روپے کے حوالہ سے اچھی خبر!

0

کسی ملک کے طاقتور بننے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس کے دائرۂ اثر میں مسلسل توسیع ہو اور اس کے لیے کئی باتوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ امریکی لیڈروں کے ہمہ جہت پہلوؤں پر نظر رکھنے کی وجہ سے ہی امریکہ طاقتور بنا اور ڈالر کو عالمی اقتصادیات سے مضبوطی سے جوڑنے میں کامیاب ہوا۔ تمام ممالک کی کرنسیوں میں ڈالر کی اہمیت کی وجہ سے ہی امریکہ کی پابندیوں کا اثر ہوتا ہے اورہر ملک پابندیوں سے بچنے کے لیے اس کی ناراضگی سے بچنے کی کوشش کرتا ہے لیکن دنیا کے حالات تیزی سے بدل رہے ہیں۔ ہمیشہ امریکہ کا خیال رکھنا یا اس کا ساتھ دینا ممکن نہیں ہے۔ مثلاً : امریکہ یوکرین پر حملے کی وجہ سے روس کے خلاف ہے مگر یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر ملک روس کے خلاف ہو جائے۔ بدلتے ہوئے عالمی حالات میں کئی ملکوں کی طرف سے یہ کوشش ہو رہی ہے کہ وہ اپنی کرنسی میں تجارت کریں تاکہ مستقبل کے خدشات سے بچ سکیں۔ اسی لیے وطن عزیز ہندوستان اور بنگلہ دیش کے اس فیصلے کی بڑی اہمیت ہے کہ وہ باہمی تجارت ڈالر کے بجائے روپے اور ٹکا میں کریں گے۔ بنگلہ دیش بینک کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر اور ترجمان ایم ایم حق کا کہنا ہے کہ روپے میں تجارت شروع کرنے میں کم از کم 6 مہینے لگ جائیں گے۔ ان کے مطابق، ’ہم نے اصولی طور پر اجازت دے دی ہے۔ اس کا تمام کام چل رہا ہے۔ اگر بینکوںکو لگتا ہے کہ سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے تو وہ اس پروگرام کو شروع کریں گے۔ اس کے شروع ہونے کے بعد ہی سہولت اور دشواری سمجھ میں آئے گی۔ ‘
یہ بات صحیح ہے کہ روپے اور ٹکا میں تجارت شروع ہونے کے بعد ہی سہولتوں اور دشواریوں کا پتہ چلے گا مگر کسی بھی نئے کام کو شروع کرنے میں کچھ نہ کچھ دشواریاں آتی ہی ہیں، روپے اورٹکا میں تجارت کرنے میں بھی ممکن ہے کہ کچھ دشواریاں آئیں، کیونکہ ڈالر کے مقابلے روپیہ اور ٹکا کی قدرگھٹتی بڑھتی رہتی ہے، اس کا اثرفطری طور پر تجارت پر پڑے گا مگر اسی بات کا خیال کرتے ہوئے یہ بات کہی گئی ہے کہ ڈالر کی قدر میں اتارچڑھاؤ کی بنیاد پر دونوں ملکوں کی کرنسیوں کی قدر طے ہوگی۔ ہندوستان اور بنگلہ دیش کے مابین مستحکم تعلقات ہیں، وہ ایک دوسرے کے مفاد کا خیال رکھتے ہوئے آگے بڑھے ہیں، دو اچھے پڑوسی کی حیثیت سے شہرت رکھتے ہیں، اس لیے یہ امید کی جانی چاہیے کہ دونوں ممالک روپے اورٹکا میں ایک بار تجارت شروع کر دیں گے تو اس سلسلے میں آنے والی دشواریوں سے نمٹنے، ان پر قابو پانے میں بھی وہ کامیاب ہو جائیں گے۔ روپے اور ٹکا میں تجارت کرنے سے بنگلہ دیش اور ہندوستان کو فائدہ ہوگا، ان کا باہمی رشتہ اور مستحکم ہوگا اور سب سے بڑی بات یہ کہ ڈالر پر ان کا انحصار کم ہوگا جو عالمی حالات کو دیکھتے ہوئے بھی ضروری ہے اوراس لیے بھی ضروری ہے کہ چینی حکومت یوآن کو مضبوط کرنے اور ڈالر کے مقابلے اسے لانے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے ۔ اسے روس اور برازیل جیسے ملکوں کا ساتھ حاصل ہے۔ اسے اگر کسی حد تک بھی کامیابی مل گئی تو پھر روپے کو مضبوط بنانے کا زیادہ موقع نہیں مل پائے گا، اس کا اثر ہمارے ملک کی اقتصادیات پر پڑے گا، چنانچہ روپے کی قدر بڑھانے کی کوشش جاری رہنی چاہیے اور اس کوشش میں کامیابی کے لیے یہ ضروری ہے کہ مختلف ملکوں سے روپے میں تجارت کی جائے۔
وقت زیادہ نہیں بچا ہے۔ امریکہ پر کافی قرض ہے۔ وہ اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ ’مارشل پلان‘ جیسا کوئی پلان لائے، اس لیے کل کو ایک کے بعد ایک یوروپی ممالک اور دیگر ممالک یوآن میں تجارت کرنے کے لیے تیار ہو جائیںتو حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ اس بات کا خدشہ فرانس کے صدر ایمینوئل میکروں کے چین کے حالیہ دورے سے بھی پیدا ہوا ہے۔ دورے کے دوران میکروں کے یہ کہنے پر شاید ہی کسی کو زیادہ حیرت ہوئی ہوگی کہ فرانس امریکہ کا اتحادی ہے، جاگیر نہیں، کیونکہ ’اوکس‘ کی تشکیل کے وقت امریکہ نے بھی فرانس کے مفاد کا خیال نہیں کیا تھا۔ اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ فرانس سے اس کا رشتہ بدل گیا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے حالات بدل گئے ہیں اور نئے حالات یہ اجازت نہیں دیتے کہ کسی بھی ملک ، چاہے وہ اس کا اتحادی ملک ہی کیوں نہ ہو، کا خیال کرنے کے لیے وہ اور زیادہ مقروض ہو جائے اور امریکیوں کا خیال نہ کرے، اس لیے روپے اور ٹکا میں بنگلہ دیش اور ہندوستان کے مابین اگر تجارت شروع ہو جاتی ہے تو دنیا کے بدلتے حالات اور ڈالر کے مستقبل کو دیکھتے ہوئے یہ نیک فال ہوگی،امید یہی رکھنی چاہیے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS