عیدالفطر کی مناسبت سے نیپال کے مشہور عالم دین مولانا محمد عزرائیل مظاہری کااہم خطاب

0

انوار الحق قاسمی
(ناظم نشر و اشاعت جمعیت علماء روتہٹ نیپال)
رمضان المبارک کے اختتام اور عید سعید کے تقریباً دخول کے موقع پر ملک نیپال کے شہرت یافتہ عالم دین مولانا محمد عزرائیل مظاہری نے مسلمانان عالم سے خطاب ہوکر کہا:کہ ماہ رمضان المبارک انتہائی عظمت اور برکت والا مہینہ ہے،جوابھی ہم پر سایہ فگن ہے اور اس کے ختم ہونے کو مشکل سے ایک دودن اور رہ گئے ہیں۔رمضان المبارک کے اختتام کے بعد متصلاً ہی عید کا دن آجاتا ہے،جس میں دنیا بھر کے مسلمان بطور شکرانہ دوگانہ عید اداکرتے ہیں۔
مولانا نے کہا:کہ” عید”کو عید اس لیے کہتے ہیں کہ اس کا معنی ہے وہ چیز جو باربار لوٹ کر آئے اور چوں کہ رمضان المبارک کے اختتام کے بعد یہ دن بھی بار بار لوٹ کر آتاہے ؛اس لیے اسے عید کہتے ہیں۔
مولانا نے مزید کہا:کہ سرور کونین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے،تو دیکھا کہ وہاں کے کفار و مشرکین سال کے دو دن میں خوب اچھلتے اور کودتے ہیں( جیساکہ ہندو و نیپال کے ہندو ہولی اور دیوالی کے موقع پر بد تمیزیاں کرتے ہیں اور خوب شوروطوفان مچاتے ہیں)تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کہ ان کے دو دنوں کے بدلے میں اللہ تمہیں عید الفطر اور عید الاضحی کی شکل میں دو دن عطا کیے ہیں اور فرمایا: کہ ہمارا سب سے پہلا کام ان دو دنوں میں دوگانہ عیدین کے ذریعہ اللہ کا شکر بجالاناہے نہ کہ ہم ان دو دنوں کھیلیں اور کودیں۔
مولانا نے یہ بھی کہا:کہ عید الفطر کا دن اللہ سے معافی مانگنے کا دن ہے۔حدیث پاک میں ہے کہ جب لوگ روزہ رکھتے ہیں اور عید کے دن عیدگاہ میں نماز کے لیے جاتے ہیں،تو اللہ اپنے فرشتوں کو گواہ بنانے سے پہلے ان سے ایک سوال پوچھتے ہیں کہ جو مزدور مزدوری کرے ،تو اس کا کیا حق ہے؟فرشتے کہتے ہیں:کہ یا اللہ اس مزدور کی پوری مزدوری عطا کردی جائے، پھر باری تعالیٰ کہتے ہیں کہ تم گواہ بن جاؤ کہ میرے ان بندوں نے روزہ رکھا اور قیام اللیل یعنی تراویح پڑھی،میں اپنے بندوں کو معاف کرتاہوں۔حدیث پاک میں یہ بھی آتا ہے کہ جب بندہ عیدگاہ میں آتا ہے اور اللہ سے معافی مانگتا ہے ،تو یہ گناہوں سے بالکل پاک و صاف ہوکراپنے گھر کو لوٹتاہے۔اس لیے عیدالفطر کو مغفرت کا دن بھی کہا جاتاہے۔
مولانا نے کلام دراز کرتے ہوئےکہا :کہ عید الفطر کے دن مسلمانوں پر اپنے اور اپنے نابالغ بچوں، بچیوں کی طرف سے صدقةالفطر اداکرنا ضروری ہے،بیوی اگر مالدار ہے ،تو اس کی طرف سے صدقہ فطر دیناضروری نہیں ہے اور اگراس کی طرف سے دیدے توصدقہ فطر ادا ہو جائے گا،اسی طرح اگر اپنے بالغ اولاد کی طرف سے بھی ادا کردے تو ادا ہو جائے گا۔دوگانہ ادا کرنے سے پہلے صدقہِ فطر ادا کردے تو یہ مستحب ہے اور اگر کوئی بعد میں بھی ادا کرے گا،تو اداہی ہوگا نہ کہ قضا۔
صدقہِ فطر کے وجوب میں دو عظیم مصلحتیں ہیں: نمبر (1) روزوں کی تطہیراور نمبر (2) غریبوں کاتعاون ہے۔
مسلمانوں کو چاہیے عیدگاہ جانے سے پہلے غریبوں پر ایک نظر دوڑالیں کہ کوئی غریب ایسا تو نہیں،جس کے پاس خوشیوں کے اسباب مہیا نہ ہونے کی بنا وہ غم میں ہیں،اگر واقعی کسی غریب کے پاس خوشیوں کے اسباب نہیں ہیں،تو پھر پہلے ان کے لیے فرحت و شادمانی کے اسباب کا انتظام کریں ،پھر عید گاہ جائیں،تاکہ غریب بھی خوشیوں میں برابر کے شریک ہوجائیں۔
مولانا نے اپنا بیان یہ کہتے ہوئے ختم کردیا کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ماہ رمضان المبارک کی طرح دیگر مہینوں میں بھی نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین یارب العالمین۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS