سرمایہ داری کی گود میں ہمکتی ہندوستان کی ’جمہوریت‘

0

محمد فاروق اعظمی

گزشتہ چند برسوں میں ہندوستان کی جمہوریت نے جس تیزی سے اپنا رنگ بدلا ہے اس کی مثال دنیا کا اورکوئی ’ جمہوری‘ ملک نہیں پیش کرسکتا ہے۔ایسی مثالوں کے معاملے میں ہماری اپنی تاریخ بھی کم و بیش کوری ہی ہے۔ ہندو پاک جنگ کا زمانہ ہو یا چین سے جنگ کے ایام ہوں، یا پھر اندرا گاندھی کے زمانے کی ایمرجنسی ہو، عوام کے حقوق، جمہوریت، اظہاررائے کی آزادی پر ایسے پہرے نہیں تھے جن کا تجربہ حالیہ برسوں میں ہورہاہے۔یہ کہاجائے تو غلط نہیں ہوگا کہ ہندوستان کی جمہوریت عملاً اب آمریت میں بدل گئی ہے اورسرمایہ داری کی گو د میں ہمک رہی ہے۔ اس آمریت کو پروان چڑھانے اور اسے ہندوستان پر مسلط رکھنے کیلئے سرمایہ داروں نے اپنے خزانے کے منہ کھول دیے ہیں۔ان خزانوں سے اپنی تجوری بھرنے والی حکومت عوام کی رگوں سے خون نچوڑ کر سرمایہ داری کو سرسبز و شاداب کررہی ہے۔ہر وہ فیصلہ اور پالیسی نافذ کررہی ہے جس کے ثمرات سرمایہ داروں کی جھولی میں گریں۔زرعی قوانین ہو ں یامختلف عوامی اداروں سے ’سرمایہ کشی‘ ان سبھی کے فوائد منتخب کارپوریٹ گھرانوں کو حاصل ہورہے ہیں۔ ملک کے سوا کروڑ عوام مہنگائی، بے روزگاری، بھکمری، محرومی، ناامیدی اور پسماندگی کو اپنی قسمت سمجھ کر جھیلنے پر مجبور ہیں۔آج ملک ایسے مقام پر کھڑا ہے جہاںحکمرانوں کی آمریت اور سرمایہ داروں کی مالی آمریت کے دوطرفہ بھیانک شکنجے منھ کھولے جمہوریت کو نگل رہے ہیں۔
یہ صورتحال ایک دن میں پیدا نہیں ہوئی ہے، ملک کو یہاں تک لانے اور جمہوریت کے روشن اور اجلے چہرہ پر سیا ہی ملنے میںکئی عوامل شامل ہیں۔ سرمایہ داروں کا ہوس زر اپنی جگہ لیکن حکمرانوں اور سیاسی جماعتوں کی بدعنوانی نے اس میں بڑا حصہ ڈالا ہے۔ جلسے جلوس اورا نتخابی مہم میں بدعنوانی کے خلاف بلند بانگ دعوے کرنے والی سیاسی پارٹیاں درحقیقت بدعنوانیوں کے سہارے ہی حکومت میں آتی ہیں۔ اپنے جلسہ میں سرمایہ داروں پر لعن طعن کرتی ہوئی ان سیاسی پارٹیوں میں ارب پتی سرمایہ داروں،کارپوریشنوں اور صنعت کاروں کا براہ راست بھاری سرمایہ لگاہوتا ہے اوریہ ان ہی کے زیرا ثر کام کرتی ہیں۔ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوکر حکومت میں آنے کے بعد یہ سیاسی پارٹیاں اپنے اصل کی طرف لوٹ جاتی ہیں اور سرمایہ داروں کے ایک اوزار کے طور پران کے مفادات کیلئے کام کرنے لگتی ہیں۔ حالیہ دنوں کئی ایسی خبریں آئی ہیں جن کے بین السطور یہی حقائق گردش کررہے ہیں۔
اسی سال الیکشن کمیشن کو جمع کی گئی ایک رپورٹ میں بھار تیہ جنتاپارٹی کا اعتراف ریکارڈ پر ہے کہ اسے 2019 اور 2020 کے دوران مختلف کارپوریٹ گھرانوں، الیکٹورل ٹرسٹ اور عام افراد سے مجموعی طور پر785کروڑ روپے کا عطیہ حاصل ہوا ہے۔جن کارپوریٹ گھرانوں نے بھارتیہ جنتاپارٹی کے خزانہ میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ ان میں کئی طرح کے گھوٹالوں کی زد میں آئے کلیان جوئیلرس، ریئر انٹرپرائزز، امبوجا سیمنٹ، لودھا ڈیولپرس اور موتی لال اوسوال جیسے بڑے گھرانے شامل ہیں۔
نام تو عطیہ اور چندہ ہے لیکن درحقیقت یہ سرمایہ کاری ہے جو صنعت کاروں نے سیاسی جماعتوں میں کررکھی ہے اورحکومت بننے کے بعد اس کا ہزاروں گنا منافع حاصل کرتے ہیں۔اس سے قبل بھی سرمایہ دار سیاسی جماعتوں کی فنڈنگ کرتے رہے ہیں لیکن حالیہ برسوںمیں اس فنڈنگ یا یوں کہیں کہ سرمایہ کاری میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔اے ڈی آر کی ایک سابقہ رپورٹ بتاتی ہے کہ مالی سال2018-19میں کارپوریٹ اور ارب پتی سرمایہ داروں اورصنعت کاروں نے سیاسی جماعتوں کو مجموعی طور پر 876.10کروڑ روپے دیے ہیں۔جو ان جماعتوں کو معلوم ذرائع سے ملنے والی رقم کا 92% ہے۔صرف ایک سال یعنی 2018-19 میں سیاسی پارٹیوں کو سرمایہ داروں سے ملنے والی رقم میں131فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ ملک کی پانچ بڑی سیاسی پارٹیوں میں سب سے زیادہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو ملک کے 1573 بڑے سرمایہ داروں نے رقم دی ہے۔ایک آرٹی آئی کے ذریعہ حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق 2018 میں شروع ہونے والے الیکٹورل بانڈ کے ذریعہ صرف ڈیڑھ سال کی مدت میں سیاسی پارٹیوں کو مجموعی طور پر 6128

سیاسی جماعتیں لاکھ کہیں کہ وہ عوام، سچائی، انصاف اور قانون کی حکمرانی کیلئے کام کررہی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسی ہی پالیسیاں اور قوانین بنائے جا رہے ہیں جن کا راست فائدہ سرمایہ داروں کو حاصل ہو رہا ہے۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ عوام کو اس کا احساس تک نہیں ہے۔

کروڑ روپے حاصل ہوئے ہیں۔
پارٹی اسے عطیہ اور چندہ ہی کہتی ہے لیکن درحقیقت یہ سرمایہ داروں کی سرمایہ کاری ہے اور حکومت بننے کے بعد سرمایہ دارو ںکو اس کا منافع حاصل ہورہاہے۔اس منافع کی بابت بھی تفصیلات ریکارڈ پر ہیں۔ 2019میں ہی دوسری بار اقتدار میںآنے پر بھارتیہ جنتاپارٹی کی مرکزی حکومت نے ملک کے 15 بڑے صنعت کاروں کے 3.50 لاکھ کروڑ روپے کے بقایا ٹیکس یک قلم معاف کردیے۔کارپوریٹ ٹیکس کی شرح بھی 35 فیصد سے کم کرکے26 فیصد کردی گئی۔ اس کے ساتھ ہی معیشت کی بحالی اور صنعتوں کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے نام پر بینکوں سے لیے جانے والے لاکھوں کروڑ روپے کے کارپوریٹ قرض کو بھی ادائیگی سے استثنیٰ کا پروانہ دے دیا گیا۔ یعنی حکومت بننے کے بعد سیاسی پارٹیوں میں لگائے جانے والے سرمایہ پر سرمایہ دار منافع وصول کرنے لگے ہیں۔
عوام پرحکمرانی کیلئے عوام میں سے ہی عوام کے ذریعہ انتخاب کا فلسفہ بیان کرنے والی جمہوریت، ہندوستان میں اب رخصت ہورہی ہے۔اب عملی صورتحال یہ ہے کہ ارب پتی تاجر اور صنعت کار اپنی دولت سے پروان چڑھنے والی سیاسی پارٹیوں کے ذریعہ عوام پر بالواسطہ حکمرانی کررہے ہیں۔سیاسی جماعتیں لاکھ کہیں کہ وہ عوام، سچائی، انصاف اور قانون کی حکمرانی کیلئے کام کررہی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسی ہی پالیسیاں اور قوانین بنائے جارہے ہیں جن کا راست فائدہ سرمایہ داروں کو حاصل ہو رہاہے۔دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ عوام کو اس کا احساس تک نہیں ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS