جان کی بازی لگانے والے آئی این اے کے مسلم مجاہدین

0

(گز شتہ سے پیوستہ)
80 سال پہلے 1942میں رش بہاری بوس نے انڈین نیشنل آرمی کی بنیاد رکھی۔ اس فوج کو جوکہ بنیادی طورپر ہندوستان کو انگریزوں کے تسلط سے آزاد کرنے کے لئے بنایا گیا۔ آزاد ہند فوج کے نام سے بھی جانتے ہیں۔ بعد میں رش بہاری بوس نے اس کی باگ ڈور سبھاش چندر بوس کے سپرد کردی تھی۔ رش بہاری بوس کی دوراندیشی اور قائدانہ اوصاف کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے سبھاش چندر بوس کی عقبری قیادت میں کام کرنا قبول کیا اور آخر تک ان کو مشورے دیتے رہے۔ ہندوستان کے مسلمان اس فوج سے شروع سے وابستہ رہے ہیں اور بنیادگزاروں میں کئی مسلمانوں کے نام شامل ہیں۔ بعد میں کئی لیڈروں نے رنگون کو اپنا مرکز بنایا اور ہندوستان کی آزادی کے لئے جدوجہد کی۔ رنگون کی تاجر برادری نے سبھاش چندر بوس کو خوب نوازا اور ان کو ہر ممکن مدد فراہم کی۔ سبھاش چندر بوس نے رنگون کے مسلمانوں کی خدمات کا کئی مرتبہ اعتراف کیا اور مسلمانوںنے دل کھول کر سبھاش چندربوس کی پذیرائی کی۔ ان کو تمغہ صدر جنگ اور تمغہ ویرہند کے علاوہ تمغہ بہادری، تمغہ شتروناش اور سند بہادری کے اعزازات اور انعامات سے سرفراز کیا۔ اس مختصر سے مضمون میں کئی ایسے مسلم سربراہوںکا تذکرہ کریںگے جنہوں نے انڈین نیشنل آرمی کو اپنی گراں قدر خدمات سے نوازا۔
ان میں ایک نام مجاہدآزادی کیپٹن عباس کا تھا جو اترپردیش کے بلندشہر کے رہنے والے تھے۔ وہ 3؍جنوری 1920میں پیدا ہوئے تھے اورانہوںنے انڈین نیشنل آرمی کے کیپٹن کے طورپر کافی جدوجہد کی۔ سبھاش چندر بوس کی 1943میں کی گئی اہم تقریر نے کیپٹن عباس علی کو ملک کی آزادی کے لئے کام کرنے کی ترغیب دی۔ برطانوی فوج نے ان کو گرفتارکرلیا اور عمرقید کی سزا سنائی۔ لیکن 1947میں آزادی کے بعد عباس علی کو رہا کیا گیا اور ان کی سزا کوختم کیا گیا۔ کیپٹن عباس علی کا 11؍اکتوبر 2014میں علی گڑھ میں انتقال ہوا اور وہیں پر سپرد خاک کئے گئے۔ آئی این اے کے ایک اورمجاہدآزادی میمن عبدالحبیب یوسف مرفانی تھے۔ وہ گجرات کے مجاہدآزادی تھے۔ اور سوراشٹر سے ان کا تعلق تھا۔ 9؍جولائی 1944میں جب سبھاش چندر بوس نے آئی این اے کی رنگون اکائی کی بنیاد ڈالی تو انہوںنے آزاد ہند کے خزانے میں گراں قدر دولت دی اور ان کے غیرمعمولی تعاون کی وجہ سے رنگون اور سنگاپور میں انڈین نیشنل آرمی کی یونٹیں قائم ہوئیں۔ اس زمانہ میں یوسف مرفانی نے ایک کروڑ روپے دیے تھے۔ انہوں نے اپنی جتنی بھی جویلری تھی جس کی مالیت اس وقت تقریباً 3لاکھ تھی سبھاش چندر بوس کے قدموںمیں رکھ دی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ان زیورات کی قیمت آج 800کروڑ کے برابر ہوتی ہے۔
حیدرآباد کے زین العابدین حسن 11؍اپریل 1911میں حیدرآباد میں پیدا ہوئے۔ سبھاش چندر بوس سے ان کا تعلق جرمنی میں ہوا جب وہ ہندوستان کے قیدیوں کے ساتھ ملے تھے۔ عابد سبھاش چندر بوس کے قریبی بن گئے تھے۔ ان کو میجر کا عہدہ دیا گیا۔ زین العابدین کے ہی مشورے پر آئی این اے نے جے ہند کا نعرہ اختیار کیا۔ زین العابدین نے آزادی کے بعد 1948میں سول سروسز میں کام کرنا شروع کردیا تھا اور 1969میں وہ ڈنمارک کے سفیر بنائے گئے تھے۔ 1984 میں حیدرآباد میں 73سال کی عمر میں ان کا انتقال ہوا۔
تمل ناڈو کے راماناتھم پورم میں 22؍جنوری 1918میں پیدا ہونے والے ایم کے امیرحمزہ جن کو حمزہ بھائی بھی کہا جاتا تھا۔ سبھاش چندر بوس کی قیادت والی انٹرنیشنل آرمی کے ممبرتھے۔ نوعمری سے ہی انہوں نے برما میں سفر کرنا شروع کردیا تھا اور تاجر کی حیثیت سے انہوں نے کئی ملین روپے آئی این اے کوعطیہ کے طورپر دیے تھے۔ جب برطانوی فوج کو پتہ چلا کہ وہ نیتاجی سبھاش چندر بوس کی مدد کر رہے ہیں تو ان سے پوچھ تاچھ کی گئی اورگرفتارکرلیا گیا۔ اپنی فوج کو لاکھوں سے نوازنے والے امیرحمزہ کا یکم جنوری 2016میں جس وقت انتقال ہوا، اس وقت وہ انتہائی مفلسی کا شکار رہے تھے۔
میجرجنرل محمد زماں کیانی نے برطانوی فوج میں خدمات انجام دی تھیں مگر بعد میں انہوںنے سبھاش چندر بوس کی شخصیت سے متاثر ہوکر آئی این اے میں شمولیت اختیارکرلی تھی۔ وہ سبھاش چندر بوس کی فرسٹ ڈویژن کے نگراں تھے۔ انڈین ملٹری اکیڈمی میں ان کو تربیت کے بعد سورڈ آف آنر سے نوازا گیا تھا اور وہ بعدمیں پنجاب ریجمنٹ میں شامل ہوگئے تھے۔ ہندوستانی فوج نے ان کی خدمات کے اعتراف میں نیتاجی سبھاش چندر بوس میڈل سے سرفراز کیا تھا۔ ان کا انتقال 4جون 1981میں ہوا تھا۔
کرنل نظام الدین جن کا پیدائشی نام سیف الدین تھا موجودہ اعظم گڑھ (اترپردیش) کے گائوں دکھوان میں 1901میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے 1920کی دہائی میں برطانوی فوج میں شامل ہونے کے لئے کلکتہ کا سفر کیا تھا۔ فوج میں ملازمت کے دوران جب ان کو پتہ چلا کہ سبھاش چندر بوس نے اپنی فوج بنائی ہے تو وہ آئی این اے میں شامل ہوگئے۔ برطانوی فوج کو چھوڑنے کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ایک انگریز فوجی نے اپنے فوجیوںکو حکم دیا تھا کہ وہ ہندوستانی فوجی کو بچانے میں وقت ضائع نہ کریں۔ یہ بات ان کو بہت ناگوار گزری تھی اوراس سے ناراض ہوکر وہ آئی این اے میں آگئے تھے۔ وہ ہندوستان چھوڑکر سنگاپور فرار ہوگئے تھے۔ نظام الدین سبھاش چندر بوس کے ڈرائیور کے طورپر ملازم رہے تھے اور وہ ان کے معتمد بن کر ہر جگہ ان کے ساتھ رہتے تھے۔ انہوںنے 1943سے لے کر 1944تک برما کے جنگلوں میں رہ کر نیتاجی سبھاش چندر بوس کے ساتھ انگریزوںکے خلاف جنگ لڑی۔ انہوں نے تین مرتبہ نیتاجی سبھاش چندر بوس کی جان بچائی۔ نیتاجی سبھاش چندر بوس ان کو محبت میں کرنل کہہ کر پکارا کرتے تھے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS