صنفی مساوات کو قائم رکھنے کے لیے صرف بچیوں کی شادی کی عمر میں ترمیم کرنا کافی نہیں ، مرکز وزراء کابینہ کو، بچیوں کی ازدواجی زندگی کو ، بہتر بنانے والے وسائل پر بھی غور کرنا چاہیئے

0

شاہ خالد مصباحی

پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس میں زیر بحث یہ بات کئی دنوں سے بنی ہوئی تھی کہ صنفی مساوات کو لے کر بچیوں کی شادی کی عمر میں اضافہ کیا جائے تاکہ وہ مزید مواقع پاکر زندگی کے جملہ شعباجات میں اپنے آپ کو بااختیار بنا سکیں ۔
ذرائع نے جمعرات کو خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کو بتایا کہ مرکزی وزرائے کابینہ نے بدھ کے روز مرد اور خواتین کی شادی کے قابل عمر میں یکسانیت لانے کی تجویز کو منظوری دے دی۔
محتاط رہنے کی بات تو یہ ہے اس بل کا سب سے ضرر رساں پہلو جو گردانا جارہا ہے وہ یہ ہے کہ بل شادی کی یکساں عمر کو یقینی بنانے کے لیے مختلف برادریوں کی شادی سے متعلق مختلف ذاتی قوانین میں نتیجہ خیز تبدیلیاں کرنے کی کوشش بھی کر سکتا ہے۔
جیسا کہ پچھلے سال، وزیر اعظم نریندر مودی نے یوم آزادی کی اپنی تقریر میں یہ اعلان بھی کیا تھا کہ حکومت جلد ہی خواتین کی شادی کی عمر کے بارے میں فیصلہ کرے گی۔ یہ سمتا پارٹی کی سابق سربراہ جیا جیٹلی کی قیادت میں چار رکنی ٹاسک فورس مقرر کرنے کے حکومتی فیصلے کے بعد ہوا۔ پینل نے گزشتہ سال دسمبر میں اپنی رپورٹ وزیر اعظم کے دفتر (PMO) اور وزارت برائے خواتین اور بچوں کی ترقی کو پیش کی تھی اور خواتین کی شادی کی عمر کو 21 سال کرنے کی سفارش بھی کی تھی۔
محترمہ جیٹلی نے اپنے مکتوبے میں اس بات کی مانگ کی تھی کہ شادی کی عمر کو مرد اور عورت دونوں کے لیے برابر کیا جائے۔
“اگر ہم صنفی مساوات اور ہر شعبے میں صنفی بااختیار بنانے کی بات کریں، تو ہم شادی کو نہیں چھوڑ سکتے کیونکہ یہ ایک بہت ہی عجیب پیغام ہے کہ ایک لڑکی 18 سال کی عمر میں شادی کے لیے موزوں ہے جو اس کے کالج جانے کا موقع ختم کر دیتی ہے اور اس آدمی کے پاس موقع ہے کہ وہ خود کو زندگی کے لیے تیار کرے اور 21 سال تک کمائے،‘‘ (خلاصہ مکتوبہ جیا جیٹلی ، پبلیشڈ ان دی ہندو نیوز پیپر )

پینل کے حوالہ جات کی شرائط اور حکومت کا منشا :

یہ پینل جون 2020 میں تشکیل دیا گیا تھا۔ اس کے ٹرمز آف ریفرنس میں خاص طور سے ماں اور شیر خوار بچے کی صحت کے ساتھ شادی اور زچگی کی عمر کے باہمی تعلق کا جائزہ لینا شامل ہے نیز صحت اور آبادی کے اہم اشارے جیسے بچوں کی اموات کی شرح (IMR)، زچگی کی شرح اموات ( MMR)، ٹوٹل فرٹیلیٹی ریٹ (TFR)، پیدائش کے وقت جنس کا تناسب (SRB)، بچوں کی جنس کا تناسب (CSR) وغیرہ۔ اسے خواتین میں اعلیٰ تعلیم کے فروغ کے لیے اقدامات تجویز کرنے کا کام بھی سونپا گیا تھا۔
لیکن حکومت بالفور میرج ایکٹ کی ترمیم پر ایکشن لیتی ہے۔ اب تو دیکھنا یہ ہے کہ جس طریقے سے ، باہمی اتفاق اور خاموشی سے حکومت میرج ایکٹ میں ترمیم کر دیتی ہے اسی طریقے سے پینل کے اور شرائط پر کتنی کامیابی کے ساتھ کام کرتی ہے۔
دگر صورت ، بچوں کی موت کی شرح ، حالت زچگی میں عورتوں کی اموات کی مزید بڑھتی شرح ، ان کی صحت و حفاظت کا خیال ، ان سارے امور پر حکومت کا اختیار و اقتدار حال ہم سب کے آمنے سامنے ہے ۔
کیا ان سارے امور پر موجودہ طریقہ کار میں بھی تبدیلی ممکن ہے؟ یا حکومت ، اپنے تئیں پش و پیش عوامی جذبوں و نمائندوں کے خیالات اور سیاسی پنکھڑیوں کی واہ واہیوں کا اکٹھا کرنا ۔

(مضمون نگار ، جامعہ ملیہ اسلامیہ نیو دہلی میں ، بیچلر کورس کے اسٹوڈنس ہیں )

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS