پہلی وحی کے حکم ’ اقرأ‘ کے بعد کے پیغام کو پڑھنا ہے فرض

0

عقیدت اللہ قاسمی
مسلم گھرانوں میں پیدا ہونے اور مسلمانوں جیسے نام والا طبقہ اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے اور چلنے پھرتے یہ بات بڑے زوروشور سے کہتا پھرتا ہے کہ دین اسلام کی پہلی وحی ’ اقرأ‘ یعنی پڑھو آئی اور اس طرح اسلام میں پڑھنے پر بہت زور دیاگیا ہے اور اس کے ساتھ ہی یہ رٹ بھی لگاتارہتا ہے کہ اسلام نے ہر قسم کے علوم حاصل کرنے اور سب کچھ پڑھنے کا حکم دیا ہے۔ کسی خاص قسم کے علم کی بات نہیں کہی ہے ۔ علم میں کوئی تفریق نہیں کی ہے۔ دینی اور دنیاوی تعلیم میں کوئی فرق نہیں کیا ہے بس سب کچھ پڑھنا چاہیے اور پھر آگے تان اس امر پر ٹوٹتی ہے کہ دینی تعلیم کے ساتھ دنیا وی تعلیم بھی حاصل کرنا ضروری ہے اور دینی مدرسوں میں تمام عصری وجدید علوم کا انتظام کرنا ضروری ہے کہ ایک حافظ کو دینی عالم کے ساتھ ساتھ ، ڈاکٹر ، طبیب ، فلسفی، سائنس داں، ماہر معاشیات، ماہر ٹیکنالوجی، مؤرخ، ادیب ماہر کیمیات وغیرہ دنیا کے تمام علوم کا ماہر ہونا چاہیے۔ تمام زبانیں جاننی چاہئیں وغیرہ وغیرہ۔ یہ طبقہ مولویوں اور دینی مدارس سے تمام علوم کے انتظام کا تقاضا کرتا ہے جبکہ اپنے یااپنے طبقہ والوں کے بارے میں ایسی بات کبھی نہیں کہتا کہ تمام عصری وجدید علوم کے ساتھ ساتھ ہمارے حلقہ کے ہر فرد کو تمام دینی علوم کو بھی پڑھنا اور جاننا چاہیے کہ جونیئر ہائی اسکول ، ہائی اسکول اور انٹر کے 5-7سبجیکٹ گریجویشن کے تین اور ماسٹر ڈگری کے ایک سبجیکٹ کی بجائے شروع ہی سے تمام علوم کا ماہر ہونا چاہیے کہ مسلمان کی حیثیت سے ان پر بھی دنیاوی او ردینی تمام میدانوں میں اسلام کی نمائندگی کرنا، اسلام کی تبلیغ واشاعت کرنا اور مخالفین کے اعتراضات کا جواب دینا اور اسلام سے متعلق تمام غلط فہمیوں کو دور کرنا فرض ہے۔ انہیں بھی اسلامی لٹریچر، قرآن ، حدیث ، فقہ، تفسیر قرآن، اصول حدیث، اصول فقہ، علم عقائد ، عربی وفارسی ادب وغیرہ تمام علوم کو جاننا اور سیکھنا بھی فرض ہے۔ یہ طبقہ تاریخ کے اوراق سے کچھ نام بھی بڑے طمطراق کے ساتھ پیش کرتاہے کہ وہ عالم ہونے کے ساتھ ساتھ فلسفی بھی تھا۔ وہ ماہر طب بھی تھا، وہ ماہر کیمیا اور ماہر ریاضی تھا بلکہ وہ فلاں علم کا با واآدم اور موجد تھا۔ فلاں علم کا ماہر تھا۔ حالانکہ کسی بھی زمانہ میں کوئی بھی ایک شخص تمام علوم کا ماہر نہیں ہوا، نہ ہی عملاً ایسا ممکن ہے کسی زمانے میں کچھ لوگوں کو جامع معقولات ، کچھ کو جامع منقولات ضرور کہا جاتاتھا تب بھی معقولات ومنقولات کی تقسیم پائی جاتی تھی اور معقولات کا بھی کوئی شخص تمام علوم کا جامع نہیں ہوتا تھا ۔ یہ صحیح ہے کہ کوئی طب کا امام بن جا تھا تو کوئی ماہر کیمیا۔ کوئی ماہر فلکیات تو کوئی ماہر طبعیات ، کوئی ماہر تاریخ اور کوئی موجود علم جغرافیہ بنا۔ کچھ لوگ کئی کئی علوم کے ماہر بھی گزرے ہیں لیکن کسی بھی ایک شخص کے لیے تمام علوم ، معقولات کا یا تمام منقولات کا ماہر یا تمام معقولات ومنقولات کاجامع ہونا کبھی بھی ممکن نہیں ہوا۔ اسی طرح دینی علوم میں بھی کوئی تمام دینی علوم کا جامع ماہر نہیں ہوا۔ کوئی امام حدیث ہے تو کوئی امام الفقہ ہے او رکوئی امام الکلام تو کوئی امام النحو اور کوئی امام الصرف و کوئی امام اللغت ، یقینا یہاں بھی کوئی ایک شخص تمام علوم کا ماہر جامع یا امام نہیں ہوا۔ ہاں ضرور کچھ افراد کئی کئی علوم کے ماہر جانکار ہوگئے، جبکہ آج کے زمانہ میں تو ان علوم نے بھی بہت وسعت اختیار کرلی ہے اور تحقیق وریسرچ کا سلسلہ جاری ہے کہ کوئی آئی اسپیشلسٹ ہے تو کوئی ای این ٹی ، کان، ناک وگلے کا اسپیشلسٹ۔ کوئی ماہر امراض قلب ہے تو کوئی ماہر اعصاب اور کوئی ماہر امراض گردہ، کوئی ماہر کینسر تو معالج شوگر، کوئی جنرل فزیشین ، کوئی سرجن ہے تو کوئی ہڈیوں کا ڈاکٹر ہے اور شاخ درشاخ ایک طویل سلسلہ جاری ہے۔ نہ جانے کہاں سے اور کیسے خود ساختہ دانشور تمام علوم کی فہرست مولیوں کے سامنے رکھ کران سے سب کا جامع بننے کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں۔
جبکہ مذہب کی پہلی وحی کا بھی صرف ایک نقطہ اقرأ ہی کہیں سے سن کر یا جان کر رٹ لگاتے پھرتے ہیں۔ پہلی وحی کے بھی اگلے الفاظ یا پوری آیتوں کے بارے میں جانتے بھی نہیں بلکہ ان سے اوران کے پیغام سے پوری طرح نابلد ہوتے ہیں کہ قرآن کی سمجھنے اور اس پر پورا عبور حاصل کرنے کا تو تصور بھی ان کی رسائی تک سے دور۔ ناظرہ قرآن Wordsتک پڑھنے سے محروم ہوتے ہیں مگر مولویوں کو عضو ضعیف یا غریبی کی جورو والی مثال کے طور پر کمزور سمجھ کر لعن ، طعن اور طنز وتشنیع کا شکار بناتے رہتے ہیں۔ کہ مذہب اسلام کی پہلی وحی کے پہلے لفظ اقرأ کے بعد پہلی ہی آیت کے دوسرے الفاظ میں کہا گیا ہے ۔’ پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔‘‘یعنی اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بے دینی ، بددینی ، دین دشمنی ، کمیونزم ، سوشلزم ، مادیت، دہریت، یہودی، نصرانیت، ہندوتو سیکولرزم ، کیپٹلزم اور جدیدیت کفروشرک وغیرہ کا چشمہ لگا کر خود ان رنگوں میں رنگے جانے اور دل ودماغ کو ان کے ماحول میں ڈھالنے اور ان کے گندے وغلیظ تالابوں میں غوطہ زن ہونے کی بجائے اپنے رب کے نام سے پڑھو جس نے پیدا کا۔ یعنی اپنے رب کی رضا جوئی کو اپنا مقصد حیات بنائو۔
(جاری)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS