زندگی کے احترام کو انسانی سوچ کا محور بنائیں : عبدالسلام عاصم

0

عبدالسلام عاصم

اگر مقابلہ اسرائیل اور حماس کے درمیان ہے تو اُن کی فارورڈ لائنیں ایک دوسرے کے گول پوسٹوں کی طرف نشانے لگانے کے بجائے اُن تماش بینوں کو کیوں ہدف بنارہی ہیں جوانسانی سروں سے کھیلنے والی دونوں ٹیموں میں سے کسی کے شیدائی ہرگز نہیں بلکہ اسٹیڈیم میں پابہ زنجیر تماشائی ہیں۔
حماس کے1400کے جواب میں اسرائیل کی جانب سے9000سے متجاوز انسانی زندگیوں کی بدترین پامالی ماضی کی تمام سفاکیوں کا ریکارڈ توڑ رہی ہے۔ ایک افسوسناک اخباری اطلاع کے مطابق اسرائیلی حکام کا خیال ہے کہ غزہ میں عام نہتے شہریوں کی جو ہلاکتیں ہو رہی ہیں، وہ حماس کے 7 اکتوبر کے نہتے اسرائیلیوں پر ہلاکت خیز حملوں کی جائز قیمت ہے۔ اس بے رحمانہ اور سفاکانہ سوچ کو جواز فراہم کرنے کے لیے اسرائیل کی طرف سے عالمی جنگ میں جرمنی اور جاپان پر بمباریوں اور ہیروشیما اور ناگاساکی میں ایٹم بم دھماکوں کا حوالہ دیا جا رہا ہے۔
اسی طرح دونوں کے حلیفوں کا رد عمل بھی بدستور جامد ہے۔ لیگ آف نیشن کے انجام کی طرف بڑھتی تنظیم اقوام متحدہ اپنی کسی بے بسی پر نادم نہیں۔وہاں مفادات سے اٹے خیموں میں بٹے اراکین کو روایتی طرفداری اور بیان بازی سے زیادہ ایسی کسی تجویز سے کوئی دلچسپی نہیں جو انسانی سوچ کو زر، زن اور زمین ہتھیانے کی قبائلی عہد سے چلی آ رہی جنگوں سے نجات دلائے۔
ایسا نہیں کہ اقوام متحدہ کے پاس اچھے کاموں کی کوئی فہرست نہیں یا اس ادارے نے صرف کام بگاڑے ہی ہیں لیکن اخباری دستاویزات مظہر ہیں کہ یہ ادارہ دنیا میں ہونے والے کئی اہم انسانی المیوں کو روکنے میں ناکام رہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس کی سلامتی کونسل کے مستقل اراکین اپنے استردادی حق کا استعما ل منصفانہ طور پر کرنے کے بجائے اپنے محدود قومی اور علاقائی مفادات کے پیش نظر کرتے ہیں۔ اس ادارے کی طرف سے خال خال ایسی بہبودی کوششیں بھی کی جاتی ہیں جن کی طرف تمام انسانی وسائل کا رُخ موڑ دیا جائے تو بقائے باہم کا جو تصور ابھی تک تذکرے میں ہے، کسی بھی نئی صبح کے ساتھ عملی زندگی کا حصہ بن جائے۔
حالات کے تازہ موڑ پر بھی متحارب قوتیں اور اُن کے حلیف نفع اور نقصان کے ازکار رفتہ حساب و کتاب میں مصروف ہیں۔ انسانی زندگی کی بقا کو اولین اہمیت دینے کے بجائے مسئلے کے ایک ایسے ذو مملکتی حل کی مسلسل گردان کی جارہی ہے جس کے حق میں ذہن سازی کا کام کرنے کا بیڑہ اٹھانے کو کوئی تیار نہیں۔ سب بس زبانی جمع خرچ تک محدود ہیں۔ مسئلے کے ذو مملکتی حل کے تعلق سے متحاربین میں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑی قومیں اگر اتنی ہی سنجیدہ ہیں تو وہ اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں کہ اس رخ پر آج تک ان کا کیا عملی اشتراک رہا۔ ہتھیار فروشی اور عقائد کے کاروبار سے انہیں فرصت ہی نہیں کہ وہ خدائی عنایات میں سب سے زیادہ لائقِ تقدیس نعمت ’’زندگی‘‘ کے احترام کو انسانی سوچ کا محور بنا سکیں۔
ایسا کیوں ہے؟ عام آدمی کیلئے یہ سمجھنا ناممکن نہیں، لیکن اُن لوگوں کو یہ سمجھانا انتہائی مشکل ہے جن کی اپنی تکلیف ہمیشہ اُس سے زیادہ ہوتی ہے جو اُن کی وجہ سے دوسروں کو پہنچتی ہے۔ یہ ایک ایسی غیر معلنہ یک طرفہ تفہیم ہے جو انہیں ایک دوسرے کی تکلیف کو سمجھنے اور ایک ایسے نتیجے تک پہنچنے ہی نہیں دیتی جہاں دونوں ایک دوسرے کے زخم پر مرہم رکھ سکیں۔ عام فلسطینی اور اسرائیلی دونوں دہائیوں سے اپنے بزعم خود نمائندوں کے ایسے ہی اعمال کے شکار چلے آرہے ہیں۔
ایسے میں نئی نسل کے ذہن میں اب یہ سوال ابھر نے لگاہے کہ امن کے رُخ پر فلسطینی رہنما یاسر عرفات، اسرائیلی رہنمایان اسحاق رابن اور شمعون پیریز کو نوبل امن انعام سے نوازے جانے کے باوجود سابقہ صدی کے آخری عشرے کا اوسلوامن معاہدہ عمل میں کیوں نہیں آ سکا!اس کا غیر مبہم جواب یہ ہے کہ دائیں بازو کے اسرائیلی اور مٹھی بھر شدت پسند فلسطینی اس قدر جامد ذہن رکھتے ہیں کہ وہ کسی طرح کے متحرک اختلاف کے ساتھ جینے کے متحمل نہیں۔ یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ اوسلو معاہدے کی قیمت اسحاق رابن کو جہاں اپنی جان دے کر چکانا پڑی تھی، وہیں غرب اردن اور غزہ کی مقتدرہ الفتح کو حماس نے میدان عمل میں فلسطینیوں کی نمائندگی کا حق ادا کرنے کے قابل نہیں رہنے دیا۔دونوں میں اختلاف اتنے بڑھے کہ غزہ سے الفتح کو بے دخل ہونا پڑا۔ بدقسمتی سے دونوں طرف کے شدت پسندوں نے اپنے اپنے حلقوں میں اعتدال پسند قیادت کو ابھرنے ہی نہیں دیا۔ یمینی اسرائیلیوں نے کبھی ذو مملکتی حل کی تائید نہیں کی اور حماس مسلسل اِس موقف پر اڑا رہا کہ اُن تمام علاقوں پر مشتمل ایک فلسطینی مملکت کا قیام عمل میں لایا جائے جو اسرائیل کے پاس ہیں۔ اس ڈیڈلاک کا ناخوشگوار نتیجہ یہ مرتب ہوا کہ اسرائیل کو مغربی کنارے پر دیوار اٹھانے اور یہودی بستیوں کی تعمیر کے سلسلے کو جاری رکھنے کے عزم سے کبھی باز نہیں رکھا جا سکا۔
متنازعہ علاقے پر فلسطینیوں اور اسرائیل دونوں کا دعویٰ ہے۔ قدیم تاریخ کے مطابق137قبل مسیح میں شہنشاہ ہیڈرین نے شوریدہ سر یہودیوں کو فلسطین سے جلا وطن کر دیا تھا۔چوتھی صدی عیسوی میں رومیوں نے مسیحیت قبول کی اور وہاں کلیسا کی بنیاد رکھی۔ مسلمانوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ 639عیسوی میں عیسائیوں سے ایک معاہدے کے تحت بیت المقدس مسلمانوں نے حاصل کر لیا تھا۔ جدیدتاریخ کے مطابق دسمبر1917میں انگریزوں نے بیت المقدس اور فلسطین کی زمین پر یہودیوں کو آباد ہونے کی اجازت دے دی اور پھر1947میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کو عربوں اور یہودیوں میں تقسیم کر دیا۔14مئی 1948کو جب یہودیوں نے اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا تو عربوں کے ردعمل کے نتیجے میں جنگ چھڑ گئی اور فلسطین کے کوئی78 فیصد حصے پر اسرائیل قابض ہو گیا۔
یہ علاقہ مسلمانوں کے قبلہ اول مسجد اقصیٰ کی وجہ سے جہاں مسلمانوں کے لیے اہم ہے، وہیں دیگر آل ابراہیم کے لیے بھی دینی اعتبار سے اس کی اتنی ہی اہمیت ہے۔ سب اپنے اپنے طور پر اس کی بازیابی کیلئے سرگرداں ہیں۔ یہ پورا علاقہ یہودی، مسیحی اور اسلامی برادران کے لیے ان کے عقائد کی رو سے انتہائی اہم ہے۔ یہودیوں کا ہیکل سلیمانی بھی بیت المقدس کے پاس ہی ہے جبکہ حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش بھی اسی قدیمی شہر بیت اللحم میں ہوئی تھی۔
اب تک اس رُخ پر جتنی کوششیں ہوئی ہیں، وہ ذو ریاستی حل کے رُخ پر ہی چلی آرہی ہیں۔ یہ مشرقِ وسطیٰ میں امن کا وہ ممکنہ فریم ورک ہے جس پردو چار نہیں بلکہ تمام عرب لیگ اور یوروپی یونین کے اراکین کے علاوہ روس اور امریکہ سمیت دنیا بھر کے بیشتر رہنمایان اتفاق کرتے ہیں۔ اس فریم ورک کے تحت ہی جس کی اقوام متحدہ کی مختلف قراردادوں میں تائید کی گئی ہے(1967کی تقریباً یکطرفہ اور تباہ کن عرب اسرائیل جنگ سے پہلے کی اسرائیلی حدود کو بنیاد بنا کر) مغربی کنارے، غزہ پٹی اور مشرقی یروشلم میں ایک آزاد فلسطینی مملکت کا قیام عمل میں لانا ہے۔ اس فریم ورک کو اب تک عمل میں کیوں نہیں لایا جا سکا! یہ ہرگز ہرگز کوئی معمہ نہیں ہے۔ اوسلو معاہدے میں اسرائیل فلسطین تنازعہ کو ذو مملکتی حل کے ذریعہ ختم کرنے کے منصوبے کو تکمیل تک لانے کے عزم کا اعادہ تو کیا گیا لیکن بات بننے کے بجائے بگڑتی ہی چلی گئی۔ دو دہائیوں سے زیادہ کا وقفہ گزر چکا ہے لیکن کسی نئی اُڑان سے کوئی ایسی منزل نہیں مل سکی جہاں اسرائیلی اور فلسطینی دونوں اشتراک باہم کے ذریعہ مستقل اور پر امن ہمسائیگی کے تصور کو عمل میں لا سکتے۔
حالات کے دگر گوں موڑ پر بدقسمتی سے موت کے کھیل کے ناظرین زیادہ ہیں۔ ان میں سے کچھ اسرائیل کی ہر زیادتی کو حق بجانب قرار دے رہے ہیں اور کچھ فلسطینیوں پر ظلم کے خلاف پرشور احتجاج کے ذریعہ شو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ، دیگر عالمی مجالس اور تنظیم اسلامی کانفرنس میں بھی بظاہر تو سبھی اختلافات کو مذاکرات کی میز پر لانے کے وکیل ہیں لیکن ان وکیلوں کی ڈگریاں کتنی جعلی ہیں یہ مشرق وسطیٰ کے حالات کھل کر بتا رہے ہیں۔
(مضمون نگار یو این آئی اردو کے سابق ادارتی سربراہ ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS