مغلیہ تاریخ کو مٹانے سے کس کا نقصان ہوگا؟

0
مغلیہ تاریخ کو مٹانے سے کس کا نقصان ہوگا؟

عبدالماجد نظامی

تاریخ کے بارے میں جہاں ایک طرف عوام میں یہ بات معروف ہے کہ یہ بہت بے رحم ہوتی ہے اور اپنا حساب سچائی کے دائرہ میں ضرور لیتی ہے وہیں دوسری طرف اس کی اہمیت علمی اور موضوعی ہے۔ تاریخ کا موضوع کس قدر اہم ہے اور اس کو کس ڈھنگ سے سمجھنا چاہئے اور اس کی حساسیت کے کتنے پہلو ہیں ان کو اجاگر کرنے کے لئے دو مغربی مصنّفین کی کتابیں بطور خاص دنیا بھر کی معتبر یونیورسیٹیوں میں پڑھائی جاتی ہیں۔ ان میں سے ایک نامE. H.Carr ہے جنہوں نے تاریخ کیا ہے؟ اسی بات کو سمجھانے کے لئے ایک کتاب لکھی جس کا نام انہوں نے What Is History رکھا۔ ان کے علاوہ دوسرے مصنف R.G. Collingwood ہے جنہوں نے فلسفۂ تاریخ کے مختلف پہلوؤں پر اپنی کتاب لکھی جوThe Idea of History کے نام سے معروف ہے اور اس موضوع سے مناسبت رکھنے والوں کے درمیان بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھی اور پڑھی جاتی ہے۔ تاریخ کے موضوع پر یہ باتیں اپنے موقر قارئین کے سامنے اس لئے رکھی جا رہی ہیں کیونکہ ہمارے ملک میں جو ایک خاص قسم کی سیاست گزشتہ چند برسوں میں چل پڑی ہے اس کا یہ مطالبہ مسلسل جاری ہے کہ اس ملک کی تاریخ کو دوبارہ سے لکھنا ضروری ہے کیونکہ اب تک جو تاریخ ہندوستان کی لکھی گئی ہے اس میں سچائی کا عنصر غائب ہے اور ایسی تاریخی شخصیات اور ان کے کارناموں کو اہمیت کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے جنہوں نے اس ملک کی تاریخ کو مسخ کیا، یہاں کی تہذیب کو نیست و نابود کیا اور اس ملک کی قدیم ہندو ثقافت کے ساتھ معاندانہ رویہ اختیار کیا۔ ظاہر ہے کہ یہ محض ایک مفروضہ ہے جس کا حقیقت کی زمین پر کوئی وجود نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ تاریخ کوئی میتھالوجی نہیں ہے جسے اپنی مرضی کے مطابق ڈھالا جا سکتا ہے۔ تاریخ اپنی سمت خود طے کرتی ہے اور اس کے ساتھ کسی قسم کا کھلواڑ کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ تاریخ نویسی سے دلچسپی رکھنے والے دنیا بھر کے دانشوران اس کی حفاظت میں لگے ہوئے ہیں اور تاریخ کے چہرہ کو تمام تر خیالی آلائشوں سے پاک کرتے رہتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر تاریخ کا مزاج ایسا ہے تو پھر ہندوستان میں مغلیہ تاریخ کو مٹانے اور اسکول کی نصابی کتابوں سے اس کا صفایا کرنے کا کیا مطلب ہے؟ دراصل اس کا واضح مقصد صرف یہ ہے کہ اس ملک کے مسلمانوں کو کٹہرے میں کھڑا کیا جائے اور کسی بھی طرح ان کو ہندوستان کے معماروں کی فہرست میں جگہ نہ دی جائے۔ کم سے کم ہندو نیشلسٹوں نے جو اپنا فریم ورک تیار کیا ہے اس میں اس کی گنجائش نہیں ہے۔ ان کے مطابق مسلمانوں کو صرف ایک جارحیت پسند قوم اور ملک کی سالمیت کو بگاڑنے والے طبقہ کے طور پر پیش کرنا ہے اور یہی وجہ ہے کہ مغل جیسے حکمراں خاندان کو ہر حال میں بے قیمت بتانا ہے خواہ انہوں نے اپنے تاریخی دور میں مشترک تہذیبی اثاثہ کے ارتقاء میں کتنا ہی شاندار کردار ادا کیا ہو۔ اس ملک کے نظم و انصرام کو بہتر ڈھنگ سے چلانے کے لئے کتنے ہی وقیع ادارے قائم کئے ہوں اور فن تعمیر میں اپنا لاثانی اور لازوال کردار ہی کیوں نہ ادا کیا ہو۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ مغلیہ عہد میں کوئی ظلم اور ناانصافی نہیں ہوئی ہوگی یا وہ تمام تر عیوب سے پاک تاریخ تھی۔ ایسا کسی بھی تاریخی مرحلہ کے لئے ممکن نہیں ہے۔ البتہ مغلیہ عہد کی جو اہمیت اس ملک کے اندر زندگی کے تمام دائروں میں نظر آتی ہے ان سے نظر چرانا ممکن نہیں ہے اور اس کی اہمیت کو کھرچ کر نکالا بھی نہیں جا سکتا کیونکہ اس کی ایک علامتی اہمیت ہمیشہ باقی رہے گی جیسا کہ لال قلعہ کی عمارت ہے جس پر جلوہ گر ہوکر خود وزیر اعظم ہر سال اپنے ملک کے عوام کو یوم آزادی کے موقع پر خطاب کرتے ہیں۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اسکول کی نصابی کتابوں سے این سی ای آر ٹی گرچہ مغل سے متعلق حصوں میں کتر بیونت کردے لیکن وہ گلی کوچوں اور شاہراہوں پر پھیلی تاریخی علامتوں کو مٹانے میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ اگر ایسا کیا گیا تو جو نسلیں تیار ہوں گی وہ خوداعتمادی اور فکری پختگی کی روح سے عاری ہوں گی۔ ایسی نسلیں نہ تو اپنا حال بہتر بنا سکتی ہیں اور نہ ہی بہتر مستقبل کا خواب دیکھنے کا حوصلہ رکھ سکتی ہیں۔ تاریخ صرف راجہ، مہاراجہ، رانیوں اور سلاطین و شرفاء کی کہانیوں پر مشتمل نہیں ہوتی ہے بلکہ اس کا دائرہ اس سے بہت آگے تک پھیلا ہوتا ہے۔ اس کا گہرا مطالعہ انسان کو نظام عالم کو وسیع دائرہ میں سمجھنے میں معاون ثابت ہوتا ہے، اس سے سماج کے ڈھانچوں کا علم ہوتا ہے اور اسی سے زندگی اور معاشرہ کے حالات کو صحیح تناظر میں سمجھنے کی لیاقت پیدا ہوتی ہے۔ تاریخ سے ہی ہمیں یہ بھی سبق ملتا ہے اور اس معمہ کو حل کرنے میں مدد ملتی ہے کہ الگ الگ روایتوں، تہذیبوں اور اداروں کا ارتقاء کس طریقہ سے عمل میں آیا ہے اور ماضی سے حال تک اس کا سفر کن کن پیچیدگیوں سے ہوکر گزرا ہے۔ چونکہ ہمارا حال ہمارے ماضی کے ساتھ بڑی گہرائی کے ساتھ مربوط ہے اس لئے ماضی کی اہمیت کو نظر انداز کرنا بڑی تباہی کا باعث قرار پائے گا۔ ماضی کے بارے میں ہماری سمجھ جتنی پختہ ہوگی ہمارا حال اور مستقبل اتنا ہی روشن ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی نہایت اہمیت رکھتی ہے کہ ہم تاریخ کو اس کے خاص تاریخی پس منظر سے جدا کرکے نہ دیکھیں ورنہ ہمیشہ غلط نتیجہ اخذ کریں گے اور نقصان اٹھائیں گے۔ یہی بات مغلیہ عہد کی تاریخ پر بھی صادق آتی ہے۔ ہم آج کی لبرل ڈیموکریسی کو پیمانہ بناکر ماقبل جمہوری عہد کا تجزیہ نہیں کر سکتے۔ حکومت کے کاروبار کو چلانے کا نظام اس عہد میں بالکل مختلف تھا اور آج اس سے بالکل جدا ہے۔ آج کا معیار استعمال کرکے مغل بادشاہوں کو ظالم و جابر قرار دینا تاریخ پر ظلم کے مترادف ہوگا۔ اس سے بھی زیادہ علمی طور پر نا انصافی یہ ہوگی کہ اورنگ زیب اور محمود غزنوی جیسی تاریخی شخصیتوں کو اپنی مرضی کے مطابق چن کر ان پر مظالم کے الزامات عائد کر دیے جائیں۔ ہم مغلیہ عہد کو لبرل ڈیموکریسی کے پیمانہ سے اس لئے نہیں تول سکتے کیونکہ لبرل ڈیموکریسی کی عمر بہت مختصر ہے۔ بلکہ ہمیں اس وقت کے عالمی منظر نامہ پر رائج موجود سیاسی، سماجی، عسکری اور جغرافیائی حالات کو سامنے رکھ کر مغلیہ تاریخ کا تجزیہ کرنا چاہیے۔لیکن یہاں چونکہ ایک خاص طبقہ کو اپنا دشمن بتاکر اپنا سیاسی مقصد حاصل کرنا پیش نظر ہے اس لئے غلط پیمانے طے کرکے اس پر عمل کیا جا رہا ہے۔ لیکن اس کے نقصانات بہت دور رس اور دیر پا ہوں گے۔ ننھے بچوں کے ذہن کو مسموم کرکے تاریخ کی غلط تدریس اس ملک کی بنیادوں کو کھود کر رکھ دے گی۔ جو لوگ وقتی اقتدار کے نشہ میں اس مہم کو جاری رکھے ہوئے ہیں خود ان کے بچے مستقبل میں افسوس کریں گے اور انہیں اچھے ناموں سے یاد نہیں کریں گے۔ اب اگر اس پہلو سے غور کریں کہ کیا از سر نو تاریخ کو لکھا جا سکتا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہندوتو کے سیاسی نظریہ سازوں کے لئے یہ ممکن نہیں ہے کیونکہ ان کے پاس ایسے پروفیشنل مورخین کی ٹیم ہی موجود نہیں ہے جن کو علمی حلقوں میں اعتبار حاصل ہو جیسا کہ لیفٹ کے دانشوران کو حاصل ہے۔ اگر انہوں نے تاریخ کو من گھڑت بنیادوں پر لکھنے کی کوشش بھی کی تو اس کو کوئی قبول نہیں کرے گا اور ان کی محنت اکارت جائے گی۔ اس لئے عقلمندی کا تقاضہ یہ ہے کہ تاریخ کے ساتھ کوئی کھلواڑ نہ کیا جائے اور ہماری آئندہ نسلوں کو موضوعی انداز میں تاریخ کو سمجھنے کا موقع دیا جائے جیسا کہ اب تک اس ملک میں کوشش کی جاتی رہی ہے۔ یہی ملک اور تاریخ کی صحیح خدمت کہلائے گی۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS