غزہ اور عسقلان کے باہر اسرائیل کی جنگ: محمد حنیف خان

0

محمد حنیف خان

اسرائیل اور فلسطین کے مابین جنگ صرف غزہ اور عسقلان میں نہیں لڑی جا رہی ہے بلکہ اسرائیل یہ جنگ پوری دنیا میں لڑ رہا ہے۔ غزہ میں اسرائیل اگر بمباری کرکے معصوم بچوں، خواتین، بزرگوں اور بیماروں کو اپنی سفاکیت اور بربریت کا نشانہ بنا رہاہے تو پوری دنیا میں ایک نفسیاتی جنگ چھیڑ کر ان معصوں اور بے گناہوں کے بارے میں سوچنے سے بھی روکنے کی کوشش کر رہا ہے۔اس نے پوری دنیا میں فلسطین اور فلسطینی کاز کے مقاطعہ کا نہ صرف منصوبہ بنا رکھا ہے بلکہ اس پر عمل پیرا بھی ہے،جس کے لیے وہ ہر طرح کے حربے استعمال کر رہا ہے۔
اسرائیل (یہودی)میڈیا کی طاقت سے بخوبی واقف ہے،اس لیے فلسطین پر مسلسل قبضہ اور فلسطینیوں پر مسلسل ظلم کے نتیجے میں 7اکتوبر کو جوں ہی حملہ ہوا، اسرائیل کے سفارت خانے پوری دنیا میں حرکت میں آگئے اور انہوں نے سب سے پہلے میڈیا کا رخ کیا تاکہ دنیا کو اپنے مظلوم ہونے کا یقین دلا سکیں،وہ کبھی یہ نہیں کہتے ہیں کہ اسرائیل میں بسنے والے یہودی اسرائیلی نہیں بلکہ دنیا کے کونے کونے سے لاکر بسائے گئے ہیں اور ان ہی زمینوں پر بسائے گئے ہیں جن سے فلسطینیوں کو بے دخل کیا گیا ہے بلکہ وہ دنیا کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ فلسطینی ان پر ظلم کر رہے ہیں اوران کے وجود کا خاتمہ چاہتے ہیں۔پوری دنیا کا میڈیا یہودیوں کے قبضے میں ہے لیکن وہ باشعور صحافی اور صحافتی ادارے اس کے چنگل سے آزاد ہیں جو صحافت کے اخلاقیات اور اس فریضے کی اہمیت سے واقف ہیں۔اسرائیل اور اس کے سفارت کاروں نے اس طرح کے صحافی اور صحافتی اداروں کو نشانے پر لے لیا ہے جو اسرائیلی کاز کے بجائے صحافتی دیانت داری کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔در اصل ان کا مقصد یہ ہے کہ میڈیا میں فلسطینی کاز کو بالکل جگہ نہیں ملنی چاہیے تاکہ دنیا وہ دیکھے اور جانے جو ہم دکھانا چاہتے ہیں۔
ہندوستانی میڈیا جنگ کے پہلے دن سے اسرائیلی کاز کے لیے پوری محنت کررہا ہے،ہر چینل اور اخبار حماس کو دہشت گرد لکھ رہا ہے جب کہ ہندوستان کی حکومت نے اس کو دہشت گرد نہیں قرار دیا ہے،اسرائیلی سفیر حکومت سے مطالبہ کر رہا ہے کہ اسے دہشت گرد قرار دیا جائے مگر حکومت سے پہلے یہاں کا میڈیا یہ کام کر دے رہا ہے۔مگر ایسا نہیں ہے کہ سبھی ادارے صحافتی اخلاقیات کو فراموش کرچکے ہیں، بہت سے ایسے ادارے ہیں جو آزادانہ فکر کے حامل ہیں،جو صحافتی فریضے کی اہمیت سے واقف ہیں۔
’’دی ہندو‘‘ نے فلسطینی لبریشن گروپ حماس کے نائب صدر ابو موسی مرزوق کا اپنی فرنٹ لائن میگزین میں انٹرویو شائع کیا جس پرہندوستان میںاسرائیل کے سفیر ناؤر گلون نے اسے شرمناک قرار دیتے ہوئے نہ صرف سخت اعتراض کیا بلکہ جس انداز اورلہجے میں خط لکھا ہے، اس کی کسی بھی صورت حوصلہ افزائی نہیں کی جاسکتی ہے،اس طرح کا خط اگر وہ اپنے ملک کے میڈیا کو لکھتے تو شاید وہاں بھی قابل قبول نہ ہوتا کیونکہ اسرائیلی اخبار ہارٹز نے گزشتہ ایام میں جس طرح کے مضامین شائع کیے ہیں،وہ اسرائیلی سفیر کے منھ پر طمانچہ ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی بھی ملک کے سفیر کی ذمہ داری اپنے ملک کے مفادات کا تحفظ ہوتا ہے لیکن اس کا بھی دائرہ ہوتا ہے،اگر کوئی شخص اپنے دائرے سے باہر نکلتا ہے تو اس سے اس ملک کی عزت و وقار کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ سفارت کاری کا معاملہ ذرا یوں پیچیدہ ہے کہ سفیر بہت سے قوانین سے مستثنیٰ ہونے کے ساتھ ہی اس کے اپنے پروٹوکول ہوتے ہیں جو اس متعلقہ ملک میں ملتے ہیں،لیکن یہ امر طے شدہ ہے کہ وہ کسی بھی ملک کے داخلی معاملات میںنہ تو دخیل ہوسکتا ہے اور نہ ہی سرکاری و غیر سرکاری اداروں کوکسی طرح حکم دے سکتا ہے،اسی طرح اسے یہ بھی حق حاصل نہیں ہے کہ اپنے کاز کے لیے کسی غیر سرکاری ادارے پر اس طرح تنقید کرے جیسے اس میں وہ سفیر نہیں بلکہ وہاں کا حاکم ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہندوستان کے میڈیا کو ایک اسرائیلی سفیر کسی طرح کا درس دینے والا کون ہوتاہے؟اگر اسرائیلی سفیر کو کسی طرح کے انٹرویو سے شکایت تھی تو اسے سرکاری سطح پر اپنا احتجاج درج کرانا تھا،اس کے بجائے براہ راست طریقہ اختیار کرکے اس بات کا ثبوت دیا ہے کہ وہ یہاں بھی بے لگام ہے۔’’دی ہندو‘‘ نے ہی 19اکتوبر کو اسرائیلی سفیر کا انٹرویو کیا جسے اپنی ویب سائٹ پر اپلوڈ بھی کیا ہے،جس میں انہوں نے اپنے ملک کے مفادات کا خوب تحفظ کیا ہے اور انڈین میڈیا کو اپنے پروپیگنڈے کے لیے استعمال کیاکیونکہ جب انہیں پلیٹ فارم ملا تو فلسطینیوں کے خلاف انہوں نے خوب زہر اگلا،ایک طرح سے اسرائیلی سفیرنے ہندوستانی عوام کے سامنے اسرائیل کا موقف رکھا مگر جب اسی اخبار نے دوسرے فریق حماس کے نائب صدرابو موسی مرزوق کا انٹر ویو شائع کیا جس میں انہوں نے اپنے75سالہ دکھ درد،قبضہ اور اپنی مظلومیت کی داستان کو بیان کیاہے تو فوراً وہ صحافتی اخلاقیات کا درس دینے لگے اور شکوک و شبہات کا اظہار کرنے لگے۔حقیقت یہ ہے کہ خود انہیں بھی صحافتی اخلاقیات سے کسی طرح کا کوئی سروکار نہیں ہے،صحافتی اخلاقیات کی یہ بنیاد ہے کہ تنازع کی صورت میں فریقین کے موقف کو عوام کے سامنے رکھا جائے۔ اگر اخبار صرف اسرائیل یا صرف فلسطین کے موقف کو جگہ دیتا تو اس پر الزام عائد کیا جا سکتا تھا اور شکوک و شبہات کا اظہار کیا جاسکتا تھا مگر اخبار نے عین صحافتی اخلاقیات کی پاسداری کرتے ہوئے فریقین کو یکساں جگہ دی۔اسرائیلی سفیر کی اخبار کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے اور اس کے عمل کو شرمناک قرار دینے کی ہمت صرف اس لیے ہوئی کیونکہ ان کو یہاں اتنی آزادی ملی ہوئی ہے،اسی طرح وہ اپنے بہتر تعلقات کا اس سے کہیں زیادہ فائدہ اٹھا رہے ہیں،اسے معلوم ہے کہ مرکز میں جو حکومت ہے وہ ہماری حامی ہے، ایسے میں وہ اس طرح دندنا رہا ہے جیسے وہ اس ملک میں سفیر نہ ہو کر یہاں کا حاکم ہے۔اسرائیلی سفیر کا یہ رویہ خود مختار ہندوستان کے ایک خود مختار ادارے کو دھمکانے والا ہے،جس کی سرزنش کی جانی چاہیے۔
اگر کوئی یہودی صحافتی اخلاقیات کا درس دے تو یہ یقینا مضحکہ خیز بات ہوگی۔یہ بات میں اس لیے کہہ رہا ہوں کیونکہ دنیا میں اگر کسی نے صحافت میں غیر اخلاقیت کا مظاہرہ کیا ہے تو وہ یہودی ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ صحافت کو ایک انڈسٹری کا درجہ دلانے میں یہودیوں نے سب سے نمایاں کردار ادا کیاہے لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ یہودیوں نے ہی میڈیا کو نہ صرف جانبدار بنایا ہے بلکہ سب سے زیادہ اس کا منفی استعمال کیا ہے۔اگر اسی معاملے کا باریک بینی سے مطالعہ کیاجائے تو یہ پتہ چلے گا کہ اسرائیلی سفیر میڈیا کو صرف اپنی آواز اور اپنا بھونپو بنانا چاہتے ہیں،اگر ایسا نہ ہوتاتو انہیں ابو موسی مرزوق کے انٹرویو سے کسی طرح کی کوئی دشواری نہ ہوتی اور نہ ہی وہ سفارتی اخلاقیات کو سوالیہ نشان کی زد میں لاتے۔اسرائیلی سفیر کے اس عمل کے پس پشت ایک بہت تاریخی پہلو ہے۔
1897میں سوئزرلینڈ کے شہر بال میں ہرٹزل کی قیادت میں پوری دنیا کے تین سو یہودی دانشوروں نے ایک میٹنگ کی جس میں 19نکاتی ایک دستاویز تیار کیا گیا،جس کا اصل مقصد پوری دنیا پر حکمرانی کرنا تھا اور وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوئے۔اس 19نکاتی دستاویز میں بارہویں نمبر پر میڈیا کو رکھا گیا تھا جس کی غیرمعمولی اہمیت،اس کی طاقت اور اس کی افادیت کا تذکرہ کرتے ہوئے اس کے لیے منشور تیار کیا گیاہے۔جس میں ایسے قوانین کی توضیع کی بات کی گئی کہ بغیر اجازت کے کچھ بھی چھپ نہ سکے تاکہ ان کے خلاف اگر کوئی مواد شائع ہونے والا ہو تو اس سے وہ باخبر ہوجائیں۔مطلق العنان حکمرانوں، اوباش سیاست دانوں کے ساتھ ہی ایسے افراد و جماعتوںکی حمایت کا بھی منصوبہ بنایا گیا جو جمہوریت اور عوامی مسائل کے حامی ہوں تاکہ توازن برقرار رہے۔جعلی خبروں کا منصوبہ ابتدا میں ہی بنا لیا تھا تاکہ اپنے مقاصد پورے کیے جاسکیں اور رائے عامہ کو اپنے مفادات کے لیے ہموار کیا جاسکے۔یہی وجہ ہے کہ جوںہی اسرائیل کے خلاف مواد شائع ہوا تو اسرائیلی سفیر صحافتی اخلاقیات کا درس دینے لگے۔ دراصل یہ اخلاقیات نہیں یہودیوں کا منصوبہ ہے جو ادارہ بھی اس کے منصوبے کے خلاف عمل کرے گا، اسرائیل اس پر حملہ آور ہوجائے گا۔اس لیے آزاد میڈیا اور با اخلاق میڈیا کے لیے ضروری ہے کہ اس طرح کی باتوں پر کان نہ دھرا جائے اور صحافتی اخلاقیات کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی بھی تنازع کی صورت میں فریقین کو برابر موقع اور جگہ دی جائے۔ اسرائیل چاہتاہے کہ دنیا ان معصوم بچوں کے بارے میں بالکل نہ سوچے جسے اس نے پیدائشی سرٹیفکیٹ بننے سے قبل اپنے بموں کا نشانہ لیا اور یہ منصوبہ میڈیا پر قبضہ کے ذریعہ ہی پورا ہوسکتا ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS