قومی جنرل ایک دوسرے کے خون کے پیاسے کیوں؟

0

افریقہ کے ایک اہم اور مسلم عرب ملک سوڈان نے فوج اور سول لوگوں کے درمیان جو تصادم تھا اب وہ فوج کی آپسی خلفشار میں تبدیل ہوگیا ہے۔ سوڈان کی دو اہم مسلح فوجی ادارے سوڈانی آرمی اور ریپڈ سپورٹ فورس میں ایسا تصادم پھوٹ پڑا ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا اور جس شدت کے ساتھ یہ جنگ راجدھانی سے نکل کر ملک کے دیگر حصوں میں پھیلتی جا رہی ہے اس سے بین الاقوامی سطح پر فکر مندی کا اظہار کیا جا رہا ہے اگرچہ اس کشمکش کی تاریح ماضی میں پیوشت ہے مگر اس کشمکش کی پس پشت کئی غیر ملکی طاقتیں اپنا کھیل کھیل رہی ہیں۔ اس جنگ کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ چند دن قبل ہونے والی اس خونی بحران کا اثر بین الاقوامی سطح پر دکھائی دینے لگا ہے۔ کئی ممالک جو فی الحال اقتدار عوامی تنظیموں اور سیاسی پارٹیوں کے اتحاد کو منتقل کرنے کی بات کررہے تھے۔ اپنے شہریوں کو اور یہاں تک کہ سفارتی عملے کو بھی نکالنے کی تگ ودو میں لگ گئے ہیں۔ مگر امریکہ جیسے طاقتور ملک کوبھی ایسا لگتا ہے کہ وہ اپنے سفارتی عملے کو بھی اتنی آسانی سے نہیں نکال پائے گا۔ سعودی عرب نے بھی ہندوستانی پاکستانی وبنگلہ دیش سمیت کئی ملکوں کے شہریوں کو سوڈان سے نکالنے کے لیے اپنا اثرورسوخ استعمال کیا ہے اور انخلا کے لیے خصوصی انتظام کیے ہیں۔ یہ بحران اتنا شدید ہے کہ فوج نے عید الفطر کے موقع پر ہی کسی قسم کی جنگ بندی سے انکار کیا اور جس دوران عید الفطر کی نماز ادا کی جا رہی تھی تو لوگوں نے گولیوں اور میزائلوں کی آوازیں کے درمیان دھڑکتے دلوں کے ساتھ نماز ادا کررہے تھے۔
بہت سے لوگوں نے ایسے مقامات پر نماز ادا کرنے کی کوشش کی جو کہ محفوظ ہو اور فوجیوں یا پیرا ملیٹری فوجی دستے ریپڈ سپورٹ فورس(آر ایس ایف) کی گولیاں ان کو نہ لگے۔ اقوام متحدہ اوراس کے ذیلی اداروں نے اس صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے فوری طور پر دونوں فریقوں کو اس مسئلہ اور تنازع کو حل کرنے کی گزراش کی ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کا کہنا ہے کہ اس کے پاس 413لوگوں کی اموات کم از کم 3551افراد کی زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔ ڈبلیو ایچ او کا کہناہے کہ اس جنگ میں ابھی تک کم از کم 9بچے ہلاک ہوئے ہیںجبکہ 50سے زائد زخمی ہوگئے ہیں۔ ان اطلاعات اور تفصیلات سے لگتا ہے کہ یہ جنگ عام افریقی ملکوں کی خانہ جنگی کی طرح اتنی ہی وحشت ناک اور دردناک ہے۔ حد تو یہ ہوگئی ہے کہ راجدھانی خرطوم کے ارد گرد بمباری اور فوجی جھڑپوں کی وجہ سے زبردست تباہی مچی ہوئی ہے۔ مقانی آبادی کا کہناہے کہ رمضان میں جب ہماری آنکھ اذان کی آواز سے کھلتی تھی مگر اب گولہ باری اور قتل غارت کی وجہ سے آنکھ نہیں لگتی ۔ ناروے کے سفیر برائے سوڈان اندرے اسٹیامین نے عید کے موقع ٹوئٹر ہینڈل پر لکھا ہے کہ آج عید کا دن ہے کیا کوئی تصور کرسکتا ہے کہ اس سے بھیانک کچھ اور ہوگا۔
حالات اس قدر خراب ہیں کہ بین الاقوامی سطح پر ادارے اور تنظیمیں اس بات کی درخواست کرتی رہ گئی کہ چھٹی کے دنوں میں جنگ بندی کردی جائے مگر ایسا نہ ہوسکا۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا تھا کہ عید پر جنگ بندی کی جائے۔ ریپڈ سپورٹ فورس (آر ایس پی) نے وعدہ بھی کیا وہ تین دن کے لیے عید کے موقع پر جنگ بندی کے لیے راضی ہوگئے ہیں مگرفو ج نے جس کی قیادت جنرل عبدالفتح ،جنرل برہان کررہے ہیں صاف انکار کردیا کہ وہ کسی بھی جنگ بندی کے لیے تیار نہیں ہیں۔ سوڈانی فوج کے تیور انتہائی جارحانہ ہے اور ہوں بھی کیوں نہیں آخر کار ان کے پاس فضائی طاقت ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ آر ایس ایف خود سپردگی کرے اور وہ کسی حالت میں اس پیرا ملیٹری فورس کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیارنہیں ہیں۔ بہر حال یہ صورت حال ان لوگو ںکے لیے اور زیادہ تکلیف دہ ہے جو کہ مسلسل 18ماہ سے حکمراں فوجی اتحاد جو کہ اب تک سوڈانی آرمی اور آر ایس ایف پر مشتمل تھا، سے سوڈان میں قیام جمہوریت کے لیے مذاکرات کررہے تھے۔ ان دونوں لیڈروں نے جمہوریت کے قیام کے لیے سول انتظامیہ اور جمہوریت نواز تنظیموں سے ایک ایسے عبوری نظام کے لیے مذاکرات کرلیے تھے جو سوڈان میں ایک اتفاق رائے سے بنا ہوا آئین لاگو کرے اور ملک کو ایک مضبوط اور مربوط جمہوری نظام عطا کرے۔
خیال رہے کہ 2019میں عوامی مظاہروں کے بعد مطلق العنان سبکدوش جنرل عمر البشیر کو اقتدار سے بے دخل کردیا تھا اور ایک عبوری انتظامیہ اور ٹرانزیشنل حکومت قائم کی تھی مگر مذکورہ بالا دونوں فوجی جرنلوں نے اسTarnsitional ٹرانزیشنل یا عبوری حکومت کو اقتدار سے بے خل کیا اور خود حکومت قائم کرلی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ جنرل برہان اور آر ایس ایف کے جنر ل ڈگا حمیدی کے اتحاد کو یہ جمہوریت نواز تحریک نہیں اکھاڑ پائے گی لیکن بعد میں برہان اور ڈگالو کے درمیان اس قدر شدید اختلاف ہوگئے ہیں جس کا نتیجہ آج خونخوار تصادم کے شکل میں دکھائی دے رہے ہیں۔ اگرچہ جنرل برہان لگاتار اور فی الحال بھی ملک کے عوام کو یہ یقین دہانی کرا رہے ہیں کہ وہا ں پر ان کی فوج ایک جمہوری نظام کو قائم کرلے گی۔ مگر جنرل برہان کا جو اب تک کا رویہ ہے وہ ناقابل یقین ہے۔ اس پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتاکیونکہ جنرل برہان مختلف حیلوں اور بہانوں سے نہ صرف یہ کہ ملک کے مختلف اداروں پر اپنی گرفت مضبوط بنا رہے ہیں بلکہ انہوںنے آہستہ آہستہ عدلیہ پر بھی ہاتھ ڈالنا شروع کردیا ہے وہ چاہتے ہیں کہ وہاں کا عدالتی نظام موجودہ آزادانہ میکنیزم سے آزاد ہوجائے ، فوج کا دست سنگھ ہوجائے اور یہی نہیں بلکہ ملک کے قومی بینک پر بھی پوری طرح قابض ہو کر اس کے وسائل فوج کو مضبوط کرنے اور اسے بہانے اپنی گرفت مستحکم کرنے کی تگ ود لگے ہوئے ہیں۔ وہ قومی بین الاقوامی دونوں سطحوں پر اپنی گرفت مضبوط بنا رہے ہیں۔ وہ بین الاقوامی کانفرنسو ںمیں سربراہ مملکت کی حیثیت سے شرکت کررہے ہیں۔ اسرائیل کے ساتھ انہوںنے تعلقات قائم کرلیے ہیں اور روس کے کئی فوجی بیڑوں کو بحر احمر میں لنگر انداز ہو نے کی اجازت دے کر انہوںنے بڑی طاقتوں کو چیلنج کرنے کی کو شش کی ہے۔ سوڈان اور روس کے درمیان جو سمجھوتہ ہوا ہے اس کے تحت بحر احمر میں چار جنگی بیڑے شامل ہوں گے۔ جس میں سے ایک نیو کلیئر ہتھیار سے لیس ہوگا۔ روس کے فوجی بیڑے میں کچھ نیو کلیئر ہتھیار بھی لگے ہوئے ہیں۔
آر ایس ایف جس کو یو اے ای کو کھلی حمایت حاصل ہے۔ یہ اس کو چیلنج کرنے والا ایک قدم ہے۔ امریکہ پہلے ہی جنرل برہان کے عزائم پر تشویش ظاہر کرچکا ہے۔ خاص طور پر ایسے حالات میں جب سوڈان کے سونے کے ذخائر کو نکالنے کے لیے کچھ غیر ملکی ادارو ںکو بھی مدعو کیاگیا ہے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS