’وشو گرو ‘ بننے کی حسرت کیسے پوری ہوگی؟

0

پروفیسرعتیق احمد فاروقی
ہرنیا سال نئی امیدیں لیکر آتاہے ۔ اس سے بہتر کوئی تصور نہیں ہوسکتا کہ ہندوستان مستقبل میں مستقل مسائل کے درمیان تیز رفتار ترقی کے راستے پر گامزن ہوگا۔ اسی تصور کے تحت کئی ذی وقار شخصیتوں کی طرف سے یہ کہاجاتاہے کہ ہندوستان’ وشوگرو‘ بننے کی سمت میں بڑھ رہاہے۔مختلف لوگوںکیلئے ’وشو گرو‘ کا تصور الگ الگ ہوسکتاہے لیکن اس بات سے سبھی اتفاق کریں گے کہ ہندوستان ترقی کی راہ پر بڑھنے کے ساتھ دنیا کے مسائل کے تصفیے میں معاون ثابت ہوگا اوردوسرے ممالک کیلئے مشعل راہ بھی بنے گا۔ پتہ نہیں یہ موقع کب آئے گالیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ملک کی ترقی کا ایک راستہ ہمارے اسکولوں اور یونیورسٹیوں سے ہوکر گزرتاہے۔ ملک کو آگے لیجاناہے تو تعلیم میں اصلاح کو ترجیح دیناہوگی۔ ترجیح دینے کے فقط فیصلے سے کام نہیں چلنے والاہے بلکہ زمین پر اس کا عمل درآمد بھی نظر آنا چاہیے۔ تعلیم ہی کسی مستقبل کی نسل کو ان اقدار سے لیس کرتی ہے جو اس کی ہمہ جہت ترقی میں معاون بنتی ہے۔ بنااساتذہ تعلیم کا تصور بھی نہیں کیاجاسکتا۔ ایک ایسے وقت میں جب ملک کے ’وشو گرو‘ بننے کی باتیں چل رہی ہیں تب یہ دیکھنا تکلیف دہ ہے کہ ملک کی مرکزی یونیورسٹیوں اور آئی آئی ٹی وآئی آئی ایم میں اساتذہ کی گیارہ ہزار سے زیادہ جگہیں خالی ہیں ۔ پارلیمان کے موسم سرماکے اجلاس میں بتایاگیاکہ45مرکزی یونیورسٹیوں میں تسلیم شدہ 18956جگہوں میں سے پروفیسر،ایسوسی ایٹ پروفیسر اوراسسٹنٹ پروفیسر کی کل 6180جگہیں خالی ہیں ۔ ہندوستانی تکنیکی اداروں میں تسلیم شدہ 11170جگہوں میں سے 4502جگہیں خالی ہیں۔ اسی طرح آئی آئی ایم میں 1566جگہوں میں سے 493 جگہیں خالی پڑی ہوئی ہیں۔ حالانکہ مرکزی وزیرتعلیم کی جانب سے یہ دعویٰ کیاگیاہے کہ خالی جگہوں کو بھرنے کی ایک مہم چلائی جارہی ہے لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ یہ مہم اتنی متحرک نہیں ہے جتنی ہونی چاہیے کیونکہ گزشتہ سال جولائی میں پارلیمان میں ہی بتایاگیاتھا کہ ملک کے 43مرکزی یونیورسٹیوں میں اساتذہ کی 6549جگہیں خالی ہیں۔ ان میں سے کچھ یونیورسٹیاں ایسی تھیں جن میں اساتذہ کی سیکڑوں جگہیں خالی تھیں اب کیا حالات ہیں پتہ نہیں ،لیکن یہ کسی سے چھپانہیں ہے کہ کئی بار وائس چانسلروں سے لیکر اساتذہ تک کی تقرریوں میں ضرورت سے زیادہ وقت لگ جاتاہے ۔ کئی بار غیرضروری تاخیر کے اسباب کے بارے میں کچھ پتہ بھی نہیں چلتا۔
جب مرکزی یونیورسٹیوں اور آئی آئی ٹی وآئی آئی ایم میں اساتذہ کی تمام جگہیں خالی ہیں تب یہ اندازہ آسانی سے لگایاجاسکتاہے کہ ریاستوں کی یونیورسٹیوں اور تکنیکی ومیڈیکل کالجوں میں اساتذہ کی خالی جگہوں کی کیا حالت ہوگی؟ بدقسمتی سے حالات اندازہ سے زیادہ خراب ہیں۔ کئی یونیورسٹیاں ایسی ہیں جن میں اساتذہ کی تمام جگہیں خالی ہونے کے بعد بھی سالوں اورکچھ جگہوں پر دہائیوں سے تقرری نہیں ہوئی ہے۔ اس کی وجہ سے کچھ شعبے کنٹریکٹ پر رکھے گئے اساتذہ کے سہارے چل رہے ہیں۔ اس کا اندازہ بھی آسانی سے لگایاجاسکتاہے کہ جن یونیورسٹیوں میں اساتذہ کی درجنوں جگہیں برسوں سے خالی پڑی ہوئی ہیں وہاں درس وتدریس کی کیاحالت ہوگی؟اس بات پر حیرانی نہیں ہے کہ اساتذہ کی کمی کے چلتے ملک کی کچھ یونیورسٹیاں تین سال کی پڑھائی کے بعد دی جانے والی ڈگری چارسالوں کے بعد بھی نہیں دے پارہی ہیں۔ اسی طرح کچھ یونیورسٹیوں کے طلباء پانچ سال بعد بھی اپنی گریجویشن کی ڈگری پانے کا انتظار کررہے ہیں۔ مسئلہ صرف یونیورسٹیوں کی سطح پر ہی اساتذہ کی کمی کا نہیں ہے ۔ اُن کی طرح پرائمری اورانٹرمیڈیٹ کالجوں میں بھی بڑی تعداد میں اساتذہ کی اسامیاں خالی پڑی ہوئی ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ کووڈ وبا نے دیگر شعبوں کی طرف تعلیمی شعبے پر بھی اثر ڈالاہے اوریہ کہاجاسکتاہے کہ اس کے چلتے کہیں نہ کہیں اساتذہ کی تقرری بھی اثرانداز ہوئی ہے لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیاجاسکتاکہ گزشتہ تین سالوں کے دوران مختلف ریاستوں کے انتخابات سمیت دیگر کئی کام وقت سے ہوتے رہے ہیں۔ پرائمری اورانٹرمیڈیٹ اسکول بھی کس طرح بڑی تعداد میں اساتذہ کی کمی کا سامنا کررہے ہیں اس کی اطلاع گزشتہ سال پارلیمان میں دی گئی تھی۔ اُسی اطلاع کے مطابق ملک بھر کے سرکاری اسکولوں میں اساتذہ کی دس لاکھ ساٹھ ہزار ایک سو انتالیس جگہیں خالی پڑی تھیں ۔ کہانہیں جاسکتاکہ گزشتہ ایک سال میں ان میں سے کتنی جگہیں بھری جاچکی ہیں لیکن ایک ایسے وقت پر جب نئی تعلیمی پالیسی پر عمل کیاجارہاہے ، تب اس کا کوئی جواز نہیں بنتاکہ پرائمری اسکول سے لیکر یونیورسٹی تک اساتذہ کی کمی کاسامنا کیاجاتارہے۔
جیسے بہترتعلیم کیلئے حسبِ ضرورت اساتذہ ضروری ہیں ویسے ہی نصاب کا معیار بھی۔ یہ مسلسل سننے میں آتاہے کہ ہمیں غلط تاریخ پڑھائی گئی ہے لیکن اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے کہ کیا اب ایسی تاریخ نہیں پڑھائی جارہی ہے ؟ یہ سمجھنا مشکل ہے کہ ایسے طریقے کیوں نہیں اپنائے جارہے ہیں جس سے مستقبل کی نسل کو غلط تاریخ نہ پڑھائی جائے۔ کیا یہ بات دلچسپ نہیں ہے کہ مودی حکومت کے ساڑھے آٹھ سال اورچاروزیرتعلیم کے بعد بھی تاریخ کے نصاب میں ایسی ترمیم نہیں کی جاسکی ہے جس سے طلباء کی غلط تاریخ پڑھانے کی شکایت دور ہوسکے؟ اس کے پیچھے ایک سبب ہے ۔تاریخ لکھنے والوں کی ذہنیت پر ان کی انفرادی فکریات اثرانداز ہوتی ہے۔ تاریخ کو سمجھنے کیلئے یہ دیکھناہوگاکہ اوّل، تاریخ لکھنے والا بائیں بازو کاہے ، دائیں بازو کا ہے یا مرکزی نقطۂ نظر والا ہے۔ دوئم، وہ ایماندار اورغیرجانب دار ہے یا نہیں؟ہم تاریخ صحیح پڑھ رہے ہیں یا غلط پڑھ رہے ہیں اسے سمجھنے کیلئے گہری تحقیق کی ضرورت ہے۔ مغلوں نے ہندوستان میں ہندوؤں پر ظلم کیا یا ان کے ساتھ عموماً انصاف کیا اس کا صحیح جواب نہ تو بی جے پی کے پاس ہے ،نہ کانگریس کے پاس ہے اور نہ مسلم جماعتوں کے پا س ہے۔ اس کاصحیح جواب وہی مؤرخ دے سکتاہے جس نے سارے نظام فکر کا گہرائی سے مطالعہ کیاہے اوروہ غیرجانب دار ہے ۔ سیاسی جماعتیں وہی نتیجہ اخذ کریں گی جس سے ان کے رائے دہندگان خوش ہوں اوران کو ووٹ مل سکیں۔ بہر حال یہ تمام بحث وگفتگو اِس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ ابھی ہماری ’وشوگرو‘بننے کی راہ مشکل ہے ، اسے تمام کوششوں سے ہموارکرنی ہوگی۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS