ہندوستان کی پہل افغانوں کیلئے وردان ہوگی

0

وید پرتاپ ویدک

افغانستان کے سوال پر دہلی میں ہورہی پڑوسی ممالک کی کانفرنس کا خیرمقدم ہے۔ ہماری دفاعی پالیسی اور خارجہ پالیسی کی نقطہ نظر سے 8ممالک کی اس کانفرنس کی خاص اہمیت ہے۔ کابل پر جس دن طالبان کا قبضہ ہوا، اسی دن سے میں مسلسل لکھتا اور بولتا رہا کہ ہماری ’بیٹھے رہو اور دیکھتے رہو‘ کی پالیسی ٹھیک نہیں ہے، کیوں کہ افغانستان کے پڑوسیوں میں ہندوستان ہی ایسا ملک ہے، جس نے اس کی تعمیرنو میں سب سے زیادہ پیسہ خرچ کیا ہے، اس کے لوگوں نے قربانیاں دی ہیں اور اسے ہی سب سے زیادہ خطرہ ہوسکتا ہے۔ لیکن کوئی بات نہیں۔ دیر آید، درست آید!
اس کانفرنس میں کل 10ممالک کو شامل ہونا تھا۔ ہندوستان کے علاوہ روس، چین، پاکستان، ایران، ازبکستان، تاجکستان، قزاقستان، ترکمانستان اور کرغستان۔ لیکن پاکستان نے صاف انکار کردیا۔ اس کے سلامتی مشیر معید یوسف نے نے دہلی کانفرنس میں حصہ لینے سے انکار کر ہی دیا لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ ’ہندوستان توکام بگاڑو ہے۔ وہ امن کا پیامبر کیسے بن سکتا ہے؟‘ یوسف ذرا بتائیں کہ ہندوستان نے گزشتہ 60-70برس میں افغانستان کا کون سا کام بگاڑا ہے؟ افغانستان کی جیسی بے لوث مدد ہندوستان نے کی ہے، ویسی دنیا کے کسی بھی ملک نے نہیں کی ہے۔ سرد جنگ کے زمانہ میں روس اور امریکہ نے افغانستان میں روبلوں اور ڈالروں کی تھیلیاں کھول دی تھیں۔ لیکن دونوں سپرپاور نے اس ملک پر قبضہ کرلیا تھا اور دونوں ہی وہاں سے بڑے بے آبرو ہوکر نکلے۔
عام افغان عوام کے دل میں ہندوستان کے لیے جتنا احترام ہے، کسی ملک کے لیے نہیں ہے۔ گزشتہ 50-55 برس سے میں افغانستان کے گاؤں گاؤں اور شہر شہر میں گھوم رہا ہوں لیکن آج تک کسی نے بھی ہندوستان کے خلاف ویسا نہیں کہا ہے، جیسا یوسف دعویٰ کررہے ہیں۔ افغانستان کے ہر صوبہ میں ہندوستان نے نہریں، پاور ہاؤس، اسپتال، اسکول، پل، سڑکیں اور عمارتیں بنائی ہیں۔ افغان پارلیمنٹ کی شاندار عمارت ہندوستان کی ہی دین ہے۔ ہندوستان نے 75,000ٹن گیہوں ڈیڑھ سال پہلے افغانستان بھیجا تھا اور اب بھی 50ہزار ٹن گیہوں بھیجنے کی پہل اس نے کی ہے لیکن پاکستان کام بگاڑنے والا بنا ہوا ہے۔ وہ گیہوں لے جانے کے لیے راستہ نہیں دے رہا ہے۔ کابل میں لوگ بھکمری کے دہانے پر کھڑے ہیں اور پاکستان کے دل میں اپنے مسلمان بھائیوں کے لیے ذرا بھی ہمدردی نہیں ہے۔ وہ اپنا نقصان خود کررہا ہے۔ بھوک سے پریشان لاکھوں افغان اب پاکستان میں آدھمکیں گے۔
جہاں تک چین کا سوال ہے، اس نے ڈپلومیٹک پینترا اپنایا ہے۔ اس نے کہہ دیا ہے کہ چین میں کمیونسٹ پارٹی کا انتہائی تاریخی سیشن آج کل چل رہا ہے۔ اسی لیے وہ اپنے نمائندوں کو نہیں بھیج پارہا ہے۔ چین-پاک سازباز کو چھپانے کے لیے چین نے کتنے باریک پردوں سے آڑ کی ہے۔ چین اب پاکستان کو اپنا مہرا بناکر افغانستان کی تانبے اور لوہے کی کانوں پر ہاتھ صاف کرنے پر آمادہ ہے۔
افغانستان کے سوال پر پہلے بھی ایران میں ہوئی دو میٹنگوں کا پاکستان نے بائیکاٹ کیا تھا، کیوں کہ اس میں ہندوستان نے بھی حصہ لیا تھا۔ اس دہلی کانفرنس میں طالبان کو نہیں بلایا گیا ہے لیکن کچھ دن قبل ہوئی ماسکو کانفرنس میں طالبان کو بلایا گیا تھا اور وہاں ہندوستانی نمائندے نے طالبان وزرا سے راست بات چیت بھی کی تھی۔ اس کے پہلے بھی طالبان کے چیف نمائندے دوحہ میں ہمارے سفیر سے مل چکے ہیں۔ اگر پاکستان اس کانفرنس میں حصہ لے لیتا تو اس کانفرنس کی کون سی ایسی بات ہوتی، جو طالبان سے پوشیدہ رہتی۔
اسی لیے میرا زور اسی بات پر رہا ہے کہ طالبان سے ہم سیدھی بات کریں۔ ہم اس حقیقت سے خوفزدہ نہ ہوں کہ پاکستان ہی طالبان کی کفالت کرتا ہے اور محافظ رہا ہے۔ جو لوگ افغان تاریخ سے واقف ہیں، انہیں معلوم ہے کہ افغان پٹھانوں اور پنجابیوں کا ایک دوسرے کے بارے میں بنیادی نظریہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ ہم نے اس حقیقت پر بھی توجہ نہیں دی ہے کہ جن افغانوں نے ہزاروں روسی اور امریکی سپاہیوں کو قتل کیا ہے، ان کے بڑے لیڈر بھی طالبان سے سیدھی بات کررہے ہیں اور ہم جھجھک محسوس کررہے ہیں۔ طالبان ترجمان کئی بار یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ کشمیر ہندوستان کا اندرونی معاملہ ہے اور ہندنژاد ہندو اور سکھ لوگ ان کی حکومت میں محفوظ رہیں گے۔ طالبان پاکستان پرست ضرور رہے ہیں لیکن وہ ہندوستان مخالف نہیں ہیں۔
میری رائے میں دہلی میں ہورہی اس کثیرالقومی کانفرنس میں دو ایشوز پر بحث اور اتفاق رائے ہونا چاہیے۔ پہلا تو یہ کہ سبھی پڑوسی ملک مل کر افغانستان کی کھل کر مدد کرنے کا عہد کریں تاکہ ایک بھی افغان بوڑھا یا بچہ بھوک اور ٹھنڈ سے فوت نہ ہو۔ اس وقت افغانستان کے 90فیصد لوگ اناج کی ممکنہ کمی کے سبب پریشان ہیں۔ وہ گھر کا سامان فروخت کرکے اناج کا ذخیرہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس سال موسم سرما کا قہر بھی ابھی سے شروع ہوگیا ہے ۔ گھروں کو گرم رکھنے اور گرم کپڑوں کا مناسب انتظام کرنا بھی ضروری ہے۔ امریکی بینکوں میں افغان حکومت کے جو 10ارب ڈالر روک لیے گئے ہیں، انہیں مشروط کیوں نہیں چھڑوایا جائے؟
جس دوسرے ایشو پر سبھی ممالک کی ایک رائے ہونی چاہیے، وہ یہ ہے کہ وہ طالبان حکومت کو سفارتی منظوری دے سکتے ہیں لیکن ان کی حکومت میں سبھی فریقوں کو شامل کیا جانا چاہیے۔ دہشت گردی سے اس کے کسی لیڈر یا افسر کا دور دور تک کوئی تعلق ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔ طالبان خود اپنی حکومت کو ابھی ’کام چلاؤ‘ ہی کہہ رہے ہیں۔ اسے پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے بھی ابھی تک منظوری نہیں دی ہے۔ اگر دہلی کانفرنس منظوری کی گاجر لٹکاکر، طالبان کو صحیح راستہ پر چلنے کے لیے مجبور کردے تو کوئی حیرانی نہیں ہے کہ ہند-افغانستان تعلقات بھی ہمیشہ کی طرح خوشگوار ہوجائیں۔ بادشاہ ظاہرشاہ اور سردار داؤد خان کے زمانہ میں افغانستان نے جیسے سردجنگ کے دوران روس اور امریکہ کے ساتھ قربت کی بہترین مثال دنیا کے سامنے پیش کی تھی، ویسی ہی منفرد مثال طالبان اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ بھی پیش کرسکتے ہیں۔
(مضمون نگار افغان معاملات کے ماہر ہیں)
(بشکریہ: دینک بھاسکر)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS