ہندوستانی تاریخی نصاب اور جدو جہد آزادی

0

فیروز بخت احمد
حیرانی کی بات ہے کہ امام الہند اور ہندوستانی آزادی کے سب سے قدآوار رہنما و ہندو مسلم باہمی ہم آہنگی کے وکیل، مولانا ابو الکلام آزادگیارہویں جماعت کی تاریخی نصاب کی کتاب سے صفایا کر دیا گیا ہے ۔ جنہوں نے ایسا کیا ہے ، ان کو پتہ ہونا چاہئے کہ ماڈرن ہندوستان کی تعلیمی ، سائنسی و تکنیکی ترقی کے عظیم ترین علمبردار مولانا ابوالکلام آزادتھے ۔ یہ انہی کے مرہون منت ہے کہ آج ہمارے ملک کے ہندو مسلم سکھ عیسائی شیر و شکر کی طرح رہ رہے ہیں۔ انہوں نے 1952میں سیکنڈری ایجوکیشن قائم کیا، آل انڈیا کونسل فار ٹیکنیکل ایجوکیشن قائم کیا، 1951میں آئی آئی ٹی کھڑکپور کی بنیاد ڈالی اور ساتھ ہی ساتھ اور بہت سی ثقافتی و سائنسی تنظیوں کی داغ بیل ڈالی، جیسے آئی سی سی آر، آئی سی ایچ آر، ساہتیہ اکادمی، اردو اکادمی، نرتیہ ناٹیہ کلا اکادمی،یو جی سی، انڈین کونسل فاارمیسیوٹیکل ریسرچ وغیرہ۔بھلے ہی مولانا کو نصابی کتب سے غائب کر دیا جائے مگر ملک و قوم کے لئے کنٹری بیوشن کو کوئی بھی فراموش نہیں کر سکتا ۔
کچھ عرصہ قبل ہندوستان کے تاریخی نصاب سے مغلیہ دور سلطنت کی سولہویں اور سترہویں صدی کے اسباق کو ہٹا دیا گیا اور ساتھ ہی ساتھ کچھ اور عنوانات بھی ہٹائے، جن میں امریکہ کی اجارہ داری کولڈ وار (سرد جنگ) کمیونسٹ پارٹی کا مسودہ ، جن سنگھ کے تعلق سے ابواب اور سابق وزیر اعظم جناب اٹل بہاری واجپئی کی ایک نظم وغیرہ شامل ہیں۔ این ۔ سی۔ ای۔ آر۔ ٹی۔ نے ان اسباق کو ہٹانے کا جواز یہ دیا کہ بچوں کے اوپر کورس کا کافی بوجھ تھا ، لہٰذا ان تمام عنوانات کو ہٹا دیا گیا ہے۔ این۔ سی۔ ای۔ آر۔ ٹی۔ کے اس اقدام پر کافی شور شرابہ مچا ہوا ہے اور طرح طرح کی باتیں سامنے آ رہی ہیں۔کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ سرکار کی مسلم مخالف پالیسی کا ایک حصہ تو کچھ لوگ یہ فرما رہے ہیں کہ مغلیہ دور میں سبھی کچھ اچھ نہیں تھا بلکہ مغل بادشاہوں نے غیر مسلم لوگوں پر کافی ظلم و تشدد بھی برپا کیا، جس میں جنوب کے حکمراں ٹیپو سلطان کا نام بھی شامل ہے ۔ اس مسئلہ میں کوئی ہندو کی بات کر رہا ہے تو کوئی مسلمانوں کی بات کر رہا ہے مگر تاریخ کے زاویہ سے کوئی انصاف کرنے کو تیار نہیں تقریباً یہی بات پرانے تاریخی مقامات کے نام بدلنے کے سلسلہ میں چل رہی ہے ، جن میں بھی مغلیہ سرکار کے ناموں کو بدلہ گیا ہے ، مثال کے طور پر ، ’’مغل گارڈن‘‘ ’’امرت ادیان‘‘ رکھ دیا گیا ہے ۔ اسی طرح سے’’ مغل سرائے ‘‘کا نام ’’پنڈت دین دیال اپادھیائے‘‘ رکھ دیا گیا ہے۔ دہلی میں ، ’’اورنگ زیب روڈ ‘‘کا نام کو’’ اے پی جے عبدالکلام روڈ‘‘ میں تبدیل کر دیا گیا ہے ۔ ان تمام باتوں پر بحث و مباحثہ چل رہے ہیں اور غالباً آگے بھی چلتے رہیں گے۔
صحیح معنوں میں جو تاریخ دان طبقہ ہے اس کو سر جوڑکر بیٹھنا چاہئے اور دیکھنا چاہئے کہ تاریخ کا محاسبہ اس طرح سے کیا جائے کہ کسی کے احساسات کو زک نہ لگے ، چاہے وہ مسلم دور ہو یا غیر مسلم یہاں پر ، یہ بتا دینا ضروری ہے کہ جو لوگ ہندوستانی مسلمانوں کو بابر یا مغلوں کی اولاد سمجھتے ہیں، اس طرح سے مغل ترکیہ مسلمان یہاں بہت کم ہیں بلکہ کثیر تعداد ان مسلمانوں کی ہے کہ جن کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ ان کا اور برادران وطن ہندوؤں کا ایک ہی ڈی ۔ این۔اے۔ ہے ۔ ہندوستان میں زیادہ تر مسلم آبادی وہ ہے جسے اجلاف کہا گیا ہے یعنی دوسرے الفاظ میں، جنہیں پسماندہ کہاجاتا ہے۔ اشراف میں مغل ترک اور پٹھان آتے ہیں ، جن کے تعلق سے خیال کیا جاتا ہے کہ ان لوگوں نے ہمیشہ ہی پسماندہ مسلمانوں کی حق تلفی کی ہے اور انہیں کمتر سمجھا ہے۔ بہر حال یہاں عنوان ذات پات کا نہیں ہے بلکہ تاریخ کا ہے ۔ عموماً یہ ہوتا چلا آیا ہے کہ اقتدار جس کا ہوتا ہے، چلتی اسی کی ہے یعنی جس کی لاٹھی، اس کی بھینس ۔ ایمانداری کی بات ہے کہ ان انگریزی اور کمیونسٹ تاریخ دانوں نے نہ تو اس بات کا ذکر کیا جدوجہد آزادی کے دوران دارالعلوم دیوبند کے 5 لاکھ علما کو انگریزوں نے کنیاکماری سے لیکر افغانستان کے بارڈر پر سوات گاؤں میں پیڑوں پر پھانسی پر لٹکا دیا تھا اور نہ ہی اس بات کا حوالہ دیا دارالعلوم دیوبند کی آزادیٔ ہند کے لئے ’’ریشمی رومال‘‘ تحریک کے ذریعہ کابل میں 9جولائی 1916کو راجہ مہندر پرتاپ سنگھ بطور صدر اور مولانا عبید اللہ سندھی بطور وزیر اعظم ، سلطنت ہندوستان قائم کر دی گئی تھی۔
مثال کے طور پر جب یہاں پر سناتن دھرمیوں کا راج تھا تو انہوں نے جگہوں کے اپنی طرز کے نام رکھے،جیسے’’اندرپرستھ‘‘ (دلی)، ’’بھاگیہ نگر‘‘ (حیدرآباد) ’’پریاگ راج‘‘ (الہ آباد) وغیرہ۔ جب ہندوستان میں سلطانوں اور مغلوں نے حکومت کی انہوں نے غیر مسلم جگہوں کے اپنی تہذیب سے میل کھاتے ہوئے نام رکھ دیئے۔اسی طرح سے جب کچھ میرجعفروں اور جے چندوں نے انگریزوں کو ہندوستان میں دعوت دی تو انہوں نے اپنے 200سالہ دور حکومت میں کافی ہندو اور مسلم ناموں کو بدل کر اپنے انگریزی نام رکھے ، جیسے ، ’’کناٹ سرکس‘‘ (راجیو چوک) ، ’’کرزن روڈ ‘‘، (کستوربا گاندھی مارگ) وغیرہ۔ اسی طرح سے جب سلطانوں اور مغلوں نے جب حکومت کی تو انہوں نے اپنے نام رکھنے شروع کر دیئے۔ جب ہندوستان آزاد ہوا تو کانگریس پارٹی نے نہرو و گاندھی خاندان کے نام میں عمارتیں اور شاہراہیں کر دیں۔ آج کل جب بی جے پی کی حکومت ہے تو ظاہر سی بات ہے کہ تبدیلیٔ نام میں یہ لوگ بھی اس راستے پر گامزن ہوں گے کہ جو راستہ پرانی حکومتوں نے اختیار کیا اور جس میں کوئی برا ماننے والی بات نہیں۔ ویسے بھی اگر کسی سڑک ، عمارت، ادارہ کا نام تبدیل ہوتا ہے تو اس سے ناراض ہونے کی بہت زیادہ ضرورت نہیں ۔ ہاں یہ واقعہ لاہور کا ہے کہ جب وہاں کی مملکت جمہوریہ اسلامی نے تقسیم ہند سے قبل غیر مسلم ناموں کو اسلامی ناموں میں تبدیل کرنے کی کوشش کی تو باشندگان لاہور نے اس کا سخت احتجاج کیا کیونکہ ان کا ماننا تھا کہ تاریخ چاہے جو بھی اور جیسی بھی ہو، مسخ نہیں کی جانی چاہئے۔ موجودہ سرکار کے نزدیک مغلیہ دور اور حتیٰ کی ٹیپو سلطان کا دور منصافانہ نہیں ہے اورکہاجاتا ہے کہ ان کے دور میں بے تحاشہ غیر مسلمین کے ساتھ ناانصافی ہوئی جذیہ ٹیکس لگایا گیا ، عصمتیں تار تار کی گئی قتل و غار ت ہوئی وغیرہ۔ اورنگ زیب جس کو ایک طبقہ رحمۃ اللہ علیہ مانتا ہے تو دوسرا طبقہ قاتل مانتا ہے کیونکہ اس نے اپنے دو بھائیوں اور گروگوبند سنگھ کے صاحبزادوں کا قتل کیا ۔ ہو سکتا ہے کہ اورنگ زیب سے رنجش ہونے کے ناطے تمام مغلیہ دور کا تاریخی نصاب سے صفایہ کر دیا گیا ہے ۔
موجودہ بی جے پی حکومت جو کہ آر ایس ایس کے ذریعہ کنٹرول کی جاتی ہے اس کا خیال ہے کہ ہندوستانی تاریخ زیادہ تر انگریزو کمیونسٹ ذہنیت رکھنے والے تاریخ داں حضرات کے ذریعہ لکھی گئی ہے جس میں ان کے بزرگ کا کوئی ذکر نہیں ہے کہ جنہوں نے جدو جہد آزادی میں برابری سے حصہ لیا تھا اور جن کو معافی مانگنے والا یا غدار کہا ہے ۔ مثال کے طور پر ان تاریخ دانوں نے ونائک دامودر ساورکر کے اوپر الزام لگایا جاتا ہے کہ انہوں معافی مانگ کر غداری کی جو غلط تھا کیونکہ مہاتماگاندھی کی طرح ہی ساورکر نے بھی جدوجہد آزادی ہند کے تعلق سے کچھ کم قربانیاں نہیں دی تھی جس معافی نامہ کا ذکر کیا جاتا ہے وہ دراصل معافی نامہ نہیں بلکہ اس دور میں انگریزی سامراجی حکومت کے آقاؤں کو خط لکھنے کا ایک اسٹائل ہوا کرتا تھا، جس میں انگریزی میں کچھ اس طرح سے لکھاجاتا تھا، ’’میں آپ کا تابعدار ‘‘ ،’’میں آپ کا غلام‘‘ وغیرہ ۔ یہ اسٹائل ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ دیگر انگریزی حکومت کی کالونیوں میں بھی رائج تھا ۔ صرف ساورکر ہی نہیں بلکہ گاندھی ،نہرو ، پٹیل، لالہ لاجپت رائے وغیرہ اسی انداز میں اپنے خط لکھا کرتے تھے تاکہ عوام الناس کے لئے جو سہولیات وہ چاہتے ہیں ، ان کے اس انداز تحریر سے حاصل ہو جائے ۔بلکہ گاندھی جی کو اس بات کا احساس تھا کہ ساورکر ایک زبردست دماغ رکھتے ہیں اور ان کا رہا ہونا ہندوستان کی آزادی کے لیے اشد ضروری ہے، لہٰذا انہوں نے ہی ساورکر کو اس قسم کے خط لکھنے کی تلقین کی تھی۔
موجود ہ سرکار کواس بات کا عار بھی ہے کہ ان کے بڑے رہنماؤں، جیسے ہیڈگیوار، گولوالکر، شیاما پرساد مکھرجی، دین دیال اپادھیائے، ویر ساورکروغیرہ کا تاریخی و ادبی نصاب میں یا تو کوئی ذکر ہی نہیں ہے یا اگر حوالہ بھی ہے تو منصفانہ نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آجکل تاریخ ہند کو دوبارہ لکھا جا رہا ہے اس سلسلہ میں، منصفانہ طریقہ تو یہ ہو گا کہ کسی بھی دور پر مکمل طور سے پردہ نہ ڈال کر ، ہر دو ر کی اچھی باتوں کو شامل کیا جائے ، تاکہ آنے والی نسلوں کو ہندوستانی سماج کی یگانگی اور باہمی ہم آہنگی سے روشناش کیا جائے ۔
مثال کے طور پر ، کس طرح سے سبھی مذاہب کے لوگ چشتیہ درگاہوں پر جاکر کس طرح منتیں مانگتے ہیں، کس طرح سے اورنگ زیب کے سب سے بہادر سپہ سالار کا نام اپاّ گنگا دھر تھا جو ایک مراٹھا تھا اور جس کی یاد میں اس نے ’’اپا گنگا دھر مندر ‘‘ (گوری شنکر مندر ) کی تعمیر کرائی، کس طرح سے بہادر مراٹھہ راجہ شیواجی کا سب سے بہادر سپہ سالار، ایک مغل اللہ داد خاں تھا ، کس طرح سے پونہ کے پودداریشور رتھ مندر کی یاترا میں مقامی مسلم مولیوں کے ذریعہ جلوس میں شامل ہونے والوں کے لیے شربت اور کھانے کا انتظا م کیا جاتا ہے کس طرح راجستھان میں میرابائی کے میلے میں مسلمانوں کا ہجوم ٹوٹ کر پڑتا ہے اور وہاں سے مویشی خدیدتا ہے۔ کس طرح سے محمد رفیع بہترین بھجن گاتے تھے اور کیسے ٹھمری گائیکی کی ملکہ اختری بیگم مندروں میں بھجن کیرتن کیا کرتی تھیں اور کیسے کلکتہ اور اڑیسہ میں مسلم کاریگر درگا ماتا کی مورتیاں اور کالی ماتا کے پنڈال بنایا کرتے ہیں اور کیسے سائرہ بانو، زینت امان ، وحیدہ رحمان سیندور اور بندی لگار فلموں میں ہندو خواتین کا رول ادا کیا کرتی تھیں۔ہماری ہندوستانی وراثت ، گنگا جمنی تہذیب اور ساجھا وراثت ہے جس میں پہلے اور آج بھی سبھی طبقے مل کر ہندوستان کو جگت گرو بنانا چاہیں گے۔
(راقم خانوادۂ مولانا ابوالکلام آزاد کے چشم و چراغ ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS