ہم نہیں تو کون رے : زین شمسی

0

زین شمسی

وقت بدلتا ہے، حالات بدلتے ہیں، جذبات بھی بدل جاتے ہیں۔وقت کا پہیہ اگر تیزی سے گھوم جائے تو سمجھ لینا چاہیے کہ اس کو پیچھے سے کوئی نامعلوم طاقت تیز رفتاری کے ساتھ معلوم سمت میں دھکا دے رہی ہے۔حالات حاضرہ پر بڑے بڑے صحافیوں کے قلم نے لکھنا چھوڑ دیا۔ ٹائمس آف انڈیا اور دی ہندو جیسے اخبارات نے اپنے نظریہ سے منہ موڑ لیا۔ الیکٹرانک جرنلزم کو ختم ہوئے ایک زمانہ گزرگیا۔ تحریکیں اور جلسے جلوس کی خاموشی نے بہت کچھ سمجھا اور پڑھا دیا۔ انصاف اور انتظامیہ کے کئی بڑے فیصلے اور احکام دیکھ کر لوگ انگشت بدنداں ہوچکے ہیں۔ جمہوری نظام کے سب سے بڑے ادارے انتخابی کمیشن کا احوال کسی سے چھپا نہیں ہے۔ غیر بی جے پی منتخب سرکاروں میں استحکام نہیں ہے۔ تعلیمی میدان کی بنیادی گھاسیں اکھڑ چکی ہیں۔ گویا ہمیں جس پر ناز تھا، اس پر گاج گرچکی ہے۔ اب اتنی ساری چیزیں اتنی جلدی کیسے بدل گئیں۔ اتنے سارے ستون کیسے چرمرا گئے، اس پر طویل بحثیں درکا رہیں۔ اس کے لیے کون لوگ ذمہ دار ہیں اور کس کی غلطی ہے، یہ سارے مباحث لگاتار چلتے رہتے ہیں اور چلتے رہیں گے اور ساتھ ہی جو ہوا، جو ہونا ہے، وہ بھی ہوتا رہے گا۔
کسی بھی سماج اور معاشرے کی تشکیل اور توسیع کے لیے زمانے لگتے ہیں۔ اس سماج کو استحکام بخشنے میں کئی عوامل درکار ہوتے ہیں۔ اتار چڑھائو کے کئی دور آتے ہیں اور پھر ایک نیا سماج تشکیل پاتا ہے۔ آزادی کے بعد سے بھی ایسا ہی ہوتا آیا ہے اور بھارت کی شبیہ ایک سیکولر جمہوری بھارت کی بنی اور نہایت شاندار طریقے سے بھارت نے ترقی کے منازل طے کیے اور دنیا میں اپنی شناخت قائم کی۔ مہاتما گاندھی اور مہاتما بدھ بھارت کے سفیر کے طور پر جانے گئے۔ اندرونی خلفشار بھی چلتا رہا، فسادات اور نفرت کی ہوا ئیں بھی فضائوں کو مکدر کرتی رہیں، لیکن عوام سب کچھ بھول کر آپس میں رشتے ناطے بناتے رہے۔
پھر یکایک ایک آندھی اٹھی اور اس آندھی میں بھارت کی ایک نئی شکل سامنے آئی۔ ماضی کے استحکام کو دھچکا پہنچا اور سارے مینار یکایک منہدم ہوتے گئے۔یہ بہت تیزی کے ساتھ ہوا۔ اتنی تیزی کے ساتھ کہ یہ سوچ کر بھی تعجب ہونے لگا کہ ماضی کے ہندوستان میں ایسی سوچ کس قدر پیوست تھی کہ وقت بدلتے ہی نہ ہی سامنے آئی بلکہ پوری قوت سے حاوی ہوتی گئی اور اتنی حاوی ہو گئی کہ بھارت کے سارے ادارے، ارادے اور وعدے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ آخر بھارت کے معماروں سے کہاں پر بھول ہوئی، کون سی چوک ہوئی کہ بھارت کی اقلیت گزشتہ دس سالوں میں کسی کونے میں دبک سی گئی۔ مانو وہ ہندوستان کا حصہ ہی نہیں رہی تھی کبھی۔ الیکٹرل پالیٹکس میں صفر اور ملازمت میں صفر کے برابر اور سماجی خدمات میں اس سے بھی کم اعداد و شمار نے ہلا کر رکھ دیا۔ سچر کمیٹی نے تو مسلمانوں کی معاشی زبوں حالی کا کچا چٹھا کھولا تھا اور یہاں تو بغیر کسی کمیٹی کے یہ ظاہر ہوگیا کہ مسلمانوں کی کوئی حیثیت ہی نہیں باقی رہی۔ نہ ان کے پاس کوئی لیڈر بچے اور نہ کوئی ایسا عالم دین جن کی باتیں سنجیدگی سے سنی جا سکیں۔ اتنا کھوکھلا پن کہ سوچئے تو خوف محسوس ہوتا ہے۔ وقت نے مسلمانوں کو زد میں لے لیا اور اب ان سے کوئی راہ بنائی نہیں جا رہی ہے۔ جن پر تکیہ تھا وہ خود ہی اپنا وجود بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ علاقائی پارٹیاں اوندھے منہ گر رہی ہیں اور کانگریس کے راہل اپنی صلیب اپنے کاندھے پر لیے سڑک یاترا پر نکل رہے ہیں۔آخر کون سی ایسی وجہ ہے کہ بھارت کے عوام خاص کر پڑھے لکھے اور خاص کر بے پڑھے لکھے بانسری کی دھن پر کسی انجان راستے پر گامزن ہوتے جا رہے ہیں۔ سماج اتنا زیادہ بدل گیا ہے کہ کسی کو کوئی کچھ سمجھا بھی نہیں پا رہا ہے۔ واٹس ایپ اور انسٹا کی دنیا نے پوری دنیا کو اپنی زد میں لے لیا ہے مگر ہندوستان کو تو بدل کر ہی رکھ دیا ہے۔ اخلاقیات اور انسانیت معدوم ہوتی ہوئی گوریا بن چکی ہے۔
مسلمانوں کی حالت زار پر غور کیجیے تو محسوس ہوگا کہ مسلمانوں کا دشمن باہر کا نہیں ہے بلکہ مسلمان خود ہی اپنے دشمن بن چکے ہیں۔ مسلکی زاویہ کو چھوڑ بھی دیجیے تو اپنی بیچارگی کا مداوا وہ ان سے کرنے کی کوشش کرتے ہیں جنہوں نے انہیں اس حال پر پہنچایا ہے۔ مسلمانوں کے بڑے بڑے ادارے اپنے نگہبان کی تلاش میں برسوں سے آنکھیں بچھائے بیٹھے ہیں۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی خبریں سب کو معلوم ہی ہیں۔ کسی بھی منصب اور عہدے کا فیصلہ اہلیت کی بنیاد پر نہیں ہے بلکہ سر جھکانے کی بنیاد پر ہے۔ بہار کی اردو اکادمی چیئر مین شپ کے لیے ترس رہی ہے۔ دیگر ادارے کام چلائو موڈ میں ہیں۔ اردو کا سب سے بڑا ادارہ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ڈائریکٹر کی راہ میں آنکھیں بچھائے ہے۔ غیر سرکاری ادارے، انجمنیں، تنظیمیں اور دیگر درس و تدریس میں مصروف مدارس اور اسکولوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ نہ سرکار کو اس میں دلچسپی ہے اور نہ مسلمانوں کو اس کی فکر ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ ان کی پوسٹس پر ان لوگوں کی نظر نہیں ہے جو اس کے اہل ہیں، لیکن معاملہ تب بگڑتا ہے جب اہل لوگ آپس میں ہی ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچتے ہیں کہ اگر مجھے یہ پوسٹ نہیں ملی تو کسی کو نہیں ملنی چاہیے۔ خواہ پوسٹ خالی ہی کیوں نہ رہ جائے۔ یونیورسٹیوں میںتقرری کے دوران ایسی کھینچ تان چلتی ہے کہ کئی دفعہ انٹرویو ہی کینسل ہوجاتا ہے۔آج کے دور میں کوئی نہیں چاہتا کہ اسلامی ادارے آگے بڑھیں، اردو کا فروغ اور اس کی ترویج ہو۔ سب کی بس یہی آرزو ہے کہ اس پوسٹ کو مجھے اپنے قبضہ میں کرنا ہے۔ اگر میری نہیں ہوئی تو کسی کی نہیں ہونے دینا ہے۔ خواہ اس سے قوم کا کتنا بھی نقصان ہو جائے۔ سرکاریں بھی حیرت زدہ ہیں کہ کتنی گندھ مچائی جارہی ہے۔ اسے تو موقع ملنا چاہیے۔ اسے تو یہ دکھانا ہے کہ دیکھئے ہم نے تو کوشش کی، مگر اردو والے، آپس میں ہی اتنے گتھم گتھا ہوگئے ہیں کہ ہم کیا کریں۔ دراصل بات وہی ہے کہ ہم نہیں تو کون رے۔۔۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS