیک پہلے بی جے پی راجستھان ،مدھیہ پردیش اورچھتیس گڑھ میں ہار گئی تھی لیکن لوک سبھا میں انتخابی میں وہاں بی جے پی نے زبردست مظاہرہ کیاتھا۔ اسی طرح کرناٹک اسمبلی الیکشن کے مقابلے وہاں لوک سبھا میں بی جے پی کو زبردست کامیابی ملی تھی اوروہ بھی تب جب کانگریس اورجنتادل (ایس)نے وہ الیکشن متحدہ طورپر لڑاتھا۔ بہر حال کرناٹک کے نتیجوں سے کہیں زیادہ اہم بات یہ ہوگی کہ اس چناؤمہم کے دوران کون سے مدعے ابھر کر ملکی سیاسی سطح پر خاص مقام حاصل کرتے ہیں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS