ممکن نہیں کہ شام الم کی سحر نا ہو

0

وبائی عہد میں وبا کے ساتھ ساتھ قلق و اضطراب ایک مستقل مصیبت بن کر آتا ہے۔ جدید طبی انکشاف سے ثابت ہے کہ ذہنی وسوسات اور قلبی اضطرابات ہماری صحت کو بری طرح متاثر کرتے ہیں ان سے جسمانی اور نفسیاتی دونوں مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ ذہنی اضطراب ہمارے اندر منفی اور تاریک جذبات پیدا کرتا ہے اور ہمارے جذبات کا ہمارے جسمانی نظام سے راست تعلق ہے اگر ہم جسمانی اور نفسیاتی طور پر تندرست رہنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے جذبات کو اس ہیجان انگیز ماحول میں مثبت اور صالح رخ دینا ہوگا۔ لہذا وبائی دور میں پیشگی ضروری تدابیر کے ساتھ ساتھ بےجا وسوسوں اور ذہنی وقلبی خلجان سے بچنا بھی نہایت ضروری ہے۔ ذہنی اضطراب یا ڈپریشن سے بچنے کا مؤثر طریقہ مفید مصروفیت ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ عام بہتر دنوں میں بھی فراغت اور فرصت آدمی کے ذہنی اور جسمانی قوتوں کو مفلوج کردیتی ہے داخلی شخصیت کی تباہی میں فراغت کسی مہلک وائرس سے کم نہیں اور اگر انفرادی یا سماجی غم لاحق ہو تو اس کے فساد کی تاثیر بڑھ جاتی ہے۔ Del Carnegie نے اپنی مشہور کتاب how do stop worrying and start living میں ایک واقعہ کا ذکر کیا ہے: ” ماریون دوجلاس نام کے آدمی نے اپنا قصہ شیر کرتے ہوئے کہا کہ حادثات نے میرے دروازے پر دو بار دستک دی پہلی بار میں میری پانچ سالہ اکلوتی چہیتی بیٹی کا انتقال ہوگیا میں اپنی بیٹی سے بہت پیار کرتا تھا اس کے وجود سے میری زندگی عبارت تھی یہ سانحہ میاں بیوی دونوں کے لئے ناقابل برداشت تھا پھر چند مہینے گزرے تھے کہ اللہ کی توفیق سے میری دوسری بیٹی پیدا ہوئی لیکن یہ بیٹی پانج دن سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکی مسلسل دوسری بیٹی کے فوت سے مجھے گہرا صدمہ پہونچا اس کے بعد میں نے تقریبا کھانا پینا چھوڑ دیا نیند بھی نہیں آتی تھی میرے اعصاب پر ان سانحوں کا زبردست دباؤ تھا میری خود اعتمادی متزلزل ہونے لگی بالآخر میں شدت غم سے بیمار ہوگیا ڈاکٹر سے رجوع کیا تو اس نے خواب آور دوائیں دی اور آب و ہوا کی تبدیلی کے لئے تفریحی سفر کا مشورہ دیا میں نے یہ دونوں نسخے آزمائے لیکن افاقہ نا ہوا پھر اللہ تعالی کے فضل سے ایک بیٹا پیدا ہوا جس کی عمر اس وقت چار سال ہے اس کی ایک فرمائش مشکل کشا ثابت ہوئی ہوا یہ کہ ایک شام میں بیٹھ کر ماضی کے مکروہات و مصائب پر غور کر رہا تھا اسی درمیان میرے بیٹے نے ایک کشتی(کھلونا) بنانے کو کہا میری ذہنی حالت ایسی نہیں تھی کہ میں اس کے لئے کھلونا بناتا لیکن میرا بیٹا بڑا سرکش اور ضدی ہے اس کی ضد کے آگے مجھے جھکنا پڑا کھلونا بنانے میں تین گھنٹے صرف ہوگئے جب بناکر فارغ ہوا تو محسوس ہوا کہ ان تین گھنٹوں میں مجھے زبردست ذہنی راحت ملی جن سے میں مہینوں سے محروم تھا اس کے بعد میں نے غور و فکر کرکے اپنے لئے حسب حال مفید مصروفیات پیدا کرکے ان میں مشغول ہوگیا اس طرح مجھے مستقل ذہنی اطمینان نصیب ہوگیا اور میں ان آلام و احزان سے نجات پاگیا جو میری زندگی کے لئے خطرہ بن چکے تھے۔
لہذا ہمیں بھی اس وبائی عہد میں چاہئے کہ کارو باری اور تعلیمی تعطیلات کے باوجود ہم گھر پر ہی عبادات، ورزش، مطالعہ اور حسب حال دیگر مفید مصروفیات کو اپنے یومیہ روٹین میں شامل کرلیں اس سے پرسنل ڈیولپمنٹ بھی ہوگا اور آپ فراغت اور تعطل کے حزنیہ وائرس سے بھی بچ جائیں گے ۔۔۔
‏نور الدین احمد

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS