مغربی بنگال میں نفرت انگیزی

0

کچھ عرصہ قبل عدالت عظمیٰ نے نفرت انگیزی، زہریلے بیانات اور فرقہ واریت کے خلاف بلا امتیازسخت ترین کارروائی کی ہدایت دی تھی۔ مرکزاور ریاستی حکومتوں کے ساتھ ساتھ مرکزکے زیرا نتظام علاقوں سے عدالت نے کہا تھا کہ نفرت انگیز تقریر یا بیانات کے معاملے میں کسی شکایت کا انتظار کرنے کے بجائے فوراً ایف آئی آر درج کریں۔عدالت کی اس ہدایت پر کتنا عمل ہورہاہے، اس کے اعدادوشمار تو دستیاب نہیں ہیں لیکن نفرت انگیزی کے واقعات میں مسلسل اضافہ ضرور ہورہاہے۔ نچلی سطح کے سیاسی کارکنوں سے لے کر قیادت کی اعلیٰ کرسیوں پر بیٹھے ہوئے سیاسی رہنما مسلسل ایسے زہریلے بیانات دے رہے ہیں جن سے ملک کا سیکولر کردار لہو لہان ہورہاہے۔ان ریاستوں میںجہاں اپوزیشن حکمراں ہے، بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنماتمام حدودو قیود پھلانگتے ہوئے رزالت کے اس مقام پر پہنچ گئے کہ اس سے نیچے کا تصور نہیں کیاجاسکتا ہے۔ ذات پات، زبان، مذہب، علاقہ اور صنفی شناخت کو نشانہ بناکر نفرت کی وہ فصل کھڑی کردی ہے جسے کاٹنا ہندوستانیوں کو پڑرہاہے۔
مغربی بنگال میں تو بی جے پی کے رہنمائوں کا پورا ریوڑ نفرت اور اشتعال انگیزی کی مہم میں سرگرم ہے۔ارکان قانون سازیہ کے معزز عہدہ پر بیٹھے ہوئے یہ لیڈران پگڑی پوش آئی پی ایس افسر کو خالصتانی اور مسلمان کو پاکستانی کہنے میں بھی عار محسوس نہیں کرتے۔مغربی بنگال میں ضلع جنوبی 24پرگنہ کے سندیش کھالی میں ہونے والے تشدد کے واقعات کو روکنے کے لیے نافذ حکم امتناعی کی خلاف ورزی کرکے علاقہ کا دورہ کرنے والے اپوزیشن لیڈر شوبھندو ادھیکاری کو جب ڈیوٹی پر مامور ایک پگڑی پوش پولیس افسر نے روکا تو انہوں نے بلا کسی ہچکچاہٹ کے اسے مبینہ طورپر خالصتانی اور اس کے ساتھ موجود دوسرے پولیس افسر کو پاکستانی کہہ ڈالا۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ مغربی بنگال میں بی جے پی کی یہ ذہنیت عوام کے سامنے آئی ہے۔اس سے قبل بھی کئی واقعا ت ہوچکے ہیں جن میں بی جے پی کے لیڈروں نے مسلمانوں کو کھلے طور پر ہندوستان دشمن کہا اوراس کی تشہیر میں اپنی پوری طاقت جھونک دی۔ لیکن مغربی بنگال میں کسی سکھ کو خالصتانی کہے جانے کا یہ پہلا موقع ضرور ہے۔اس بیان کے بعد سے پوری ریاست میں احتجاج اور مظاہرہ کا دور شروع ہوگیاہے۔مغربی بنگال کی کئی سکھ تنظیمیں شوبھندو ادھیکاری کے اس ناروا تبصرہ کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے سڑک پر آ چکی ہیں۔ بی جے پی کے صدر دفتر کے باہر کئی دنوں تک مسلسل دھرنا دیا گیا اور شوبھندوادھیکاری کی گرفتاری کامطالبہ بھی کیا گیا۔ سکھوں کا وفد گورنر سے بھی ملا اور سر کی پگڑی کی حرمت اور امتیازی سیاست کے خلاف مناسب تحقیقات کا مطالبہ کیا،جس کے بعد گورنر سی وی آنند بوس نے ملک کی جدوجہد آزادی اور قومی سلامتی میں سکھوں کے تعاون کاذکر کرتے ہوئے ان کی اشک سوئی کی کوشش کی۔ لیکن اس بیچ کئی تنظیمیں کلکتہ ہائی کورٹ بھی پہنچ گئی ہیں اور عدالت سے مداخلت کی اپیل کی۔اس معاملے کی تحقیق ہوگی یا نہیں، شوبھندو ادھیکاری قصور وارپائے جائیں گے یا نہیں، عدالت میں کیا ہوگا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا مگر مسلمانوں اور سکھوں سے بی جے پی نے اپنی نفرت کا برملااعلان کرتے ہوئے یہ بتادیا ہے کہ اس کی نظر میںہندوئوں کے علاوہ کوئی بھی ہندوستانی نہیں ہے، چاہے وہ کار سرکار پر مامور کوئی مسلمان یا پگڑی پوش سکھ ہی کیوں نہ ہو۔
آج ہندوستان میں مذہب، زبان، علاقہ، ذات پات کی بنیاد پر ہورہی اس سیاست میں بھلے ہی بی جے پی سرخیل ہو اور پوری مستقل مزاجی کے ساتھ ملک کے سیکولر کردار پر وار کررہی ہے لیکن اس سے انکار نہیں کیاجاسکتا ہے کہ دوسری پارٹیاں بھی اس کے اسی نقش قدم پر چل رہی ہیں۔بھلے ہی یہ پارٹیاں کھلے عام فرقہ وارانہ بات نہیں کرتی ہیں لیکن اکثریت کو رام کرنے کیلئے ان کے اقدامات اور اقلیتوں سے صرف نظر کا جو رویہ انہوں نے اپنا رکھا ہے، وہ اسی کا اشارہ ہے۔
سیاسی پارٹیوں کے اس عمل سے سیکولرازم اور مذہبی رواداری کو فروغ دینے والی آئینی اقدار پر سوال اٹھتا ہے۔نفرت انگیزی کے اس بڑھتے رجحان پر قابو پانے کیلئے عدالتی احکامات ایک حد تک معاون ہوسکتے ہیں لیکن اس کے مکمل سدباب کیلئے ضروری ہے کہ سول سائٹی سامنے آئے اور ایسے نفرت پھیلانے والے سیاسی لیڈروں کا بائیکاٹ کرے۔عوام کی مشترکہ کوششوں سے ہی مذہب، علاقائیت، زبان یا کسی اور بنیاد پر ہونے والی نفرت انگیزی اور فرقہ واریت کامقابلہ کیاجاسکتا ہے۔اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ عوامی سطح پرروزمرہ کی زندگی میں ہونے والے تفرقے کو نفرت کی بنیاد نہ بنایاجائے، امن، عدم تشدد، ہمدردی، سیکولرازم اور انسانیت پسندی کی اقدار کوفروغ دیا جائے۔ورنہ یہ اقتدار کے بھوکے سیاست داں اس عظیم ملک کی وحدت، سالمیت، یکجہتی، امن اور ترقی کو اپنے مفاد کا ایندھن بناڈالیں گے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS