قصہ موسیٰ علیہ السلام و فرعون قرآن کریم کی روشنی میں

0

عبد العزیز
آج کے حالات میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حالاتِ زندگی یا قصۂ موسیٰ کو غور سے پڑھنا چاہئے۔ اس وقت ملک میں وہی حالات ہیں جو حالات بنی اسرائیل کے زمانے میں تھے۔ قرآن مجید میں سب سے زیادہ ذکر حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل جیسے حالات دنیا میں باربار پیدا ہوں گے اور ’ہر فرعون را موسیٰ است‘ کی بات بھی سامنے آئے گی۔
مومنین کیلئے بشارت:
خود قرآن مجید نے قصّۂ فرعون و موسیٰ بیان کرنے کی جو غرض و غایت اور اہمیت بتائی ہے وہ اس کے اپنے الفاظ میں یہ ہے:
’’ط۔س۔م۔ یہ کتاب مبین کی آیات ہیں۔ ہم موسیٰ اور فرعون کا کچھ حال ٹھیک ٹھیک تمہیں سناتے ہیں، ایسے لوگوں کے فائدے کیلئے جو ایمان لائیں۔‘‘ (القصص:۱-۳)
موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کے وقت مصر کے حالات:
جن حالات میں موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش با سعادت ہوئی وہ قرآن کے مطابق یہ ہیں:
’’ واقعہ یہ ہے کہ فرعون نے زمین میں سرکشی کی اور اس کے باشندوں کو گروہوں میں تقسیم کردیا۔ ان میں سے ایک گروہ کو ذلیل کرتا تھا، اس کے لڑکوں کو قتل کرتا اور اس کی لڑکیوں کو جیتا رہنے دیتا تھا۔ فی الواقع وہ مفسد لوگوں میں سے تھا۔‘‘(القصص: ۴)
یہ جزوی نسل بندی وہ ابتلائِ عظیم تھی جس سے نجات کو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر احسانِ عظیم سے تعبیر فرمایا ہے۔ ارشاد ہوا:
’’یاد کرو وہ وقت، جب ہم نے تم کو فرعونیوں کی غلامی سے نجات بخشی۔ انہوں نے تمہیں سخت عذاب میں مبتلا کر رکھا تھا، تمہارے لڑکوں کو ذبح کرتے تھے اور تمہاری لڑکیوں کو زندہ رہنے دیتے تھے اور اس حالت میں تمہارے رب کی طرف سے تمہاری بڑی آزمائش تھی۔‘‘(البقرہ: ۴۹)
فرعون کی یہ داروگیر اتنی سخت تھی کہ اس سے نجات کو خود موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کا انعام قرار دیا ہے:
’’یاد کرو جب موسیٰؑ نے اپنی قوم سے کہا ’اللہ کے اس احسان کو یاد رکھو جو اس نے تم پر کیا ہے، اس نے تم کو فرعون والوں سے چھڑا دیا، جو تم کو سخت تکلیفیں دیتے تھے، تمہارے لڑکوں کو قتل کرڈالتے تھے اور تمہاری عورتوں کو زندہ بچا رکھتے تھے، اس میں تمہارے رب کی طرف سے بڑی آزمائش تھی۔‘‘ (سورہ ابراہیم:۶)
دوسری جگہ اللہ تعالیٰ موسیٰ علیہ السلام کی زبان سے یوں کہلواتا ہے:
’’اور (اللہ تعالیٰ فرماتا ہے) وہ وقت یاد کرو جب ہم نے فرعون والوں سے تمہیں نجات دی، جن کا حال یہ تھا کہ تمہیں سخت عذاب میں مبتلا رکھتے تھے، تمہارے بیٹوں کو قتل کرتے اور تمہاری عورتوں کو زندہ رہنے دیتے تھے اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے بڑی آزمائش تھی۔‘‘ (سورہ الاعراف: ۱۴۱)
پیدائش موسیٰ علیہ السّلام:
ایسے جاسوسی ماحول میں جہاں ایک زبردست اور ظالم اکثریت چہاروں طرف موجود ہو اور ایک مجبور و لاچار اقلیت کے ایک ایک گھر کی خبر رکھتی ہو، یہ کیسے ممکن تھاکہ کسی بچے کی ولادت زیادہ عرصے تک چھپی رہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے پیدائش کے وقت ہی موسیٰ علیہ السّلام کی والدہ کو اس خطرے سے نہ صرف آگاہ فرمادیا بلکہ اس کے بچنے کی تدبیر بھی بتادی۔ بچے کی حفاظت کا خود ذمہ لیا اور اس کو آئندہ مقامِ رسالت پر سرفراز کرنے کی خوشخبری بھی سنادی ہے ۔
موسیٰ علیہ السّلام کو دریا میںبہانا:
ارشاد ہوا:’’ہم نے موسیٰ ؑکی ماں کو اشارہ کیا کہ ’اس کو دودھ پلا، پھر جب تجھے اس کی جان کا خطرہ ہو تو اسے دریا میں ڈال دے اور کچھ خوف اور غم نہ کر، ہم اسے تیرے ہی پاس واپس لے آئیں گے اور اس کو پیغمبروں میں شامل کریں گے۔‘‘(سورہ القصص:۷)
دوسرے مقام پر اس کی مزیدتفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا:
’’اے موسیٰ ؑ! ہم نے پھر ایک مرتبہ تجھ پر احسان کیا۔ یاد کر وہ وقت جب کہ ہم نے تیری ماں کو اشار کیا، ایسا اشارہ جو وحی کے ذریعے سے ہی کیا جاتا ہے، کہ اس بچے کو صندوق میں رکھ اور صندوق کو دریا میں چھوڑ دے۔ دریا اسے ساحل پر پھینک دیگا اور اسے میرا دشمن اور اس بچے کا دشمن اٹھالے گا۔ میں نے اپنی طرف سے تجھ پر محبت طاری کردی اور ایسا انتظام کیا کہ تو میری نگرانی میں پالا جائے۔ یاد کر جبکہ تیری بہن چل رہی تھی، پھر جاکر کہتی ہے’میں تمہیں اس کا پتہ دوں جو اس بچے کی پرورش اچھی طرح کرے۔‘ اس طرح ہم نے تجھے پھر تیری ماں کے پاس پہنچادیا تاکہ اس کی آنکھ ٹھنڈی رہے اور وہ رنجیدہ نہ ہو۔‘‘(سورہ طٰہٰ : ۳۷ تا ۴۰)
موسیٰ علیہ السّلام کی والدہ کی حالت:
ادھر اللہ تعالیٰ موسیٰ علیہ السّلام کی حفاظت، پرورش اور انہیں بامِ عروج پر پہنچانے کا انتظام فرما رہا تھا، ادھر موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کا برا حال ہو رہا تھا۔اس کی مامتا تو اسے ایک لمحے کیلئے بھی چین سے نہ بیٹھنے دے گی اورہوا بھی یوں ہی:
’’ادھر موسیٰ ؑ کی ماں کا دل اڑا جارہا تھا ۔ وہ اس کا راز فاش کر بیٹھتی اگر ہم اس کی ڈھارس نہ بندھاتے تاکہ وہ (ہمارے وعدہ پر) ایمان لانے والوں میں سے ہو۔ اس نے بچے کی بہن سے کہا کہ اس کے پیچھے پیچھے جا۔ چنانچہ وہ الگ سے اس کو اس طرح دیکھتی رہی کہ (دشمنوں کو) اس کا پتہ نہ چلا۔ اور ہم نے بچے پر پہلے ہی دودھ پلانے والیوں کی چھاتیاں حرام کر رکھی تھیں۔ (یہ حالت دیکھ کر) اس لڑکی نے ان سے کہا’میں تمہیں ایسے گھر کاپتہ بتاؤں جس کے لوگ اس کی پرورش کا ذمہ لیں اور خیر خواہی کے ساتھ اسے رکھیں۔‘ اس طرح ہم موسیٰ ؑ کو اس کی ماں کے پاس پلٹا لائے تاکہ اس کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور وہ غمگین نہ ہو اور جان لے کہ اللہ کا وعدہ سچا تھا، مگر اکثر لوگ اس بات کو نہیں جانتے۔ ‘‘ (جاری)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS