سیاسی بھنور میں پھنسی کشتی سے چھلانگ

0

عبدالسلام عاصم

علاحدگی پسندی کی بظاہر شکلیں مختلف ہوتی ہیں لیکن بباطن مقصد ایک ہوتا ہے۔ قومی سیاسی جماعت کانگریس سے غلام نبی آزاد صاحب کی علاحدگی کا بھی یہی پس منظر ہے۔ ظاہر یہ ہے کہ اب وہ کانگریس سے عملاً کسی صورت وابستہ نہیں رہے اور باطن کا اشارہ انہوں نے سرے سے پوشیدہ نہیں رکھا۔ خبروں اور تبصروں کے مطابق پانچ دہائیوں تک کانگریس سے وابستگی انجوائے کرنے والے جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ جلد یا بدیر اپنی نئی پارٹی کا اعلان کر سکتے ہیں۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ ایسا دو ہفتے کے اندر ہوگا اور کچھ سیاسی پیش گوئی کرنے والوں کا اندازہ ہے کہ جموں وکشمیر میں انتخابات سے عین پہلے ایسا اعلان سامنے آ سکتا ہے۔ اس طرح موصوف کو کانگریس میں قیادت کی سطح پر جو حصے داری نہیں مل سکی وہ بہ اندازِ دیگر ملتی نظر آ رہی ہے۔
جن حلقوں کا یہ کہنا ہے کہ موصوف کا جھکاؤ دائیں طرف ہے وہ کوئی نئی یا چونکانے والی بات نہیں کہہ رہے ہیں۔ سیاست میں دائیں بائیں کرنے کا عمل تو جزء لا ینفک ہے۔ ماضی میں کانگریس کا جہاں بائیں بازو کی پارٹیوں کے ساتھ اچھا خاصا ربط رہا ، وہیں کانگریس میں مرحلہ وار پیدا ہونے والی رعونت سے بیزار ہو کر نکلنے والوں نے ایک سے زائد موقعوں پر دائیں بازو سے ہاتھ ملایا ہے۔ نظیریں اتنی پرانی نہیں کہ دستاویزی حوالہ دینے کی ضرورت پڑے۔ شری مرارجی ڈیسائی، حضرت فاروق عبداللہ، محترمہ محبوبہ مفتی، نتیش کمار، مسٹر جارج فرنانڈیز، شریمتی ممتا بنرجی وغیرہ کی بہت لمبی نہیں تو خاصی چوڑی فہرست ضرور ہے جو اخباری دستاویزات سے نکال کر پیش کی جا سکتی ہے۔
علاحدگی پسندی خواہ وفاقی ہو یا غیر وفاقی، داخلی ہو یا خارجی، جماعتی ہو یا شخصی، ہے تو نہایت بدنامِ زمانہ لفط لیکن یہ مذمت کرنے والوں کیلئے بھی اپنے اندر اتنا ہی چارم رکھتی ہے، جتنی اس کی کشش استفادہ کرنے والے کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ تقسیم ہند بھی اسی دو طرفہ کشش کا نتیجہ تھی جس سے براہ راست نہ سہی بالواسطہ ہر حلقہ اتفاق کرتا ہے۔ یہ کہا جائے تو مطلق غلط نہیں ہوگا کہ علاحدگی پسندی اپنے اندر جو کشش رکھتی ہے اُسی نے دنیا کے بیشتر سیاسی کاروباروں کو زندہ رکھا ہے۔ علاحدگی پسندی کا کوئی بھی بڑا واقعہ جو ایک کے حق میں معجزہ اور دوسرے کے نزدیک سانحہ ہو،راست اور درپردہ اشتراک کا ہی نتیجہ ہوتا ہے جس کا براہ راست اعتراف کرنے کی رندانہ جرأت انتہائی کم لوگوںکے اندر ہوتی ہے۔ کچھ لوگ تو اس احساس کے صدمے کے ساتھ دنیا سے چلے جاتے ہیں۔
عجب نہیںماضی کی طرح کانگریس سے غلام نبی صاحب کے آزاد ہونے کی تاریخ بھی نئی سنڈیکیٹ کانگریس سامنے لے آئے۔ سنا ہے کہ صف بندی ہو رہی ہے۔ اخبارات روزانہ اس حوالے سے خبر و نظر سے اٹے پڑے ہیں۔ آزاد صاحب کا (جو اپنے نام کے لفظی مفہوم کے لحاظ سے بھی اب آزاد ہیں) تازہ اقدام قومی سیاست کی مجموعی صحت کا چلتا پھرتا ایکسرے رپورٹ ہے۔ رپورٹ کا مطالعہ عارضے کو موروثی بتاتا ہے۔ علاج کا اثر اُسی وقت ممکن ہے جب سبھی نہیں تو بیشتر سیاست داں اِس ادراک سے کام لیں کہ جمہوری سیاست میں نظریاتی اختلاف سے زیادہ نظریاتی اشتراک کی ضرورت پڑتی ہے اور یہ اشتراک ہی صحت مند اختلاف رائے کی راہ ہموار کرتا ہے۔ بصورت دیگر نظریاتی اختلاف برائے اختلاف محدود مفادات کی سیاست کو اِسی طرح بڑھاوا دیتا رہے گا ۔ حکمراں جہاں ضد کی راہ اپناتے ہیں وہیں اپوزیشن ہر کام میں نقص نکالنے میں اپنی ساری توانائی ضائع کرنے لگتی ہے۔ اس کا فائدہ ہمیشہ دونوں طرف کے مٹھی بھر مفاد پرست اٹھاتے آئے ہیں۔
تازہ منظر نامے میں ایسے مفاد پرستوں کی مشرق تا مغرب اور شمال تا جنوب با آسانی نشاندہی کی جا سکتی ہے۔ ملک اور ملت ہندیہ کی فکر کرنے والے حسب ماضی ایک بار پھر انتہائی اہتمام سے حاشیے پر پہنچا دیئے گئے ہیں۔ جس طرح تمام تر انسانی بدنظمی کے نتیجے میں سیلاب، زلزلے اور گلوبل وارمنگ کو عذاب الٰہی کا نام دے کر اصل دھندے باز (جو کبھی آفات سماوی کی زد میں نہیں آتے) بچ نکلتے ہیں اور تباہیوں کو بھی امداد و راحت کے نام پر بھنانے لگتے ہیں، ٹھیک اسی طرح اقتدار کی سیاست میں بھی ایک موڑ ملی بھگت کا سامنے آتا ہے جس میں مخصوص مفادات کے اشتراک پر یقین رکھنے والے اپنے ذاتی نقصان کا ازالہ کر نے تک اپنا مشن محدود کر لیتے ہیں۔ ایسے ایک سے زیادہ واقعات مختلف عنوانات سے تاریخ میں آن ریکارڈ موجودہیں۔ سوشل میڈیا کے بے ہنگم شور سے کبھی فرصت پا کر نسل آئندہ اس کا مطالعہ کرے تو آن واحد میں اس کے چودہ طبق روشن ہو جائیں گے۔
غلام نبی آزاد صاحب سیاست دانوں کی اُس صف سے تعلق رکھتے ہیں جو حکمراں اور اپوزیشن دونوں محاذوں کے اعلیٰ قائدین کی ہوتی ہے۔ اس صف سے تعلق رکھنے والے جب تک چھائے رہتے ہیںتب تک ذاتی سطح پراُنہیںیہ اطمینان رہتا ہے کہ بازی جدھر بھی پلٹے گی وہ نمایاں رہیں گے۔د وسری طرف جماعتی بزرگان اور سن رسیدگان کی وجہ سے آگے بڑھنے میں غیر ضروری مشقت سے گزرنے والے پارٹی اراکین بھی ترکیبی چالوں کا کوئی نسخہ آزمائے بغیر نہیں رہتے۔ ایک سے زیادہ بڑی پارٹیوں میں سینئروں کو کنارے لگانے کے مبینہ واقعات کی روشنی میں درونِ جماعت ایسی سیاسی سرگرمیوں کو دیکھا اور سمجھا جا سکتا ہے۔ ترقی پذیر ملکوں میں سیاسی جماعتوں کا جمہوری ڈھانچہ اکثر پارٹی کی اعلیٰ قیادت کی خود غرضی، کم آگاہی اوراجارہ دارانہ سوچ سے کمزور ہوتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اِس سے جو دوسرے فائدہ اٹھاتے ہیں وہ بھی آگے چل کر اُسی راستے پر چل پڑتے ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ یا تو یہ سمجھتے ہیں ’’زندگی کا کیا بھروسہ۔‘‘ یا شعور کی تمام چالیں بس پانے اور کھونے تک محدود رکھتے ہیں۔
غلام نبی آزاد صاحب 26 اگست کو کانگریس سے الگ ہوئے ہیں۔ پارٹی سے علاحدگی کے بعد سے اُن کے جو بیانات اخبارات کی زینت بن رہے ہیں اُن سے اُن کے فیصلے کو کتنی تقویت ملتی ہے یہ تو وقت بتائے گا۔ سرِ دست پارٹی کے خلاف اُن کے سخت ریمارکس ایک ایسے مرحلے پر کانگریس کو نقصان پہنچا سکتے ہیں جب وہ ڈھانچے اور انتخابات دونوں کے لحاظ سے اپنے گھر کو وقار بخشنے کیلئے ملک کی موجودہ سب سے اہم اور حکمراں پارٹی بی جے پی کا مقابلہ کرنے کی کوشش میں ہاتھ پاؤں مار رہی ہے۔ آزاد صاحب کو یہ علم ضرورہوگا کہ کانگریس میں ان کی ایک سے زیادہ سیاسی اور عہدہ جاتی پہچان، اُن کی دیگر خدمات اور اُن کے کشمیری ہونے سے زیادہ ملک کے سب سے بڑے اقلیتی فرقے کے نمائندے کی حیثیت سے تھی۔بہ الفاظ دیگر یہ عملاً خانہ پری تھی۔ کل تک درونِ جماعت اقلیتوں سے متعلق سیاست میں اکثر ایسا ہی ہوتا رہاہے۔اب جبکہ اقلیتی ووٹوں کی سیاسی حیثیت عملاً ختم ہو گئی ہے، کسی بھی پارٹی کو ایسی کسی مجبوری کی سیاست کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہی۔
قومی سیاست میں جب کسی بڑی پارٹی کا زوال بالاعمال شروع ہوتا ہے تو اس کا فوری اندازہ لگانے والے خاموش رہنے یااظہار کرنے کا ایکدم سے فیصلہ نہیں کر پاتے۔ دوسری طرف پارٹی کے اعلیٰ رہنمایان قیادت کے نشے میں ہوتے ہیں۔ یہ ایک نفسیاتی معاملہ ہے۔ کانگریس کا بھی جب زوال شروع ہواتھا تو درونِ جماعت قیادت کا نشہ نقصان کے کسی ابتدائی احساس سے نہیں ٹوٹ سکا تھا۔بات بگڑتے بگڑتے جب دشوار مرحلے میں داخل ہوگئی تواور مرض بالکل پوشیدہ نہیں رہا تو معالجین نے بھی یہ اشارہ دے دیاہے کہ اب دواؤں سے کام نہیں چلے گا ، مرض جراحی کا متقاضی بن چکا ہے۔ایسے موڑ پر قیادت کو جہاں بڑے پھیر بدل کا راستہ نظر آتاہے، وہیں نظرانداز کئے جانے والے انفرادی لوگوں کو پر تولنے کی تحریک ملتی ہے اور بھنور میں پھنسی کشتی سے کوئی اُسی وقت چھلانگ لگاتا ہے جب کوئی تکنیکی کنارہ نظر میں ہو۔
تازہ ایپی سوڈ میں کانگریس کے بچے کھچے سینئر لیڈروں کے محتاط ردّعمل میں کہیں کوئی چونکانے والی بات سامنے نہیں آئی۔ البتہ الزام اور جوابی الزام کا سلسلہ ابھی کچھ اور دنوں تک جاری رہے گا۔ترقی پسند قوموں کی جمہوری سیاست ابھی تک مزاجاً جمہوری نہیں بن سکی ہے یہی وجہ ہے کہ 1977 سے اب تک ہماری جمہوری سیاست کی کمزوریو ں سے کوئی نسل مثبت فائدہ نہیں اٹھا پائی ۔ خدا کرے ایکسپوزر کے نئے اور نسبتاً زیادہ کھلے ماحول میں نسل آئندہ اِس واقعے سے اب اور منفی اور وقتی فائدہ اُٹھانے کو ترجیح نہ دے۔امید پہ دنیا قائم ہے۔۔
(مضمون نگار یو این آئی اردو کے سابق ادارتی سربراہ ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS