عدلیہ کی غیرجانبداری اور توہین عدالت

0

پرشانت بھوشن جوکہ میرے دوست ہیں عدالت نے ان کے خلاف توہین عدالت کے کئی معاملات بند کردیے ہیں۔ ہم ان کے ذریعہ دیے گئے کچھ حلف ناموںکا جائزہ لیںگے اور ان حلف ناموںمیں اٹھائے گئے سوالات پر روشنی ڈالیںگے۔ میں سوچتا ہوں کیا یہ سپریم کورٹ کے لئے ایک نادرموقع نہیں تھا کہ وہ اس طرح کے (افسوسناک) سوالات پر غورکرتا۔
یہ مقدمہ بند کیا گیا ہے یا ان کو دفنا دیا گیا ہے۔ 13سال قبل پرانے پرشانت بھوشن کے خلاف اس کیس کو بند کیا گیا اور یہ خبر مجھے معلوم ہوئی تومیرے ذہن میں یہ سوال آیا۔ اس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ اس کیس کا بند ہونا ایک راحت کی بات تھی۔ یہ ایک صاف اور خوشگوار اشارہ تھا۔ جبکہ اس کے برخلاف 2020 کی گرمیوں میں جب معزز جج صاحبان یہ تاثر نہیں دینا چاہتے تھے کہ وہ بدعنوانیوں کے خلاف اٹھنے والی آوازوںکے در پے ہیں۔ یہ بات نہ صرف یہ نئے چیف جسٹس کے لئے اہمیت کی حامل ہے بلکہ یہ سوال سپریم کورٹ کے وقار کا بھی ہے۔
مجھے لگتا ہے کہ سپریم کورٹ نے ایک تاریخی موقع گنوا دیا کہ وہ اس بات پر غورکرتا جوکہ کئی دہائیوں سے کارپیٹ کے نیچے دبا دیا گیا تھا۔ اس کیس کے بند ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کیس میں داخل ہونے والے بہت ہی دھماکہ خیز حلف نامے جوکہ سپریم کورٹ میں داخل کئے گئے ان پر اب سماعت نہیں ہوگی۔ یہ حلف نامہ سیل بند لفافے میں تھے۔ یہ بات افسوسناک ہے کہ ان حلف ناموں میں کچھ ایسے الزامات تھے جو سپریم کورٹ کے اعلیٰ ترین ججوںکے بارے میں تھے۔ میرے خیال میں اب ایسا کوئی دوسرا فورم نہیں ہے جہاں پہ اس قسم کے کیسوں پر سماعت ہو یا اس پر فیصلہ صادر کیا جاسکتا ہو۔ اب سپریم کورٹ کے اس عمل سے یہ واحد فورم بھی بند کردیا گیا ہے۔
2020میں جب سپریم کورٹ نے یہ کیس کھولا تھا تو میں نے ان ہی کالمس میں اس فیصلہ کا خیرمقدم کیا تھا کیونکہ سپریم کورٹ کا اس معاملے میں سماعت نہ کرنے کا معاملہ ایک غلط تاثر پیدا کرتا ہے کہ ان حلف ناموں میں کچھ ایسے سنسنی خیز چیزیں ہیں جن پر سپریم کورٹ کچھ کہنا نہیں چاہتا تھا۔ میں نے امید ظاہر کی تھی کہ سپریم کورٹ کا یہ اچانک اٹھایا گیا متنازع قدم ایک ٹکرائو کی صورت حال پیدا کرے گا اور کچھ ایسے ناخوشگوار سوالوں پر فیصلہ صادر کرے گا۔ میں نے درخواست کی تھی کہ ان امورپر کھلی عدالت میں مکمل طریقے سے اور غیرجانبداری کے ساتھ بحث ہونی چاہئے۔ میری رائے تھی کہ سینئر موسٹ ججوں کی پانچ رکنی بنچ اس مسئلے پر غورکرتی اور تمام پیش کئے گئے شواہد پر فرصت کے ساتھ غورکرتی اور پھر فیصلہ کرتی۔ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ کہ ان الزامات کو چھوڑدیا جائے ایک ایسا فیصلہ ہے جس سے یہ امکان بھی ختم ہوگیا۔
ایک لمبی اور عجیب زندگی
قارئین کی یادداشت کو تازہ کرنے کے لئے یہ بتا دوںکہ ہم پرشانت بھوشن کے خلاف اس کیس کی بات نہیں کر رہے ہیں جس میں پرشانت بھوشن نے چیف جسٹس آف انڈیا ایس ایس بوبڑے کو ایک موٹربائیک پر بیٹھے ہوئے دکھایا تھا۔ یہ کیس جسٹس ارون مشرا کے دور میں ہی ختم ہوگیا تھا اور پرشانت بھوشن پر ایک روپیہ کا جرمانہ عائد کیا گیا تھا۔ اسی مدت میں کورٹ نے ایک اور پرانے کیس کو کھولنے کا بھی فیصلہ کیا جوکہ توہین عدالت کا تھا۔اس معاملے میں تہلکہ میگزین کو دیا گیا ان کا 2009کا انٹرویو تھا جس میں انہوں نے کہا تھا ’’میری نظر میں پچھلے 16یا 17چیف جسٹس کے عہدہ پر فائز رہنے والے ججز میں سے نصف بدعنوان تھے۔‘‘ یہ انٹرویو پرشانت بھوشن اور اس وقت کے تہلکہ میگزین کے ایڈیٹر ترون تیج پال کے خلاف توہین عدالت کی وجہ بنا تھا۔
اس کیس کی زندگی بھی کچھ عجب تھی
یہ کیس 2009 میں ہریش سالوے نے دائر کیا تھا۔ جوکہ ایمیکس کیوری کے طورپرفرائض انجام دے رہے تھے۔ مگر جب پرشانت بھوشن نے اپنے بیان کی روشنی میں اور اپنے دلائل کو مضبوط کرنے کے لئے تین حلف نامے داخل کردیے تو یہ معاملہ ٹھنڈے بستے میں چلا گیا۔ بعد میں 2020 میں یہ معاملہ دوسرے توہین عدالت کے مقدمات کے ساتھ جسٹس ارون مشرا کی بنچ کے سامنے آیا۔ جب یہ معاملہ سماعت میں آیا تو ترون تیج پال نے غیرمشروط معافی مانگ لی۔ مگر پرشانت بھوشن نے اپنی وضاحت پیش کی: ’’جس میں انہوںنے کہا کہ 2009میں تہلکہ کو دیے گئے انٹرویو میں میں نے کرپشن کو ایک وسیع تر معنوں میں پیش کیا تھاجس کا مقصد پروپرائٹی کا فقدان بتایا گیا تھا۔ میرے کہنے کا مطلب صرف اقتصادی کرپشن نہیں تھا یا یہ کہنا مقصد نہیں تھا کہ مادی فائدے اٹھائے گئے ہیں اور اگر میرے قول سے کسی کو چوٹ پہنچی ہو یا ان کے خاندان والوں کو کوئی ٹھیس پہنچی تو مجھے افسوس ہے ۔‘‘ اس وقت بنچ نے پرشانت بھوشن کی وضاحت کو رد کردیا تھا اوراس مسئلہ کو سماعت کے لئے آگے بڑھا دیا گیا تھا اوراس میں اس بات پر فیصلہ کرنے کو کہا گیا تھا کہ ’’کیا جس بیان میں کرپشن کی بات کہی تھی کیا اس سے توہین عدالت ہوتی ہے؟‘‘ صاف زبان میں وہ ملک جہاں پر آئین اور قانون میں ججوں کے نارواں سلوک کی انکوائری کا معاملہ ہو تو کورٹ ہر اس ایشو پر جس میں کرپشن کا ذکر ہو اگرچہ وہ درست بھی ہو تو وہ توہین عدالت کا مرتکب ہوگا۔
شکر ہے کہ جب دوسال کے بعد یہ معاملہ جسٹس اندرابنرجی، سوریہ کانت اور ایم ایم سندریش کی بنچ کے سامنے آیا تو عدالت نے اس مذکورہ بالا غیرمعمولی تجویز پر کوئی فالواپ نہیں کیا۔ لائیو لاء کے مطابق سینئر ایڈووکیٹ کامنی جیسوال جوکہ پرشانت بھوشن کی طرف سے پیش ہوئی تھیں انہوں نے استدلال پیش کیا تھا کہ ’’انہوں نے (پرشانت بھوشن) نے اپنے بیان پر وضاحت پیش کردی ہے۔ سینئر ایڈووکیٹ کپل سبل جوکہ ترون تیج پال کی طرف سے پیش ہوئے تھے انہوں نے بھی معافی مانگ لی۔بنچ نے اپنا آرڈر ریکارڈ کرتے ہوئے حکم صادر کیا کہ ایسے حالات میں ہم کو یہ ضروری نہیں لگتا کہ اس معاملے کوسماعت کے لئے آگے بڑھایا جائے۔‘‘
حلف ناموں میں کیا کہا گیا تھا
یہاں پر تذکرہ کیا جارہا ہے کہ ان حلف ناموں میں کس قسم کے سوالات اٹھائے گئے تھے اور ان کے شواہد میں کیا کیا دستاویزات پیش کئے گئے تھے۔ …… 2009 تک 18میں سے 8چیف جسٹس سے متعلق یہ کیس تھے۔ کیونکہ ہم افراد میں نہیں بلکہ ادارے کے بارے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ میں یہاں کچھ نکات کو متعلقہ ججوںکا نام لئے بغیر پیش کروںگا۔
چیف جسٹس آف انڈیا 1:کیا مذکورہ جج نے حکمراں پارٹی کے لیڈروں کی اہم انکوائری جس کی وہ صدارت کر رہے تھے، میں لیڈروں کے رول کی لیپاپوتی نہیں کی تھی اور اس بابت موافق فیصلہ آنے کے بعدریٹائرمنٹ پرسی جے آئی کو سیاسی عہدہ سے نوازنے میں کوئی تعلق تھا۔
چیف جسٹس آف انڈیا2: کیا انہوں نے اپنی مختصر مدت میں چیف جسٹس آف انڈیا کے عہدے پر رہتے ہوئے کچھ بزنس گھرانوں اور ان سے وابستہ امور کو اپنے پاس سماعت کے لئے لانے کا فیصلہ نہیں صادر کیا تھا ۔اگر نہیں تو کورٹ کو کیوں اس بات کے لئے مجبورہونا پڑا کہ وہ ان احکامات کو کھلی ہوئی عدالت کے درمیان سماعت کے لئے فیصلہ صادر کرے، جبکہ وہ سی جے آئی ریٹائرڈ ہوگئے ہیں۔
چیف جسٹس آف انڈیا 3:کیا انہوںنے ایسا نہیں کیا جب وہ چیف جسٹس آف انڈیا کے عہدے پر فائز تھے۔ انہوں نے ایک بڑا پلاٹ خریدا جہاں ایک شاندار گھر بنایا اوروہ بھی ایسے علاقے میں بنایا جہاں خود سپریم کورٹ نے احکامات صادر کرکے تعمیرات پر روک لگائی تھی۔ کیا ان کی مدت کار میں اس بابت فیصلوں میں ترمیم نہیں کی گئی تھی۔ کیا وہ ایک ایسے ٹرسٹ کے لائف ٹائم چیئرمین نہیں بن گئے تھے جس ادارے کو انہوںنے چیف جسٹس رہتے ہوئے رقومات عنایت نہیں کی تھی۔
چیف جسٹس آف انڈیا 4:کیا ان کی دوبیٹیوںنے وزیراعلیٰ کے عہدے پر فائز شخص سے ایک رہائشی پلاٹ حاصل نہیں کیا تھا اور انہوںنے مذکورہ اسی چیف منسٹر کے خلاف ایک سنگین معاملے کو رفع دفع نہیں کیا تھا۔ کیا انہوں نے سپریم کورٹ کے جج کے طورپر ایک کیس کی سماعت کرنے کی کوشش نہیں کی تھی جس میں ان کا خود کا مفاد شامل تھا۔
چیف جسٹس آف انڈیا 5:کیا انہوں نے ہائی کورٹ کے جج کی حیثیت سے ایک عرضی گزار سے پلاٹ حاصل نہیںکیا تھا اورجس کے عوض میں انہوں نے اس کے حق میں فیصلہ سنایا تھا اور کیا انہوں نے ہائی کورٹ میں چیف جسٹس کے عہدے پر ایک ایسا فرضی حلف نامہ داخل نہیں کیا تھا جس میں گورنمنٹ سے کم قیمت پر ایک پلاٹ ملا تھا۔
چیف جسٹس آف انڈیا 6:کیا سی جے آئی نے اپنے عہدے پر رہتے ہوئے ایک کمرشیل پراپرٹی کو سیل کرنے کا فیصلہ نہیں کیا تھا۔ یہ فیصلہ اس دور میں کیا تھا جب ان کا خو کا بیٹا ان کی سرکاری رہائش گاہ پر ان کے ساتھ رہتا تھا۔ اس فیصلہ سے اس کمپنی کو فائدہ پہنچا جس میں ان کا بیٹا ملازمت کرتا تھا۔ چیف جسٹس کے بیٹے نے فائدہ اٹھاکر کمرشیل کمپلیکس اور شاپنگ مال کے ساتھ سمجھوتہ کرکے فائدہ حاصل کیا تھا۔
چیف جسٹس آف انڈیا 7:کس طرح چیف جسٹس کی بیٹی، داماد، بھائی اور ان کے دیگر معاونین نے جائیدادوں کو حاصل کیا جوکہ چیف جسٹس کے عہدہ پر رہنے اور ان کی آمدنی کے ذرائع سے زیادہ کی مالیت کے تھے۔
چیف جسٹس آف انڈیا8:کیا سی جے آئی نے ایسا فیصلہ صادر نہیں کیا تھا جس میں ایک کمپنی کو ایسi پرکشش سودے میں فائدہ پہنچا جوکہ انوائرمنٹ کمیٹی کے فیصلے کے خلاف تھی۔ یہ کمیٹی خود سپریم کورٹ نے بنائی تھی۔ سماعت کے دوران انہوںنے کیوںنہیں یہ بتایا تھا کہ جس کمپنی کے بارے میں وہ فیصلہ کی سماعت کر رہے ہیں اس میں ان کے خود کے شیئر ہیں۔
میں یہ نہیں کہہ رہا کہ یہ جوالزامات لگائے گئے ہیں وہ فائنل ہیں اورحقائق پر مبنی ہیں۔ ہم یہ سمجھ لیں کہ یہ الزامات غلط ہیں، بلکہ بدنیتی کی وجہ سے عائد کئے جارہے ہیں۔ پھر بھی جب اس قسم کے الزامات پبلک ڈومین میں ہیں اور ان الزامات کو ملک کی اعلیٰ ترین عدالت میں حلف نامے میں بیان کیا گیا ہے اور ان دستاویزات کے ساتھ قانونی ریکارڈ بھی درج ہیں تو کیا ہم کسی عدالت سے یہ توقع نہ رکھیں کہ وہ اس بابت ایک غیرجانبدارانہ انکوائری کرے تاکہ الزامات سے پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کا ازالہ کیا جاسکے۔ چلئے ہم یہ فرض کرلیتے ہیں کہ ان الزامات میں اٹھائے گئے نکات بدسلوکی پر مبنی ہیں مگر صحیح ہیں اور متعلقہ ججوں کا جوڈیشیل کنڈکٹ (عدالتی طور طریقے)کسی بھی باہری چیزوں سے متاثر نہیں ہے۔ پھر بھی کیا یہ اس بات کا تقاضا نہیں کرتا کہ کنفلکٹ آف انٹرسٹ آف فائنانشیل حقائق کے بارے میں کوئی تفتیش یا کتاب کھولی جائے اور مذکورہ بالا معاملات میں اگر کچھ تھوڑا سا بھی سچ ہے ۔ کیا ان امورپر کھلی، غیرجانبدار اور مکمل سماعت عدالتی جوابدہی اور اصلاحات کے عمل میں معاون ثابت بھی ہوجائے یا ثابت نہ ہو کیا یہ توہین عدالت ہے؟
آخرکار پرشانت بھوشن نے بڑے آئینی سوالات اٹھائے تھے، جوانہوں نے 2020میں داخل کئے گئے ایک حلف نامے میں درج کئے تھے،جوکہ کسی ایک جج کی بابت نہیں تھے۔ اگر کوئی سچائی پر مبنی بیان جوڈیشیری کو اچمبھے میں ڈالتا ہے تو کیا یہ توہین عدالت کا مرتکب ہوتا ہے۔ اورکیا ایک مناسب رائے چاہے وہ ثابت ہوئی ہو یانہیں توہین عدالت ہے؟
10سال سے زیادہ طویل عرصے تک جوکیس چل رہا ہو اچانک بند کردیا جائے جس میں سپریم کورٹ نے کئی مشکل سوالات کو دفن کردیا ہے۔ میں پرشانت بھوشن کا دوست ہوں مگر مجھے افسوس ہے کہ عدالت نے ان کے خلاف توہین کا مقدمے پر سماعت نہیں کی۔
(مضمون نگار سوراج انڈیا کے بنیادگزار اور مصنف ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS