تفتیشی اداروں کی افادیت اور ساکھ

0

مغربی بنگال سے دہلی اور راجستھان تک مرکزی ایجنسیاں سرگرم ہیں۔اپوزیشن لیڈروں کو تاک تاک کر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ کہیں منی لانڈرنگ کے الزامات پر کارروائی ہورہی ہے تو کہیں ذرائع سے زیادہ دولت اکٹھا کرنے کا معاملہ ہے اور کہیں اپوزیشن لیڈران کو رشوت ستانی اور بدعنوانی کے الزامات کا سامنا ہے۔ آئینی عہدوںپر بیٹھے ہوئے افراد کو بھی اچانک نوٹس بھیج کر تفتیش میں شامل ہونے کی ہدایت دی جارہی ہے۔ چند یوم قبل مغربی بنگا ل کے ریاستی وزیرجنگلات اور سابق وزیرخوراک جیوتی پریہ ملک کو ای ڈی نے حراست میں لیا تھا۔ کل جمعرات کو تلنگا نہ میںکانگریس امیدواروں کے گھر پر محکمہ انکم ٹیکس نے چھاپہ مارااور کل ہی دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کجریوال کی طلبی ہوئی تھی ہر چند کہ وہ اس طلبی کو غیر قانونی ٹھہراتے ہوئے حاضر نہیں ہوئے لیکن گرفتاری کی تلواران پر لٹک رہی ہے اور آج ایک بار پھر راجستھان میں ای ڈی کے اہلکار کانگریس لیڈروں کے خلاف بزن بول چکے ہیں۔سیاسی لیڈروں کے ساتھ ساتھ ریاست کے سینئر عہدیداروں کے گھروں اور دفتروں کی تلاشی لی جارہی ہے۔مختلف محکموں کے سکریٹری اور دوسرے اعلیٰ حکام بھی نشانہ پر ہیں۔ دو درجن سے زیادہ مقامات پر اچانک چھاپے مارے گئے۔ کل جمعرات کو راجستھان کانگریس کے صدر گووند سنگھ ڈوٹاسرا کے بیٹوں کو سمن بھیجاگیا تھا، اس سے پہلے راجستھان کے وزیراعلیٰ اشوک گہلوت کے بیٹے ویبھو گہلوت سے غیر ملکی کرنسی کے قوانین کی مبینہ خلاف ورزی کے سلسلے میں10گھنٹوں تک پوچھ گچھ کی گئی تھی۔
ایجنسیوں کا دعویٰ ہے کہ وہ قانون کی سربلندی کے لیے کام کررہی ہیں۔ حکومت بھی کم و بیش یہی دعویٰ کرتی ہے کہ قانون اپنا کام کررہاہے۔ وزیراعظم نریندر مودی بار بار اس عزم کا اظہار کرتے ہیں کہ چور لٹیروں کی بدعنوانی کو روکنے اور ان کے خلاف کارروائی کرنے کیلئے لوگوں نے انہیں اقتدار میں بٹھایا ہے اور وہ یہ کام پوری طاقت سے کر رہے ہیں۔ کوئی کچھ بھی کرلے، لیکن وہ اس کام کو کبھی روکنے والے نہیں ہیں۔لیکن ایجنسیوں کی تیزی اور کارروائی کا قرینہ دیکھ کر یہ کہنا مشکل ہے کہ چور لٹیرے نشانہ پر ہیں۔مغربی بنگال ہو یا دہلی، راجستھان ہو یا پھر کوئی دوسری ریاست، مرکز میں حکمراں بی جے پی کے لیڈران کے خلاف کہیں کوئی کارروائی نہیں ہورہی ہے جو کچھ ہورہاہے وہ صرف اپوزیشن پارٹیوں کے رہنمائوں کے ساتھ ہورہاہے۔ لوک سبھا انتخابات2024سے پہلے اسی ماہ راجستھان، چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش، تلنگانہ اور میزورم میں ریاستی اسمبلی کے انتخابات ہونے ہیں۔اس دوران اپوزیشن لیڈروں کے ساتھ ہورہی ان کاررائیوںکوسیاسی انتقام کے علاوہ کوئی دوسرا نام نہیں دیاجاسکتا ہے۔
یہ محض اتفاق نہیں بلکہ انتہائی تشویشناک صورتحال ہے کہ ای ڈی، سی بی آئی اور دوسری مرکزی ایجنسیوں کی کارروائی کا نشانہ صرف اپوزیشن کے لیڈران ہیں، انتخاب سے قبل تاک تاک پر اپوزیشن لیڈروں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔اسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بی جے پی کی زیر قیادت مرکزی حکومت اپوزیشن میں دہشت پھیلانے کیلئے ان ایجنسیوں کا استعمال کررہی ہے۔ حکمراں جماعت بی جے پی کے اشاروں پر کام کررہی ایجنسیوں نے بی جے پی کیلئے الگ پیمانہ مقررکیا ہے تو اپوزیشن پارٹیوں کیلئے الگ اصول بنارکھے ہیں۔ ملک بھر میں سیکڑوں ایسے کیس سامنے آچکے ہیں جن میں چہرے اور پارٹی کی بنیاد پر تحقیقات کی جاتی ہے یا کلین چٹ دی جاتی ہیں۔ اپوزیشن ریاستوں میں حکومتیں گرانے اور بی جے پی کی حکومت بنانے کے سلسلے میں مرکزی حکومت کے تحت کام کرنے والی ان ایجنسیوں کا کردار سامنے آچکا ہے۔ مغربی بنگال، مہاراشٹر، کرناٹک اور تلنگانہ وغیرہ ریاستوں میں بی جے پی مخالف لیڈروں کو ڈرا دھمکا کر انہیں زعفرانی خیمہ تک پہنچا چکی ہیں۔ مغربی بنگال میں مکل رائے سے شوبھندو ادھیکاری تک اس کی مثال ہیں۔ مہاراشٹر میں اجیت پوار کے خلاف مقدمات ختم کرکے انہیں دیویندر فڑنویس کی بی جے پی حکومت اور بعدازاں ایکناتھ شندے کی حمایت کیلئے تیار کیاجانا بھی ان ہی ایجنسیوں کا کارنامہ ہے۔
ملک میں پولیس انتظامیہ پر لوگوں کا اعتماد پہلے ہی کم تھا، ماتحت عدالتوں میں برسوں سے چل رہے مقدمات اور اعلیٰ عدالتوںمیں عقیدہ کی بنیادپر ہورہے فیصلوں کی وجہ سے عدلیہ کی ساکھ بھی متاثر ہوچکی ہے اور اب تفتیشی ادارے بھی اپنی کارگزاریوں سے یہ ثابت کررہے ہیں کہ ان کی افادیت صرف انتقامی سیاست تک محدود ہے۔ چوروں، لٹیروں، بے ایمانوں اور راشیوں کے خلاف کارروائی کے بجائے حکمراں جماعت کے سیاسی عزائم کی تکمیل میں آلۂ کار بن کر یہ ادارے اپنی افادیت ختم اور ساکھ تباہ کررہے ہیں۔یہ صورتحال کسی جمہوری ملک کے اندرونی نظم و نسق کیلئے اچھی علامت نہیں کہی جاسکتی ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS